تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     29-01-2019

ایک قابل تقلید مثال

مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہمارے وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کا خواب دیکھتے ہیں۔ جزاک اللہ‘ مگر کالم نگار انہیں یاد دلانا چاہتا ہے کہ ابھی نہ تو اقبال کا خواب پورا ہوا ہے اور نہ قائداعظم کا۔ اگر اس حقیقت کو دیانتداری سے مان لیا جائے تو ہم انسانیت کی معراج (جو عملی صورت میں مدینہ کی ریاست بن کر انسانی تاریخ میں ایک روشن سنگ میل نصب کر گئی) کا بار بار (بطور ایک سیاسی نعرہ) ذکر کرنے میں کس حد تک حق بجانب ہیں؟ پنجاب اور وفاق کے وزرائے اطلاعات کی باتیں سن کر تو دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم بنگلہ دیش کے معیار تک ہی پہنچ جائیں تو کمال ہوگا۔ قارئین کو اچھی طرح علم ہوگا کہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والے اور سندھ میں تھر کے افتادگانِ خاک کس حال میں ہیں؟ اگرآپ کو مذکورہ بالا علاقوں کی ایک جھلک دیکھنے کا موقع ملے تو آپ خون کے آنسو روئیں گے۔
1971 ء میں وطن عزیز اس لئے دو حصوں میں تقسیم ہوا کہ مغربی پاکستان کا برسر اقتدار طبقہ نہ بنگالیوں کے معاشی حقوق کا احترام کرتا تھا اور نہ سیاسی حقوق کا۔ بدقسمتی سے اب ہمارے پاس کوئی ایسی گوند نہیں جو ایک ملک کے دو ٹکڑوں (اور وہ بھی جو اتنے بڑے خون خرابے کے بعد ایک سے دو بنے) کو دوبارہ جوڑ سکے۔ مگر تاریخ کا مطالعہ ہمیں بڑے قیمتی سبق سکھاتا ہے۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق جو افراد اور قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیںانہیں یہ سزا ملتی ہے کہ وہ اپنی پرانی غلطیوں کو دُہرانے کا عذاب جھیلتے ہیں اور نئی مصیبتوں کے حقدار بن جاتے ہیں۔اب ہم چلتے ہیں اس قابلِ تقلید مثال کی طرف جوجنوبی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک ایکوا ڈور میں رونما ہونے والے ایک معجزے کے متعلق ہے جس نے دنیا بھر کی توجہ اپنی طرف 
مبذول کرائی۔ اُس فقید المثال معجزے کا نام ہے: The Council of Citizen Participation and Social Control(CPCCS)۔ اس ادارے کے قابل فخر رہنما کا نام ہے Julio Cesar Trujillo۔ اُنہوں نے 1984 ء میں اپنے ملک کے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا ( ہمارے جنگجوصفت ملک میں الیکشن میں حصہ لینے کو الیکشن لڑنا کہتے ہیں) تو ناکام ہو گئے۔ صرف پانچ فی صد ووٹ ملے۔ اب وہ مذکورہ بالا ادارے کے سربراہ بن کر اتنے زیادہ اختیارات کے مالک ہیں کہ ماسوائے صدر مملکت (Enin Moreno) اُس ملک کا کوئی اور باشندہ اُن کا ہم پلہ نہیں۔ اب اُن کی عمر 87 سال ہے مگر وہ ضعیف ہر گز نہیں۔ چا ق و چوبند‘ ذہین اور مستند۔ ان تھک کام کرنے والے اور نوجوانوں کو مات دینے والے۔ برائے مہربانی ذرا اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں۔ بوڑھے آدمی کی ہم پیرفرتوت کہتے ہیں۔ (خدا جانے یہ کس بلا کا نام ہے) ۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ہمارے معاشرے میں بزرگ افراد بالکل ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ وہ کسی قسم کا رضا کارانہ کام نہیں کرتے۔ خدمت خلق کا بہترین موقع (جب اُن پر خانگی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ہوتا) گنوا دیتے ہیں۔ اگر رنڈوے ہوں تو دوسری شادی کے خواب دیکھتے ہیں اور اگر ہمت مرداں مددِ خدا پر ایمان رکھتے ہوں تو دوسری شادی کر بھی لیتے ہیں اور اپنی پہلی شادی سے ہونے والی اولاد سے خونریز جنگیں لڑتے اور دادِ شجاعت دیتے راہی ء ملکِ عدم ہوتے ہیں۔ پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ریٹائرڈ اور پنشن یافتہ افراد (جن کی تعداد لاکھوں میں ہے) ہمارا بنجر سرمایہ Dead Capital ہیں۔ نہ حاصل نہ وصول۔ کتنا اچھا ہو کہ ہماری تمام عبادت گاہیں سماجی خدمت کا محور بن جائیں اور سماجی ترقی کے کاموں میں کلیدی کردار ادا کریں اوربوڑھے لوگ (فراغت کے باوصف) اس کا ہر اوّل دستہ بن جائیں۔ شجر کاری سے لے کر تعلیم بالغاں کی ہر عوامی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔
بات شروع ہوئی تھی ایکوا ڈور کے ہیرو کی عمرسے جو 87 سالوں کی دہلیز عبورکرنے والے ہیں اور چلتے چلتے وطن عزیز تک جا پہنچی۔Julio کا زیادہ وقت اُن نالائق اور بددیانت سرکاری افسروں کو ملازمت سے برطرف کرنے میں گزرتا ہے جو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سوشلسٹ نظریات کے حامل سابق صدرRafael Corlea نے مختلف عہدوں پر فائض کئے تھے۔ سابق صدر دس سال تک برسر اقتدار رہے اور گزشتہ برس ریٹائر ہونے کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر بیلجئیم میں رہنے لگے۔ اب Julio سابق صدر کے ہاتھوں ریاستی اداروں پر لگائے گئے زخموں کو مندمل کرنے اور ریاستی نظام کی مرمت کرنے میں شب و روز مصروف رہتے ہیں۔ (غالباً اُس طرح کا کام جو ہمارے ملک میں جناب عمران خان کر رہے ہیں یا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں)۔ لطیفہ یہ ہے کہ انقلابی اصلاحات کرنے والا ادارہ (CPCCS) سابق صدر Correa نے 2008 ء میں بنایا تھا۔ اسی طرح جیسے ہمارے ملک میں دو آخری فوجی آمروں کے دور میں تین بڑے قابل تعریف کام کئے گئے‘ محتسب ِ اعلیٰ‘ قومی احتساب بیورو اور مقامی حکومتوں کا نظام ۔
ایکوا ڈور میں CPCCS جن چوٹی کے سرکاری محکموں کے سربراہوں کی تعیناتی کا اختیار رکھتا ہے اُن میں الیکشن کمیشن‘بینکاری نظام‘ اٹارنی جنرل اور جوڈیشل کونسل شامل ہیں۔ ایکو ڈور کے موجودہ اور سابق صدور ایک عرصے تک ایک دوسرے کے قریبی اتحادی رہے۔ بات تب بگڑی جب نائب صدر Jorge Glas پر برازیل کی بڑی تعمیراتی کمیٹی(Odebrect) سے رشوت لینے کے جرم میں مقدمہ چلا۔ جرم ثابت ہوا اور اُسے قید کی سزا سنائی گئی اور سابق صدر نے اپنے چہیتے سیاستدان کے زیر عتاب آنے کا ذمہ دار نئے صدر کو ٹھہرایا۔ فروری 2008ء میں ہونے والے ریفرنڈم کے ذریعے لوگوں نے پارلیمنٹ کو یہ اختیار دیا کہ وہ CPCCSکے نئے اراکین نامزد کرے۔Julio Trujillo نے عمر بھر عوام کی خدمت کی اور بڑا نام کمایا‘ خصوصاً ماحول کی بہتری کے لئے سرگرم تنظیمYasunidos‘ سے اپنی گہری وابستگی سے ‘جس نےRain Forest میں تیل نکالنے اور سارے ماحول کو تباہ و برباد کرنے کی روک تھام کے لئے 750,000 لوگوں کے احتجاجی دستخط اکٹھے کئے ۔ اب CPCCS نے الیکشن کمیشن کے نئے بے داغ کردار کے اراکین کے لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ 
گزشتہ برس 23 اگست کو ایکو ڈور ایک سیاسی زلزلے کی لپیٹ میں آگیا۔ Julio کے ایما پر CPCCS نے سپریم کورٹ کے نو کے نو جج برطرف کر دیئے‘ ان میں سے کم از کم تین کو مالی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ رائے عامہ کی بھرپور تائید سے Julio یہ بڑی جنگ بھی جیت گئے۔ دوسرا بڑا سیاسی طوفان اُس وقت آیا جب حکومت نے ایک قانون بنایا کہ پڑوسی ملک (وینزویلا) سے جو لوگ بھاگ کر ایکوا ڈور میں سیاسی پناہ مانگنے آئیں انہیں صرف اس صورت ملک میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی اگر وہ سرحد پر اپنا پاسپورٹ دکھائیں۔ ظاہر ہے کہ سیاسی پناہ گزینوں پر اس قسم کی پابندی کے غیر عقلی اور غیر منصفانہ ہونے میں دو رائے نہیں ہو سکتی۔ یہ قانون واپس لے لیا گیا۔ سالِ رواں میں CPCCSکے اراکین نامزدگی کی بجائے پارلیمنٹ کے اراکین کے ووٹوں سے چنے جائیں گے‘ جس سے اُن کی سیاسی پوزیشن بدرجہا مستحکم ہو جائے گی۔
Julioنے یہ امید ظاہر کی ہے کہ اُن کے ملک میں جمہوری ادارے اس طرح جڑ پکڑ لیں جس طرح زمین میں پودے۔ وہ پائیدار ہو جائیں اور شراکتی جمہوریت کا نیا دور شروع ہو جائے‘ جس میں عوام اختیارات کے استعمال کرنے کے عمل میں نا صرف شریک ہوں‘ بلکہ شریک ہوتے بھی نظر آئیں۔ سُلطانی جمہور کامطلب ہر چار یا پانچ سال کے بعد الیکشن کروانا نہیں ہوتابلکہ عوام کو اپنے اُوپر ہر سطح پر حکمرانی کا حق دینا ہوتا ہے۔ میں نے ایک گذشتہ کالم میں تجویز دی تھی کہ ہم ایک سرکاری وفد میکسیکو بھیجیں جو وہاں کے صدر سے عوام دوستی کا سبق سیکھ کر آئے۔ نقشہ دیکھنے سے پتہ چلا کہ میکسیکو ایکوا ڈور سے دور نہیں‘ زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ وفد دونوں ممالک سے ہو آئے اور اپنی تہی دامنی کا جلد از جلدمؤثر علاج کرے۔ علم حاصل کرنے کی کاوش چین تک محدود نہیں ایک اور قابل تقلید مثال کو سیکھنے سمجھنے کیلئے چین سے زیادہ دور سفر کے لئے کمر باندھیے ۔اگر مجوزہ وفد میکسیکو اور ایکوا ڈور جاتے وقت راستے میں لندن سے گزرتا جائے تو کالم نگار (جو اپنا ہوائی ٹکٹ خود خریدے گا) بھی ا س کا ہم رکاب ہوگا۔ 
پس تحریر:کیا سانحۂ ساہیوال میں شہید (صدر علوی کے الفاظ میں) ہونے والے چار بے گناہوں کی بند ہو جانے والی آنکھیں کروڑوں اندھوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں؟ مژگان تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔ سیلاب بھی پانی کا نہیں‘معصوم افراد کے خون کا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved