’نظریاتی کارکن‘ ایک ایسا اسم ہے جس کا کوئی مسمّیٰ نہیں۔ راولپنڈی کی مرکزی شاہراہ پر کچھ دنوں سے انتخابی بینر آویزاں ہیں۔ یہ ان افراد کی طرف سے ہیں جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے انتخابی امیدوار بننا چاہتے ہیں۔یہ بینر زبانِ حال سے بتا رہے ہیںکہ سیاست میں نظریات کی کیا اہمیت ہے اور سیاست میں متحرک لوگوں کی سوچ کیا ہے ۔ ن لیگ کے ٹکٹ کی خواہش رکھنے والوں کے بینر پر سب سے نمایاں تصویر نوازشریف یا شہباز شریف کی نہیں، چودھری نثار علی خان کی ہے۔ اسی طرح جو لوگ پیپلز پارٹی کا ٹکٹ چاہتے ہیں انہوں نے اپنے بینرز پر فریال تالپور اور صدر آصف زرداری کا چہرہ نمایاں کیاہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی تصاویر بھی موجود ہیں لیکن پس منظر میں۔ اِس ترجیح کا سبب واضح ہے۔ راولپنڈی میں ن لیگ کے ٹکٹ چودھری نثار کے ایما پر تقسیم ہوتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے محترمہ فریال تالپور کی مرضی سے۔ٹکٹ کا خواہش مند حقیقت پسند ہے اور جانتا ہے کہ کسے خوش کرنا ہے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سیاست میں لوگوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ سیاست کی دنیا میں چند سال ہوئے کہ نظریات غیر اہم ہو گئے ہیں۔ عالمی سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا تو اس کے اثرات ہماری سیاست پر بھی مرتب ہوئے۔سرمایہ داری اور اشتراکیت کی جنگ سرمایہ داری کی فتح پر منتج ہوئی تویہ بحث عملاً غیر متعلق ہوگئی۔تاہم میرا خیال ہے کہ اس کے بعض دوسرے اسباب بھی ہیں جن پر غور کرنا چاہیے۔ اس کا ایک بڑا سبب جمہوریت کا فروغ ہے۔ جب لوگوں کو اظہارِ رائے کی آزادی میسر آئی اور انہیں کسی ایک نقطۂ نظر کا پابند رکھنا ممکن نہ رہا تو اس سے سماجی سطح پر سوچ کا عمل آگے بڑھا۔ بلا شبہ فکری پراگندگی بھی اس کا حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ لوگوں کے لیے یہ موقع بھی پیدا ہواکہ وہ مانے ہوئے خیالات کے بر خلاف دوسرے نقطہ ہائے نظر بھی سن رہے ہیں ۔ انسان پتھر نہیں ہوتا۔ ذہن پر اگر کوئی خیال مسلسل دستک دیتا رہے تو ایک وقت آتا ہے کہ اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ سوچ کے اِس سفر میں لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ سیاست اصلاً کوئی نظریاتی بحث نہیں ہے، اس کا تعلق عمل کی دنیا سے ہے۔ یہ امورِ سیاست کو سرانجام دینے کا نام ہے اور ریاست کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جن کے بارے میں کوئی نظریاتی اختلاف موجود نہیں۔ عوام کو جان و مال کا تحفظ چاہیے۔ انہیں معاشی مواقع چاہئیں کہ وہ بہتر زندگی گزار سکیں۔ انہیں خارجی دشمنوں سے تحفظ چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بدامنی، دہشت گردی، ہیپاٹائٹس اور پولیو سے نجات بھی اُن کی ضرورت ہے۔ یہ مسائل کیسے حل ہوں؟ دنیا میں اس کے کچھ اصول و ضوابط طے ہیں جن کا ماخذ انسانی تجربہ اور اس کا تہذیبی ارتقا ہے۔ اچھا نظامِ حکومت(good governance)، قابل بھروسہ قیادت، عوامی خوہشات کی ترجمانی، قانون کی حکمرانی، دیانت، عوامی مشاورت جیسے چند اصول ہیں جن پر عالمی سطح پر اجماع پایا جاتا ہے۔ ریاست امریکا کی ہو یا سعودی عرب کی‘ روس کی ہو یا پاکستان کی‘ یہ مان لیا گیا ہے کہ حکومت و ریاست کا نظام انہی اصولوں پر مرتب ہونا چاہیے۔ جب ہم جمہوریت کو سیاسی قدر کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں تو عوام کے نظریات کی ترجمانی ہو جاتی ہے۔پاکستان میں اگر 97 فی صد لوگ مسلمان ہیں تو یہاں کے جمہوری نظام میں یہ ممکن نہیں کہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف کوئی فیصلہ ہو۔ اگر ہمیں کوئی انحراف ملے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مسلمان فرد کے ہاں بھی ہمیں بعض انحرافات مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس سے فرد کایہ نظری تشخص ختم نہیں ہوتا کہ وہ ایک مسلمان ہے۔یہی معاملہ ریاست کا بھی ہے ۔ وہاں بھی انحرافات مل سکتے ہیں لیکن اس کا سبب اخلاقی کمزوری ہے، نظریاتی نہیں۔یوں نظریاتی بحث کی عملی افادیت باقی نہیں رہتی۔ سیاسی جماعتوں کے منشور پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ظاہری ہیئت یا اسلوبِ سیاست میں اختلاف کے با وصف، اُن کے منشور زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی اسلام کو اپنا دین کہتی ہے اور جماعت اسلامی بھی آزادیٔ رائے کوفرد کا بنیادی حق قرار دیتی ہے۔ یہ یکسانیت خود اس بات کا اعلان ہے کہ سیاست میں نظریات اب غیر ضروری بحث کا عنوان ہیں جن کی کوئی عملی افادیت نہیں۔مزید یہ کہ تمام سیاسی جماعتیں 1973ء کے آئین کی بنیاد پر رجسٹر ہوتیں اور انتخابات میں شریک ہوتی ہیں۔ ہر منتخب رکن اس آئین کی وفاداری کا حلف اُٹھاتا ہے۔ اس آئین میں یہ طے ہے کہ معیشت کو سود سے پاک کیا جائے گا۔ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو گی۔ جو جماعت انتخابات میں حصہ لیتی ہے، وہ خواہی نخواہی اس آئین کی پابند ہے۔ اس سے بھی سیاست میں نظریات کی بات غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سیاست میں نظریات باقی نہیں ہیں تو نظریاتی کارکن کہاں سے آئے گا؟درخت نہیں تو پھل کی آرزُو کیسی؟مجھے خیال ہو تا ہے آج لوگ نا سمجھی میں یہ اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ 1977ء میں یہ بحث تمام ہو ئی۔اگر اس کا کوئی کردار تھا تو 1989ء میں سوویت یونین کی رحلت کے بعد وہ بھی ختم ہو ا۔آج چین اور روس اس کے سوا کچھ نہیں کہ سرمایہ داری کے ’اشتراکی چہرے ‘ ہیں کیو نکہ دنیا میں اسی کا غلبہ ہے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ آج اگر ہم کسی کو نظریاتی کارکن کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کسی پارٹی کا وفا دار کارکن ہے۔اگر کوئی ن لیگ سے وفا کر تا ہے تو وہ اس کی نظر میں نظریاتی کارکن ہے اور اگر کوئی پیپلزپارٹی کا وفا دار ہے تو وہ اس کی نگاہ میں نظریاتی کارکن ہے۔سیاست میں اب عملیت پسند لو گ ہوتے ہیں۔قیادت میں بھی اور عام کارکن کی سطح پر بھی۔کیا کسی سیاسی جماعت کی قیادت اِن معنوں میں اپنے کسی کارکن کے ساتھ وفادار ہے؟امیدواروں کے انتخاب سے واضح ہے کہ ایسا نہیں ہے۔سیاسی قیادت اُسی کو اہمیت دیتی ہے جو انتخابات میں جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی طرح سیاسی کارکن بھی اُسی وقت تک جماعت کے ساتھ رہتا ہے جب تک اسے امید ہو تی ہے کہ پارٹی عہدہ ملے گا یا پارٹی ٹکٹ۔گویا وابستگی کے اعتبار سے بھی اب کو ئی نظریاتی کارکن باقی نہیں۔وفاداری، تعلقِ خاطر،دوستی، سب کا تعلق جذبات کی دنیا سے ہے سیاست کی دنیا سے نہیں۔اگر آپ کو شک ہو تو ایاز امیر سے پوچھیئے! این اے 61سے وہ نہیں، اب جنرل عبدالمجید کے داماد میجر(ر) طاہر اقبال ن لیگ کے امیدوار ہیں جو مشرف کے وزیر رہ چکے۔ سنا ہے ایاز امیربھی اب اپنا سیاسی لائحہ عمل طے کر رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved