تجدید واحیائے دین کی تحریکوں میں یوں تو بے شمار عظیم المرتبت شخصیتوں کے نام نظر آتے ہیں‘ مگر ائمہ اربعہ کا خاص اور ممتاز مقام ہے۔ عموماً لوگ ان اماموں کو فقہ کے بانی سمجھتے ہیں اور یہ بات اپنی جگہ درست بھی ہے کہ فقہ کو مدوّن کرنے اور امت کی رہنمائی کے لیے ان کے کارنامے قیامت تک یاد گار رہیں گے‘ مگر ان کی حیثیت محض فقہی علما اور مفتیوں کی نہیں تھی۔ یہ حقیقت میں اپنے دور کے سیاسی استبداد اور شخصی حکومتوں کے مقابلے پر دعوتِ حق کے علم بردار تھے۔ دعوتِ حق کا فریضہ بڑا مشکل اور کٹھن کام ہے۔ اس کام کے نتیجے میں ابتلا وامتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ ائمہ اربعہ نے آزمایشیں جھیلیں۔ حضرت امام شافعیؒ نسبتاً براہِ راست تصادم سے محفوظ رہے‘ مگر دیگر تینوں ائمہ‘ حضرت امام ابوحنیفہؒ‘ حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کو تو حالات نے نظام حکومت کے ساتھ براہِ راست ٹکر لینے پر مجبور کردیا۔
امام اعظم حضرت ابوحنیفہؒ کے فقہی پیروکاروں کی تعداد امت مسلمہ کے درمیان سب سے زیادہ ہے۔ بے شمار لوگ ان سے قلبی لگاؤ اور گہری عقیدت رکھتے ہیں‘ مگر اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ حضرت امام کا جنازہ جیل سے اٹھا تھا۔ ان سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کی کثیر تعداد اس راہِ عزم واستقامت کا تصور بھی بھول چکی ہے۔ اسی کو ناقدری عالم کے نام سے شاعر نے یاد کیا ہے۔ ہم ذیل میں نہایت اختصار کے ساتھ امامِ اعظم اور بطلِ جلیل کے انتہائی مختصر حالات درج کررہے ہیں:
حضرت امام کا اسم گرامی نعمان بن ثابت اور کنیت ابوحنیفہ ہے۔ آپ۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۵۰ھ میں بحالت اسیری بغداد کے زنداں میں وفات پائی۔ آپ کوفے میں کپڑے کے سب سے بڑے کامیاب تاجر اور صنعت کار تھے۔ اپنی درس گاہ کا سارا خرچ اور طلبہ کی کفالت کا اہتمام اپنی ذاتی پونجی سے کیا کرتے تھے۔ آپ نے زندگی کی تمام آسایشوں کو حق کی خاطر ترک کیا اور اپنے موقف پر ایسی استقامت دکھائی کہ مال ودولت کے ضیاع اور قید وبند کی صعوبتوں سے بھی ثابت قدمی میں کوئی لغزش نہ آئی۔ قیامت خیز بلائیں اور دل ربا پیش کش سبھی ناکام ہوئیں اور داعی حق عزیمت کا کوہِ گراں ثابت ہوا۔
حضرت امام اعظمؒ کی علمی خدمات کا پوری دنیا میں شہرہ ہے‘ مگر داعی حق کی حیثیت سے انہوں نے جو نقوشِ پا چھوڑے ہیں حقیقت میں وہ روشنی کا عظیم الشان مینار ہیں۔ مستبد حکمرانوں کے مقابلے پر امام ابوحنیفہؒ نے اپنے وقت کی اصلاحی تحریک کا ساتھ دیا۔ یوں تو محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ) اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کا ساتھ کئی لوگوں نے دیا‘ مگر اس پر استقامت کا حق امام اعظمؒ ہی نے ادا کیا۔ ایک جانب اموی دور میں انھیں کوفہ کا منصبِ قضا (جج) پیش کیا گیا‘ مگر آپ نے بنوامیہ کے مظالم کی وجہ سے ان کے نظام کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ دوسری جانب کوفہ کے گورنر ابن ہبیرہ نے انھیں شدید عقوبت کا نشانہ بنایا‘ مگر آپ نے اپنے موقف سے سرِمو انحراف نہ کیا۔ ظالم حکمرانوںکی سوچ اور طرز عمل ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ آج بھی ہم اسی اذیت ناک صورت حال کا مقابلہ کررہے ہیں کہ کہیں فوجی آمریت حق کا گلا گھونٹنے کے جرم کی مرتکب ہے تو کہیں نام نہاد جمہوری پری کبھی ایک لادین اور مادہ پرست پارٹی پر مہربان ہوجاتی ہے‘ کبھی اس کی جگہ دوسری کو گلے لگا لیتی ہے‘ مگر مظالم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ محض چہرے بدلنے سے کبھی انقلاب نہیں آیا کرتا۔ امام اعظمؒ کے دور میں بنوامیہ کی جگہ عباسی دور آیا تو خلیفہ ابوجعفر منصور نے امام عالی مقام کوچیف جسٹس کا عہدہ پیش کیا‘ مگر یہ دور بھی ظلم وستم کا دور تھا۔ اس لیے آپ نے اس کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ لالچ اور منصب کی پیش کش کا حربہ کارگر نہ ہوا تو تعذیب وعقوبت کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اب ان کے لیے زنداں کے دروازے کھول دیے گئے۔ امام اعظمؒ نے پس دیوارِ زنداں جانا پسند کیا‘ مگر مداہنت برتنے اور مستبد آمریت وملوکیت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور ظالمانہ نظام کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیا۔ (حیاتِ امام ابوحنیفہؒ‘ از: محمدابوزہرہ‘ ترجمہ: غلام احمد حریری‘ تلخیص‘ ص۸۴-۸۹)
امام مالک بن انسؒ (۹۳-۱۷۹ھ) ''امام دارالہجرت‘‘ کے عظیم لقب سے معروف ہیں۔ بنوعباس کے دور میں ان سے حکمرانوں نے اپنی مرضی کا فتویٰ لینا چاہا تو امام نے صاف انکار کردیا۔ اس کی پاداش میں انھیں ستر کوڑے بھی لگائے گئے اور آپ کا نورانی چہرہ سیاہ کرنے کے بعد‘ گدھے پر سوار کرکے مدینے کی گلیوں میں گھمایا بھی گیا۔ آپ نے کوئی کمزوری دکھانے کی بجائے کھلم کھلا ہر چوراہے پر اپنے موقف کا اعلان اور مستبد حکمرانوں کے غلط افکار کا برملا ابطال بھی کیا۔ آپ فرماتے تھے: ''لوگو! جو مجھے جانتے ہیں‘ وہ تو جانتے ہیں‘ جو نہیں جانتے وہ جان جائیں کہ میں مالک بن انس ہوں اور میرا فتویٰ ہے کہ جبر سے بیعت لینا اسلام میں کسی صورت جائز نہیں۔‘‘ یوں امام مسجدنبویؐ نے اپنا موقف پورے شہر میں بڑی جرأت اور وضاحت کے ساتھ ڈنکے کی چوٹ بیان کردیا۔ حکمرانوں کو کامیابی تو کیا ملتی‘ ذلت ورسوائی ہی ان کے حصے میں آئی۔
ابوجعفر منصور عباسی جس نے امام ابوحنیفہؒ پر مظالم ڈھائے تھے‘ نے امام مالکؒ کے بارے میں مختلف رویہ اختیار کیا۔ اپنے گورنرمدینہ کو معزول کردیا۔ پھر امام عالی مقام کی خدمت میں معذرت کا خط لکھا۔ جب حج کے موقع پر ان سے ملاقات ہوئی تو بالمشافہ بھی معافی مانگی۔ آپ نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معاف کردیا‘ تاہم اس کا دیا ہوا کوئی منصب یا مراعات کبھی قبول نہ کیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ارباب وفا سرکٹا تو سکتے ہیں‘ جھکا نہیں سکتے۔ (امام مالکؒ‘ از: محمدابوزہرہ‘ اردو ترجمہ: عبیداللہ قدسی‘ ص۸۳)
امام احمد بن حنبلؒ (۱۶۴ -۲۴۱ھ) بڑے عظیم المرتبت داعی حق تھے۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے اٹھائے ہوئے فتنہ خلق قرآن کے سلسلے میں امام احمد بن حنبلؒ سخت آزمایش سے دوچار ہوئے۔ مامون الرشید اور معتصم باللہ کے دور میں ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ اس منظر کو دیکھنے والے گواہی دیتے تھے کہ اگر ایسے کوڑے کسی مست ہاتھی پر بھی برسائے جاتے تو وہ بھی چیخ اٹھتا‘مگر امام نے کبھی آہ تک نہ کی۔
زخم پہ زخم کھا کے جی ‘ اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر لبوں کو سی ‘ عشق ہے دل لگی نہیں
متوکل کا دور آیا تو اس نے حضرت امام عالی مقام کو رہا کرکے گھر بھیج دیا۔ پھر ان کی خدمت میں اشرفیوں کے توڑے بھیجے۔ امام ذی وقار نے طویل عرصے تک کوڑے برداشت کیے اور کبھی آنکھوں میں آنسو نہ آئے‘ مگر اشرفیوں کے توڑے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے۔ انھوںنے کہا: ''متوکل کے توڑے مامون ومعتصم کے کوڑوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔‘‘ امام نے نہ صرف یہ کہہ کر توڑے واپس بھیج دیے بلکہ حکومت وقت کی پیش کردہ تمام مراعات کو بھی مسترد کردیا۔ (حیات امام احمدبن حنبلؒ‘ محمدابوزہرہ‘ ترجمہ: رئیس احمدجعفری‘ ص۱۳۵-۱۳۶)
امام بخاریؒ کے استاد امام ابن المدینیؒ کا قول ہے: ''فتنہ ارتداد کے موقع پر خلیفہ اول سیدنا ابوبکرصدیقؓ اور فتنہ خلق قرآن کے موقع پر امام احمدبن حنبلؒ سے زیادہ کسی کی پامردی اور استقامت کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔‘‘ امام شافعیؒ حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے استاد تھے۔ وہ اپنے شاگرد کی مدح میں فرماتے ہیں: ''میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے بڑھ کر عالم‘ زاہد اور فقیہہ نہیں دیکھا۔‘‘ ایک روایت کے مطابق امام شافعیؒ کو خواب میں رسول اللہؐ نے امام احمد بن حنبلؒ کے امتحان کی خبر دی اور ساتھ فرمایا کہ وہ ا پنے موقف پر ڈٹے رہیں۔ آنحضوؐر نے جنت کی نوید کے ساتھ یہ بشارت بھی دی کہ اس ثابت قدمی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ قیامت تک ان کے نام کو بھی روشن رکھے گا اور ان کے علم کا نور بھی پھیلاتا رہے گا۔ کتب حدیث میں صحاحِ ستہ کا مقام انتہائی بلند ہے۔ ان کے علاوہ مسانید کی اپنی شان ہے۔ ان مسانید میں سب سے زیادہ معروف مسند امام احمد بن حنبلؒ کا مجموعۂ احادیث جو مسنداحمد ہے۔ امام موصوف نے راویانِ حدیث صحابہ کرامؒ کے اسمائے گرامی کو ان کے حروف تہجی کے تناظر میں ترتیب وار لکھ دیا۔ یعنی ہرصحابی کی روایت کردہ احادیث ان میں سے ہر ایک کے نام کے تحت ایک ہی جگہ درج کی گئی ہیں۔ ۵ضخیم جلدوں اور کم وبیش ۳ہزار صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ اپنی مثال آپ ہے۔
حکمرانوں نے تحریص ولالچ کے جال بھی بچھائے‘ مگر ان عظیم مجددین نے ان کے دامِ تزویر میں آنے کی بجائے طوق وسلاسل کو ترجیح دی۔ ابتلا وآزمائش کی بھٹیاں انہیں جادۂ حق سے برگشتہ تو نہ کرسکیں‘ البتہ وہ ان سے کندن بن کر نکلے۔ امام ابن تیمیہؒ نے اتنا عظیم علمی جہاد کیا کہ وہ ہر موضوع پر انسائیکلو پیڈیاز چھوڑ گئے ہیں۔ ان کا جنازہ بھی دمشق کے قلعے سے اٹھا‘جہاں ظالم حکمرانوں نے انھیں مقید کررکھا تھا۔ امام احمدبن حنبلؒ کی طرح امام ابن تیمیہؒ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے جنازے فیصلہ کردیں گے کہ ہم میں سے حق پر کون ہے اور باطل کی راہ پر کون گامزن ہے۔ امام کا جنازہ وقت کے حکمرانوں کو بھی پیغام دے گیا کہ دلوں پر حکمرانی کرنے والا آج رخصت ہوا ہے۔