تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-01-2019

زندگی اک سفر ہے سہانا

زندگی کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ ہم یا تو اس کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے یا پھر اتنے سنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ باقی تمام معاملات ایک طرف رہ جاتے ہیں۔ ہمارے فکر و عمل میں اعتدال پایا جاتا ہے نہ نظم۔ ہم عمومی سطح کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ عام آدمی زندگی کے بارے میں کبھی ڈھنگ سے سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اگر کبھی اِس حوالے سے سوچنے کی طرف مائل ہونے لگتا ہے تو اُس کا ذہن ہی یہ بات بھی سُجھاتا ہے کہ یہ تو ہر گھڑی‘ ہر پل کا معاملہ ہے۔ پھر سنجیدہ کیوں ہوا جائے‘ کیا سوچا جائے؟ 
ہم سنجیدہ کیوں نہیں ہوتے؟ ایسا کیوں ہے کہ زندگی کے معیار کو گِرتا ہوا دیکھ کر بھی ہم شاذ و نادر ہی سوچتے ہیں کہ کچھ سوچا جائے‘ کچھ کیا جائے؟ سوچنے کے عمل سے گریز کا بنیادی سبب کیا ہے؟ عام آدمی صرف جیے جانے پر کیوں یقین رکھتا ہے؟ اُسے یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ جس طور کسی خاص معاملے میں کچھ دیر بیٹھ کر سوچا جاتا ہے‘ کسی سے مشاورت کی جاتی ہے۔ بالکل‘ اُسی طور مجموعی طور پر پوری زندگی کے حوالے سے منظم انداز سے سوچا جائے‘ کچھ کرنے کی منصوبہ سازی کی جائے؟ 
غالبؔ نے کہا تھا ؎ 
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد 
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی! 
ہم میں سے کون ہے جسے یہ معلوم نہ ہو کہ زندگی کا معیار خود بخود بلند نہیں ہوتا‘ بلکہ اسے بلند کرنا پڑتا ہے؟ عمومی سطح پر زندگی بسر کرنا کسی بھی انسان کے لیے دشوار نہیں ہوا کرتا۔ اصل پریشانی تو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان معاملات کو درست کرنے کی طرف رواں ہوتا ہے۔ اس دنیا میں بگاڑ آسان ہے اور بناؤ بہت مشکل۔ کسی بھی چیز کو بنانے میں عمر لگ جاتی ہے اور تباہ کرنے کے لیے محض چند لمحات درکار ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ کسی خاص شعبے میں کامیابی کے حصول کا بھی ہے۔ لوگ کیریئر کے حوالے سے سوچتے ہیں اور عمل کے مرحلے سے بھی گزرتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ تھوڑی سی لاپروائی سے معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک لمحے کی سنگین غلطی پورے کیریئر کو چوپٹ کردیتی ہے۔ یہ بات ہو رہی ہے کامیاب ہونے کے بعد کی۔ اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے سے پہلے ہی جو لوگ اپنے کیریئر کو کسی ایک غلطی کے ہاتھوں ناکامی کے گڑھے میں دھکیل بیٹھتے ہیں اُن کی تعداد اِتنی ہے کہ گننے بیٹھیے تو یوں گم ہوجائیے کہ اپنے ہاتھ بھی نہ آئیے! 
کسی بھی معاشرے میں واضح اکثریت حقیقی معنوں میں سنجیدہ ہوئے بغیر زندگی بسر کرتی ہے۔ عام تصور یا خام خیالی یہ ہے کہ سنجیدگی اختیار کرنے سے زندگی کا لطف جاتا رہتا ہے۔ یہ تصور اس لیے پروان چڑھا ہے کہ جو لوگ زندگی کے بارے میں سنجیدہ رہتے ہیں اُنہیں عمومی سطح پر پریشان سا دیکھا گیا ہے۔ جو لوگ پوری سنجیدگی کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں وہ عمومی سطح پر تھوڑے سے بکھرے اور اُداس دکھائی دیتے ہیں۔ 
یہ کوئی ایسی پیچیدہ بات بھی کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا مسائل سے گِھری ہوئی ہے۔ ہم زندگی بھر مختلف حوالوں سے پیچیدگیوں کا شکار رہتے ہیں۔ معاملات بالعموم الجھنے کی طرف تیزی سے رواں ہوتے ہیں۔ سلجھانے کی کوشش کچھ دیر کے لیے موقوف رکھنے پر خرابیاں پھر اُبھر آتی ہیں۔ جو لوگ زندگی کو پورے ہوش و حواس کے ساتھ بسر کرنا چاہتے ہیں اُن کے دل و دماغ پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بات عجیب ہے نہ افسوس ناک۔ معاشرے کا عمومی چلن بگاڑ کا ہے۔ محنت کچھ بنانے کے لیے کرنی پڑتی ہے‘ بگاڑنے کے لیے نہیں۔ بگاڑ تو ''از خود نوٹس‘‘ کے تحت کارفرما ہی رہتا ہے۔ 
عام آدمی جب معاشرے میں ہر طرف لاپروائی کا چلن دیکھتا ہے تو اُسی کے نشے میں چُور ہوتا چلا جاتا ہے۔ فکری ساخت میں یہ تصور گھر کرتا جاتا ہے کہ زندہ رہنے اور کسی بھی حوالے سے کامیاب ہونے کے لیے کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ وہ جب ہر طرف سنجیدہ فکر سے عاری لوگوں کو دیکھتا ہے تو اِس نکتے پر یقین کرنے لگتا ہے کہ معیاری انداز سے جینے کے لیے زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ کہ جب سنجیدہ ہوئے بغیر ایک زمانہ جی رہا ہے تو پھر اُس کے سنجیدہ نہ ہونے سے کون سی قیامت برپا ہو جائے گی! 
معاشرے کا مرکزی دھارا بہت تیز ہوا کرتا ہے اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا لے جاتا ہے۔ اگر کوئی خود کو بچانا چاہے تو اُسے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہونے والے افراد آپ کو اِسی لیے بہت عجیب دکھائی دیں گے۔ وہ ہر معاملے میں نپا تُلا رویہ اپناتے ہیں۔ فکر و عمل میں توازن اور اعتدال کو راہ دینا اُن کے نزدیک دانش کا بنیادی تقاضا ہوا کرتا ہے۔ معاشرے یا ماحول کی عمومی روش یہ ہے کہ فکر و عمل میں اعتدال و توازن کا اہتمام کرنے کی فکر نہ کی جائے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور گھر کرگیا ہے کہ زندگی سی نعمت اس لیے نہیں ملی کہ اِسے سنجیدگی کی نذر کردیا جائے۔ اور یہ کہ زندگی کا حقیقی لطف اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ ہلکے پھلکے رویے کے ساتھ یوں جیا جائے کہ دل و دماغ پر بظاہر کوئی بوجھ نہ ہو۔ 
ہنستے گاتے جینے میں کوئی قباحت نہیں۔ انسان کو ہر وقت خوش رہنا چاہیے یا خوش رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ عموماً فائدے میں رہتے ہیں۔ خوشی خوشی جینے والے دوسروں کے لیے بھی خوشیوں کا سامان کرتے ہیں۔ اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی خوش رہے اور دوسروں کو بھی خوش رہنے میں مدد دے؟ مگر سوال یہ ہے کہ کیا لاپروائی پر مبنی رویہ اپناکر خوشی کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس سوال کا جواب محض نفی میں ممکن ہے۔ ہمیں اپنے ماحول میں جو لوگ حقیقی مفہوم میں بہت خوش دکھائی دیتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی سطح پر سنجیدہ ہونے کے بعد ہی خوشی کی منزل تک پہنچے ہیں۔ دوسری طرف آپ کو ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جو بہت خوش دکھائی دیتے ہیں‘ مگر در حقیقت وہ خوش ہوتے نہیں بلکہ خوش دکھائی دینے کی اداکاری کر رہے ہوتے ہیں۔ ملمّع ایک ہی رگڑ سے اُتر جاتا ہے‘ یعنی جیسے ہی کوئی مشکل صورتِ حال درپیش ہوتی ہے ساری کی ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے۔ 
زندگی قدم قدم پر توازن مانگتی ہے‘ عدل کی طلب گار رہتی ہے۔ ہمیں خوش بھی رہنا ہے اور سنجیدہ بھی مگر خوشی کی خاطر پہلے سنجیدہ ہونا لازم ہے۔ حقیقی سنجیدگی اپنانے کے بعد ہی حقیقی خوشی میسر ہو پاتی ہے۔ ؎ 
دَر اِسی دیوار میں کرنا پڑے گا 
زندہ رہنے کے لیے مرنا پڑے گا 
اپنے لہو میں نہائے بغیر کوئی سُرخرو نہیں ہوا۔ جب تک انسان پوری طرح سنجیدہ نہیں ہوتا تب تک اس دنیا کی حقیقت اُس پر کھلتی نہیں اور وہ خود کو پُرمسرّت زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار نہیں کر پاتا۔ زندگی ایک سُہانا سفر ہے اور ہمیں اس سفر کی تکمیل تک خوش و خرم رہنا ہے‘ مگر حقیقی مسرّت کے ساحل تک پہنچنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ پہلے ہم سنجیدگی کے سمندر میں غوطہ زن ہوں اور شناوری کا حق ادا کریں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved