بھارت سے خبر ہے کہ حالیہ ریاستی انتخابات کے موقع پر سیاسی کارکنوں کے ''نرخ‘‘ بہت اوپر چڑھ گئے۔ جب بھارتی انتخابات کی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں تو '' منڈی کے بھائو ‘‘ تیزی سے چڑھتے ہیں۔ اب چونکہ انتخابات ہو چکے ہیںتو منڈی کے نرخ بھی تیزی سے گر رہے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ بھارت کی سیاسی منڈی کے ''محنت کش‘‘ حالیہ انتخابات کے تجربات سے فائدہ اٹھا لیں۔میں نے جب بھارتی انتخابات کی منڈی کے ''دلخراش‘‘ واقعات پڑھے تو دل میں گدگدی سی ہوئی اور چاہا کہ قارئین کو بھارتی منڈی کی صورت حال سے آگاہ کر وں۔بھارت میں مزدوری بہت سستی رہتی ہے۔ا س معاملے میں ہم قدرے خوش حال ہیں۔انتخابات ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ہمارے وطن میںضروریات زندگی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں‘ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ سیاست کی منڈی کے بھائو محنت کشوں کے بس میں نہیں رہ گئے۔ہماری نئی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جو مباحثے ہو رہے ہیں‘ انہیں ٹی وی پر دیکھ کر اوراخباروں کا مطالعہ کر کے ‘ میں تو کانپ کر رہ جاتا ہوں۔ نئی اسمبلیوں کے قائم ہوتے ہی بازار کے حالیہ بھائو دیکھ کر ہر محنت کش خاندان پر کپکپی چڑھی ہوئی ہے۔
مہنگائی کا سب سے زیادہ مزہ کراچی کے عام شہری لوٹ رہے ہیں۔انہوں نے قریباً نصف صدی سے جس معیار زندگی کو برداشت کیا تھا‘ اب کراچی کی آبادی کا ایک بڑا حصہ خلائوں میں قلابازیاں کھاتے ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ حکومت کے ایک خود ساختہ ''لیڈر‘‘نے بازار کے ریٹ سن کر شکایت کرنے والوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ '' ابھی تو مہنگائی نے سٹارٹ ہی لیا ہے۔نرخوں کے کنٹرول کرنے والے طبقات ابھی اپنے پر تول رہے ہیں‘ اصل نرخ طے نہیں ہو پارہے‘‘۔
جب اس کی شکایت ایک'' تازہ دم‘‘ سیاست دان سے کی گئی تو موصوف کا جواب ملاحظہ فرمائیں ''ابھی ہوا کیا ہے؟ بازار کے بھائو سن کر دیکھتا کیا ہے؟ابھی تو بہت کچھ دیکھے گا۔ کچھ دن صبر سے کام لے۔ معاملات توازن پر آجائیں گے‘‘۔
بدنصیب عوام فق چہروں کے ساتھ چیزوں کے ''تائو‘‘دیکھ کر آنے والے دور میں زندگی کے حالات کا تصور کر کے‘ اپنے اہل و عیال کے مستقبل کی فکر میں ایک دوسرے کو لال آنکھوں سے دیکھنے گے۔ سب کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔ ہر خریدار‘یوں مبہوت ہو کر رہ گیا‘ جیسے جنگل میں شیر کو آتے دیکھ کر چھوٹے چھوٹے معصوم سے ہرن سکتے میں آکر کھڑے ہو جاتے ہیں‘جیسے سوچ رہے ہوں کہ موت تو اب سر پہ آن کھڑی ہوئی‘ اس سے بچنے کی کیا ترکیب کی جا سکتی ہے؟ ''شیر شیر ہے اور ہم اس کی خوراک‘‘۔اصل میں دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر نسل اپنے شکاریوں کے معدے کی توانائی کے جائزے لینے لگتی ہے۔ حالیہ نرخوں کی خونخواری کے تیور دیکھ کر خریداروں کی لرزہ خیزی کے مناظر دیکھیں تو آپ اپنی حالت بھی مجبوروں سے بہتر نہیں پائیں گے۔
ان دنوں مہنگائی کے عزائم بھانپ کر سہمی ہوئی خلقِ خدا‘ اپنا اپنا مستقبل چشم تصور سے دیکھ رہی ہے۔میں بھی اپنی ناتوانی کے ساتھ درندہ صفت ''مخلوق‘‘ کے عزائم دیکھ کر اپنے بھیانک مستقبل کے انجام پر غور کر رہا ہوں۔ سچی بات ہے آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ کر اپنے انجام کے تصورسے لرزہ براندام ہو رہا ہوں۔ چند روز پہلے وزارت خزانہ کے ایک اعلیٰ افسر کی زندہ دلی کے خیالات سے آگاہ ہواتو سہم کر رہ گیا۔بہر حال زندگی گزارنا ہے۔ گزارنا کیا؟بھگتنا ہے۔ طوعاً و کرہاً آنے والے دنوں کے انجام کا تصور تو کرنا ہی ہے۔ کرنا ہی کیا؟ کرنا صرف ہی ہی ہی ہے۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک طاقتور درندے کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کرکوئی دم بخود ہو کر سکتے میں آجائے۔میں نے وزارت خزانہ کے ایک اعلیٰ افسر کے عزائم دیکھ کر سہمی سہمی حالت میں ہاتھوں کے لرزے پر قابو پاتے ہوئے دریافت کر ہی لیا کہ '' حضور والا! مہنگائی تو بہت ہو رہی ہے؟‘‘۔
اس نے میری طرف طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور کہا '' مہنگائی تو ابھی آئے گی‘‘۔
میرا چہرہ فق ہو گیا اور میں نے اپنے لرزہ براندام جسم کو کنٹرول میں کرتے ہوئے پوچھا '' حضور! کیا مہنگائی اس سے بھی زیادہ آئے گی؟‘‘
جواب ملا '' پتا تو اس وقت چلے گا‘ جب مہنگائی نے ہماری منڈیوں میں پہلا قدم رکھا‘‘۔
افسرموصوف نے حصہ بقدرجثہ تسلی دیتے ہوئے کہا ''میاں !مہنگائی ابھی آئی ہی کہاں ہے؟‘‘
تت تت تت کرتے ہوئے کہا '' حضور! ذرا میری حالت پر نگاہ ڈال لیں۔میں زندگی کے مزید چار دن گزارنا چاہتا ہوں‘‘۔
افسر نے اطمینان سے جواب دیا ''ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ جیسے جیسے بیرونی قرضے آئیں گے‘ مہنگائی کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہے گا‘‘۔
''کک کک کک کیا زندہ رہنے کی بھی کوئی گنجائش ہو گی؟‘‘
''حوصلہ رکھیں ابھی تو زندگی کے بہت سے مراحل آئیں گے‘‘۔
''کک کک کک کتنے؟ ‘‘
''پروا نہ کریں جب ہم نرخوں کی سپیڈ پکڑیں گے تو آپ خلائوں میں غوطے کھائیں گے‘‘۔
'' کیا نئی حکومت یہی کرے گی؟‘‘
''عجیب آدمی ہو۔ ہم تمہیں خلائوں کی سیر کرانے جا رہے ہیں اور تم خوف زدہ ہو رہے ہو‘‘۔
''اپنے ماضی کی طرف دیکھو۔ ہر الیکشن کے بعد جیتنے والوں کی ''ضروریات‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے اور عام آدمی ہے جو خلائوں میں غوطے کھانے کے تصور سے ہی نڈھال ہو جاتا ہے‘‘۔
'' بے بسی کی حالت میں عام آدمی‘کامیاب سیاست دان کی طرف پھٹی پھٹی آنکھو ں سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے '' کیا ہم خلائوں سے اتر نہیں سکتے؟‘‘۔