جناب ایس ایم ظفر نے بہت اہم بات کہی، خدا پر ایمان اور تقدیر پر یقین ہے جو بڑے سے بڑے صدمے میں بھی انسان کے لیے صبر اور حوصلے کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں کمیونسٹ روس کے ڈکٹیٹر سٹالن کی صاحبزادی سوتیلانہ یاد آئی۔ اپنے باپ کی ''سرخ جنت‘‘ میں اس کا دم گھٹنے لگا تو ایک دن وہ یہاں سے فرار میں کامیاب ہو گئی۔ مغرب میں خود ساختہ جلا وطنی کے دوران اپنے پہلے انٹرویو میں اس کا کہنا تھا: خدا اور آخرت پر یقین کے بغیر زندگی کی تکمیل ہوتی ہے، نہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔
90 سالہ بزرگ قانون دان اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے دوچار ہیں۔ 59 سالہ بیٹے کی جدائی‘ اور اچانک جدائی کا غم، وہی جانتا ہے جس پر یہ پہاڑ ٹوٹتا ہے۔ طارق، ظفر صاحب کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ اس کے بعد علی ظفر، پھر عاصم ظفر، ان میں اڑھائی، اڑھائی، تین تین سال کا فاصلہ ہے اور سب سے آخر میں روشانے۔ ظفر صاحب بتا رہے تھے: بیگم صاحبہ کو بیٹی کی شدید آرزو تھی، جو تین بیٹوں کے بعد پوری ہوئی۔ پھر وہ قدرے جذباتی ہو گئے: روشانے کے بغیر میں اپنی زندگی کے سب سے زیادہ دلگداز تجربے سے محروم رہتا۔ بیٹے، ماں باپ کا کتنا بھی خیال کرنے والے ہوں، بیٹی کی والدین کے لیے محبت اور چاہت ایک الگ ہی چیز ہوتی ہے۔
میں جناب الطاف حسن قریشی اور پنجاب یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے استاد شبیر احمد خان کے ساتھ، نہر کنارے ظفر صاحب کے خوبصورت گھر آیا تھا۔ ظفر صاحب سے تعلق ایک اخبار نویس اور سیاستدان+قانون دان کے تعلق سے بڑھ کر تھا۔ ہم نے پولیٹیکل رپورٹنگ کا آغاز کیا، تو ظفر صاحب کا دفتر مال روڈ پر ہمارے دفتر کے قریب ہی تھا۔ وہ ایک مصروف قانون دان تھے لیکن ہم نے جب بھی ملاقات کی خواہش کی، انہوں نے کہا: لنچ پر چلے آئو۔ دفتر میں یہی فراغت کا وقت ہوتا تھا۔ ظفر صاحب کے گائوں سے آئی ہوئی خالص دیسی گندم کے آٹے کی چپاتیوں اور بغیر کھاد والی سبزیوں اور دالوں کا اپنا لطف ہوتا۔ پھر ظفر صاحب وہاں سے فیروز پور روڈ پر نہر والے پُل سے ملحق ایک پلازے میں چلے آئے۔ ان کے ساتھ مہینے میں ایک آدھ بار لنچ کا معمول یہاں بھی جاری رہا۔ مختلف مسائل پر ان سے گفتگو، طویل اخباری انٹرویوز کی صورت اختیار کر جاتی۔ پھر ہم دس، بارہ سال کے لیے جدے چلے گئے، ادھر ظفر صاحب قاف لیگ جوائن کر کے سینیٹر ہو گئے (سچ بات یہ ہے کہ ان کی یہ ''حرکت‘‘ ہمیں تو اچھی نہ لگی) اب ظفر صاحب نے گلبرگ میں فوارے والے چوک پر ایک بہت بڑے پلازے میں دفتر بنا لیا تھا‘ جہاں ہمیں ایک آدھ بار ہی جانے کا اتفاق ہوا۔
ظفر صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ وہ بھٹو صاحب کی طرح، ایوب خان کی کابینہ کے خوبصورت اور کم عمر ترین رکن تھے (وزیر قانون)۔ ضیاء الحق کے دور میں پیر صاحب پگاڑا (مرحوم) کی مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ ٹائم مینجمنٹ کوئی ظفر صاحب سے سیکھے۔ بے پناہ عدالتی مصروفیات میں سے لکھنے پڑھنے کا وقت بھی نکال لیتے۔ ''Through the Crisis‘‘ ایوب خان کے دور میں پیدا ہونے والے بحران کی کہانی تھی۔ پھر ''ڈکٹیٹر کون؟‘‘ لکھی۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ''نئے پاکستان‘‘ میں یہ بھٹو صاحب کا عہد تھا۔ اس کتاب میں انہوں نے ڈکٹیٹر کے جو ''اوصاف‘‘ بیان کئے، قاری کو اس میں اپنے ''قائد عوام‘‘ کا چہرہ نظر آتا۔ پبلشر اسے ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ اس کی اشاعت کی جرأت اردو ڈائجسٹ والے قریشی برادران نے کی۔ ''اسلام، پارلیمنٹ اور عوام‘‘ جنرل ضیاء الحق کے دور میں لکھی گئی۔ ظفر صاحب اسے اپنی پسندیدہ ترین کتاب کہتے ہیں۔ اب جبکہ وہ عملی سیاست اور وکالت سے ناتہ توڑ چکے، اپنی چودھویں کتاب مکمل کر رہے ہیں۔ یہ 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے لے کر 2013 میں نواز شریف کے تیسرے دورِ اقتدار سے پہلے تک کی کہانی ہے۔ ''Pakistan History Reinterpreted‘‘ کے نام سے یہ اپنی تاریخ کا تحقیقی تجزیہ اور بے لاگ محاکمہ ہو گا۔
سیاست اور وکالت سے ناتہ توڑنے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ 2008 والی پارلیمنٹ میں زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی سے قاف لیگ کا کولیشن ظفر صاحب کے خیال میں ایک غیر فطری ملاپ تھا۔ ان کی پختہ رائے تھی کہ مسلم لیگ کے ووٹر کے لیے پیپلز پارٹی سے اتحاد ناقابل قبول ہو گا‘ اور وہ نواز شریف کی طرف چلا جائے گا (یہی ہوا) اور ظفر صاحب نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ وکالت کو تین طلاق دینے کی ذمہ داری، وہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بے تحاشا سؤوموٹوز پر عائد کرتے ہیں۔ ان کے بقول، تب چیف صاحب کی عدالت میں کسی وکیل اور دلیل کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ امین فہیم (مرحوم) کا کیس، آخری کیس تھا، جس کے دوران، انہوں نے وکالت سے باقاعدہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ ہم ظفر صاحب کی سٹڈی میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے کتابوں سے بھری الماریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان میں قانون کی ایک بھی کتاب نہیں۔
ہم ظفر صاحب کے پاس طارق کی ناگہانی وفات پر تعزیت کے لیے آئے تھے۔ طارق کی باتیں کرتے ہوئے، ان کی آنکھیں کئی بار نم ہوئیں، لہجے کی کپکپاہٹ پر قابو پانے میں بھی انہیں خاصی کوشش کرنی پڑی۔ والد کی طرح طارق نے بھی زندگی کے ایک ایک لمحے کو با مقصد بنانے کی کوشش کی۔ اسلام آباد کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا۔ روپے پیسے کی فراوانی تھی، فکرِ معاش ان کے لیے کوئی بنیادی مسئلہ نہیں تھا؛ چنانچہ خلق خدا کی بے لوث خدمت کو شعار کیا۔ منشیات کے عادی لوگ اس کی توجہ کا مرکز تھے۔ اس کے لیے ''نئی زندگی‘‘ کے نام سے این جی او قائم کی۔ طارق سمجھتے تھے کہ صحت یابی کے بعد ان کے لیے ''نئی زندگی‘‘ کا عملی اہتمام بھی ضروری ہے؛ چنانچہ وہ ان کے لیے روزگار کا اہتمام بھی کرتے کہ بے کار ی اور بے روزگاری انہیں دوبارہ نشے کی دنیا میں نہ لے جائے۔ ان میں سے بعض کو وہ اپنے ہاں (پولٹری فارم اور کھیتوں وغیرہ پر) باقاعدہ تنخواہ کے ساتھ رکھ لیتے، بعض کے لیے، اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کے ذریعے روزگار کا بندوبست کر دیتے۔ ''گلوبل فنڈ‘‘ اور ''مین لائن‘‘ کے اشتراک سے انہوں نے ایڈز کے مریضوں کی طرف بھی توجہ دی۔
طارق اپنی صحت کے حوالے سے بھی بہت محتاط رہتے۔ تین چار ماہ بعد مکمل طبی معائنہ کرواتے۔ ابھی آخری معائنے میں بھی مکمل فِٹ تھے۔ صبح ایک گھنٹے کی سیر بھی مستقل معمول تھا۔ خود ظفر صاحب نے بھی 85 سال کی عمر تک کبھی ایک اسپرین یا ڈسپرین تک نہ لی۔ لیکن بڑھتی عمر کے اپنے مسائل ہوتے ہیں؛ چنانچہ کچھ عرصے سے دل کے بے قابو ہونے کا احساس ہونے لگا۔ کراچی کے آغا خان ہسپتال میں بائی پاس سرجری کے بغیر، علاج کی جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے۔ گزشتہ بدھ کو ظفر صاحب کی باقاعدہ اپوائنٹ منٹ تھی۔ وہ بیگم صاحبہ اور بیٹی کے ساتھ ہسپتال پہنچے۔ طارق اور علی اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔ ظفر صاحب ہسپتال میں ابتدائی معائنوں سے گزر رہے تھے، جب طارق اور علی کے جہاز نے لینڈ کیا۔ اپنی نشستوں سے اٹھ کر باہر نکلنے کے لیے انہوں نے چند قدم ہی بڑھائے تھے کہ طارق کے لیے پیامِ اجل آ گیا۔ اگلی پرواز پر ظفر صاحب (اور گھر کے دیگر افراد) طارق کی میت کے ساتھ لاہور واپسی کے سفر پر تھے۔
اس دوران نصراللہ دریشک بھی تعزیت کے لیے آ گئے تھے۔ انہوں نے ظفر صاحب سے پوچھا: کیا آپ کوئی فوڈ سپلیمنٹ لیتے ہیں؟ ظفر صاحب کا جواب تھا: اطمیانِ قلب سے بڑا فوڈ سپلیمنٹ کوئی نہیں، یہ اطمینان کہ میں نے اپنے ذمے کا، اپنے حصے کا کام اپنی بہترین صلاحیت اور ایمانداری کے ساتھ انجام دے دیا (اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دیا)۔