جنہیں آنکھیں ملی ہیں اُنہیں بہت کچھ‘ بلکہ سب کچھ دکھائی دیتا ہے۔ دیکھنا بھی تو علم کے حصول ہی کا ایک ذریعہ ہے۔ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اُس سے واقف ہوتے ہیں؛ اگر دیکھی جانے والی چیز کوئی کاغذ یا بورڈ ہے‘ تو اُس پر لکھی ہوئی عبارت ہماری معلومات بڑھتی ہے؛ اگر دیکھی جانے والی چیز کسی اور شکل میں ہے تو بہر کیف وہ ہمارے علم میں آجاتی ہے‘ یعنی معلومات میں کسی نہ کسی حد تک اضافہ ضرور ہوتا ہے۔
ہمارے ذہن میں جو کچھ بھی موجود ہے ‘وہ حواسِ خمسہ کی مدد سے‘ توسّط سے ہے۔ ہم جو کچھ بھی معلوم کر پائے ہیں وہ دیکھنے‘ سُننے‘ سُونگھنے‘ محسوس کرنے اور چکھنے کی بدولت ہے۔ باہر کی دنیا سے متعارف ہونے کے ہمارے ذہن کے پاس یہی پانچ ذرائع ہیں اور اہم ترین ذریعہ ہے دیکھنے کی صلاحیت۔ سُننے اور سُونگھنے کے مقابلے میں دیکھنے کی صلاحیت غیر معمولی وسعت رکھتی ہے۔ بصارت ہمیں پورے ماحول سے آشنا اور آگاہ ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ آپ جیسے ہی پلکیں اٹھاتے ہیں‘ پورا ماحول آپ کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے۔ بہت دور بیٹھے ہوئے کسی شخص کی آواز آپ تک نہ بھی پہنچے تو آپ اُسے دیکھ ضرور سکتے ہیں۔ آنکھیں ہمیں پورے ماحول سے باخبر رکھتی ہیں۔ خفیہ کیمروں کا بھی تو یہی معاملہ ہے کہ وہ پورے ماحول میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعے کو اچھی طرح ریکارڈ کرتے ہیں‘ تاکہ تفتیش و تحقیق میں زیادہ دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دیکھنا بہت بڑی صفت سہی مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہو جاتا۔ ہم دیکھ‘ سُن‘ سُونگھ‘ چکھ اور چُھوکر جو کچھ بھی جان پاتے ہیں وہ نِری معلومات ہیں۔ ان معلومات کی وساطت سے ہم ماحول کی تفہیم کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ اب سوچئے‘ یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ شان الحق حقیؔ نے کہا ہے ؎
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغِ منزل
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے!
ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں ہر طرف آنکھ کے لیے کام ہی کام ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کچھ آنکھوں کو دعوتِ نظارہ دیتے نہیں تھکتا۔ آج کی دنیا میں کام اگر رہ گیا ہے تو صرف آنکھوں کے لیے۔ دل و دماغ تو سکتے کے عالم میں ہیں۔ آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں‘ اُس کی مہربانی سے دل و دماغ میں ہلچل یوں جاری رہتی ہے کہ انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ کس چیز سے کیا نتیجہ اخذ کرے‘ کیا سمجھے اور کیا نہ سمجھے۔
آج کا انسان انتہائے نظارگی کا شکار ہے۔ ہر طرف نظارے ہیں جو بے نقاب ہیں۔ اور آنکھیں ہیں کہ دم بہ دم حیرانی کے درجے میں ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
دنیا اِس منزل سے تو بہت آگے نکل آئی ہے۔ اب آنکھ جو کچھ دیکھ رہی ہے وہ اس بات کا محتاج نہیں رہا کہ لب پر لایا جائے۔ اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا ہے جو اب اظہر من الشمس نہیں؟ آج کی دنیا میں ہر معاملہ ذرا سی دیر میں اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ بے نقاب ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ معاملہ تفہیم کی منزل سے بہت آگے نکل آیا ہے۔ اب مسئلہ کسی بحران کو سمجھنے کا نہیں‘ بلکہ اُس پر قابو پانے کا ہے۔
کچھ دیر ٹھہریے اور غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں زندہ رہنا ہر اعتبار سے ایک امتحان ہے‘ آزمائش ہے۔ قدم قدم پر لغزش کے ارتکاب کا امکان ہے۔ پل پل شدید الجھن میں مبتلا ہو جانے کا احتمال ہے۔ انسان چاہے یا نہ چاہے‘ اُسے بہت کچھ دیکھنا‘ جاننا پڑتا ہے اور سمجھنا پڑتا ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ آنکھوں کے وسیلے سے ذہن میں اُنڈیلنے کا عمل تواتر سے جاری رہتا ہے۔ صبح سے شام تک انسان خدا جانے کیا کیا دیکھ‘ سُن اور پڑھ رہا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ذہن میں کُلبلاتا‘ اُبلتا رہتا ہے۔ یوں انسان سر سے پاؤں تک پریشانی کا مرقّع بنا رہتا ہے۔
اب پھر شان الحق حقیؔ کو یاد کیجیے :ع
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغِ منزل
معاملہ دل تک آکر رک گیا ہے۔ خیر کا پہلو نکالے تو دل نکالے گا۔ آنکھوں کو جو کچھ دیکھنا ہے وہ تو اُنہیں دیکھنا ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دل اپنے حصے کا کام کر رہا ہے یا اُس نے ہتھیار رکھ دیئے ہیں! حواسِ خمسہ کا کام دن رات جاری ہے۔ دنیا کو ایک پل بھی قرار نہیں۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ ہو رہی رہا ہوتا ہے؛ اگر ہم چاہیں کہ اپنے حواس کو کچھ آرام دے لیں تو ایسا بہت مشکل سے ممکن ہو پاتا ہے۔ حواس کا صرف یہ کام ہے کہ ہم تک معلومات پہنچادیں‘ معلومات کے حوالے سے ہمارے کینوس کو وسیع کردیں۔ اِس کے بعد دل کے حصے کا کام شروع ہوتا ہے۔ دماغ کا کام محض بے لاگ تجزیہ کرنا ہے۔ دل البتہ ایک قدم آگے جاکر طے کرتا ہے کہ صورتِ حال کی مناسبت سے کیا لائحۂ عمل طے کرنا ہے‘ کس معاملے کو کس طور منہ دینا ہے اور اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ منوانے کے لیے کہاں تک جانا ہے۔ بہت کچھ ہے جو دل کی توفیق پر منحصر ہے۔ دماغ خاصے بے لاگ انداز سے اپنا کام کرکے ایک طرف ہو جاتا ہے۔ اِس مرحلے پر دل آگے بڑھ کر طے کرتا ہے کہ معاملات کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا ہے یا اُن کے سامنے دیوار بن کر متصادم ہونا ہے‘ یعنی دل کی توفیق ہو تو ہمیں منزل کا سراغ مل پاتا ہے۔ آنکھیں تو نظاروں ہی میں گم ہوکر رہ جاتی ہیں۔
دل کو رام کرنا؛ البتہ مشکل مرحلہ ہے۔ حواس کی طرح دل بھی بھٹکنے کو بے تاب رہتا ہے۔ ذہن کی مانند دل بھی کبھی کبھی شدید انتشار کی زد میں رہتا ہے۔ بہر کیف‘ دل کی تربیت پر توجہ دینے سے بہت کچھ درست ہو جاتا ہے؛ اگر ہم دل کو رام کرنے میں کامیاب رہیں ‘تو پھر دوسرے بہت سے معاملات کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا ممکن ہی نہیں‘ آسان بھی ہو جاتا ہے۔
آج ہم دیدۂ حیراں کے ہاتھوں دلِ ویراں کی منزل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آنکھ دیکھتی جاتی ہے اور ذہن و دل کو منتشر کیے رکھتی ہے۔ جتنا دیکھیے‘ اُتنا پریشان ہو رہیے۔ ؎
جتنی آنکھیں ہیں اُتنے نظارے ... جتنے نظارے اُتنی حیرانی!
یہ کیفیت کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے اور سوال صرف وسعت کا نہیں ہے‘ شدت کا بھی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم کسی مقام پر ٹھہریں‘ اپنے معمولات ہی کا نہیں ‘بلکہ پورے وجود کا جائزہ لیں۔ جو کچھ اب تک ہوچکا ہے‘ اُس کا تجزیہ کرکے خرابیوں سے دامن کَش رہنے کی کوشش کی جائے‘ تاکہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی کوئی تو سبیل نکلے۔
اکیسویں کے دوسرے عشرے کے آخری لمحات اِس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنے ماحول کو سمجھیں اور اِس میں سے وہی کچھ لیں‘ جو ہمارے کام ہے‘ جو کچھ ذرا بھی کام کا یا متعلق نہیں اُسے یکسر نظر انداز کردینے میں کوئی ہرج نہیں۔ آنکھوں اور دل کو آرام دینے کا یہی ایک معقول طریقہ ہے۔ یہ فن آپ جس قدر جلد سیکھ لیں‘ آپ کے حق میں اُتنا ہی بہتر ہے۔