تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     30-01-2019

عالمی جمہوریت کے نشیب و فراز

جمہوریت کے افق پر اختلافات کی دھند چھائی ہوئی ہے‘ تو کیا ہوا؟ اختلاف کرنا اور اسے برداشت کرناہی تو جمہوریت کا بنیاد ی اصول ہے۔ جمہوریت کیا ہے‘ اورکیا نہیں؟ ان تصورات پر اختلاف رکھنا ‘انہی اصولوں کے عین مطابق ہے ۔ دنیا کی جمہوری ریاستوں میں بے پناہ بحث و مباحث کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ کیا امریکہ حقیقی معنوں میں مستند جمہوریت رکھتا ہے؟ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کے طور پر انڈیا کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے؟کیا یورپ کی پارلیمانی جمہوریت بہتر ہے یا امریکہ کا صدارتی نظام؟ کیا پاکستان کنٹرول شدہ جمہوریت رکھتا ہے یا پاکستانی جمہوریت بے لگام ہوچکی ہے؟ 
ان سوالات کے جوابات مختلف اور ان کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جواب دینے والا کون ہے ؟اس موضوع کا عمیق جائزہ‘ اسے سمجھنے کی کوشش‘ اس کی گہرائی ناپنے کی سعی ‘ سب کچھ اپنی جگہ پر‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا اشتراکی دور سے بہت آگے بڑھ چکی۔ بلاشبہ جمہوریت کی رسائی میں اضافہ ہورہا ہے ‘ لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ دنیا میں ہر جگہ جمہوریت کا معیار ایک جیسا نہیں ۔ ترقی یافتہ دنیا میں جمہوریت اور سرمایہ کاری یک جان ہیں۔ تقریر اور اظہار کی آزادی کے علاوہ آزاد معیشت‘ آزاد تجارت ‘ آزاد میڈیا اور آز اد نرخ ایک جمہوری معاشرے کے امتیازی اوصاف سمجھے جاتے ہیں۔اس دوران ہم رقم ‘ طاقت اور اتھارٹی کی آزادپرواز دیکھتے ہیں۔ اس کی کچھ خرابیاں بھی شہود پر ہیں۔ اس کی وجہ سے دنیا تیزی سے عدم مساوات اور ناانصافی کا شکار ہوتی جارہی ہے ۔ جب مغرب میں جمہوری دنیا معاشی کساد بازاری کا شکار ہے تو چین معاشی ترقی کے راستے پر گامزن ہے‘ حالانکہ چین مغربی معنوں میں ایک جمہوری ملک نہیں ؛ چنانچہ یہ بحث اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا اس نظام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے یا کیا اس نظام کی تشریح اور نفاذ کا کوئی مسئلہ ہے؟ 
ڈیموکریسی انڈکس پر اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ پانچ درجوں پر مشتمل ہے‘ ان میں انتخابی عمل اور اجتماعیت‘ سماجی آزادیاں‘ حکومت کی کارکردگی‘ سیاسی عمل میں عوام کی شمولیت اور سیاسی کلچر شامل ہیں۔ ان شواہد کی بنیاد پر یہ رپورٹ ممالک کو ''مکمل جمہوریت‘‘،‘''ناقص جمہوریت‘‘، ''ملاوٹ زدہ جمہوریت‘‘اور ''آمریت‘‘ جیسے درجوں میں تقسیم کرتی ہے ؛ اگرچہ ایشیائی ممالک میں مجموعی طور پر بہتری کا رجحان پایا جاتا ہے‘ لیکن وہ ابھی تک کم وبیش ناقص یا جمہوریت اور آمریت کے ادغام سے قائم ہونے والی حکومتیں رکھتے ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک میں ناورے کے علاوہ باقی تمام ممالک یک قطبی جمہوریت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایشیا میں جمہوری اقدار میں جنوبی کوریا کا نمبر سب سے آگے ہے ‘کیونکہ وہاں ایک بدعنوان صدر کے خلاف عوامی تحریک چلی اور انہیں سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اگلے برس پاکستان جمہوریت میں کس درجے پر آتا ہے ۔ 2017 ء میں پاکستان 110 ویں درجے پر تھا۔ 
گیارواں بالی جمہوری فورم چھ اور سات دسمبر 2018 ء کو انڈونیشیاکے شہر نوسا دعا(Nusa Dua) میں منعقد ہوا۔ یہ فورم ہر سال دنیا میں جمہوریت کا معیاراور اسے درپیش چیلنجز کا جائزہ لینے کیلئے منعقد کیا جاتا ہے ۔ اس فورم‘ جس میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کاوشوں کی بھی جانچ ہوتی ہے ‘میں پاکستان سمیت 91 ممالک نے شرکت کی ۔ افتتاحی اجلاس میں دنیا میں جمہوریت کے حوالے سے ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا۔ دنیا میں طرز ِ حکومت میں ایک دلچسپ تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے ۔
1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں جنوبی ایشیا کے ممالک پر آمرانہ حکمران ‘ جیسا کہ سوہارتو اور مہاتیر ‘ رکھنے کا الزام تھا‘تاہم اکیسویں صدی میں یہ رجحان تبدیلی ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ جنوری میں ڈیموکریسی انڈکس پر اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ کہتی ہے کہ انتخابی جمہوریت دنیا بھر میں ''پریشان کن حد تک پسپائی ‘‘ اختیار کررہی ہے ۔ دوسری طرف بہت سے ممالک‘ جو روایتی طور پر جمہوریت کے گڑھ تھے‘ میں آمرانہ رجحان رکھنے والی شخصیات اقتدار سنبھال چکی ہیں‘ جیسا کہ ترکی میں طیب اردوان اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ۔ بہت سے اہم ممالک ‘ جیسا کہ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور پاکستان نے روایتی سیاسی جماعتوں کو مسترد کرتے ہوئے کچھ ایسے افراد کو موقع دیا جو حقیقی معانی میں عوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملائیشیا کا ذکر بطور خاص ضروری ہے ۔ جنوبی کوریا میں ہونے والے عوامی احتجاج کی طرح یہاں بھی بدعنوان لیڈر نجیب رازق کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔ ان کے نتیجے میں 93 سالہ مہاتیر محمد ایک مرتبہ پھر منتخب ہوکر اقتدار تک پہنچتے دکھائی دئیے ‘ لیکن اس مرتبہ وہ پہلے جیسا آمرانہ مزاج نہیں رکھتے ہیں۔ اب وہ اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں اور ناقدین کو بھی دبانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ انہوںنے اپنے ٹویٹر پیغام میں حکام کی اس شخص کی گرفتاری پر سرزنش کی‘ جو ان پر (مہاتیر) فیس بک پرتنقید کرتا تھا۔اُن کا کہنا تھا‘ ''میں خود پر تنقید کرنے والے کے خلاف کارروائی کے حق میں نہیں ‘‘دوسری طرف بھارت‘ جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے‘ میں تنقید خطرے سے خالی نہیں۔ وہاں نریندر مودی کی وجہ سے عدم برداشت اور تعصب میں اضافہ ہوا ہے۔حال ہی میں مودی پر تنقید کرنے والے ایک شخص کو قید کی سزاسنائی گئی ہے ۔ دیکھنا ہوا گا کہ جمہوریت ان شخصی آمریتوںسے کیسے نمٹتی ہے؟
جمہوریت کے حوالے سے پاکستان میں ترقی دیکھنے میں آئی ہے ۔ پاکستان دنیا میں پانچویں سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس ملک میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتیجے میںمسلسل تیسرے پرامن انتقال ِاقتدار کا مرحلہ طے پایا۔ کم وبیش چار عشروں کے بعد دوجماعتوں پر مشتمل مورثی سیاست کا جمود ٹوٹ گیا اور ایک تیسری جماعت نے بدعنوانی کے خلاف انصاف کا پرچم بلند کرتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ میڈیا کو آزاد کردیا گیا ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن پہلی مرتبہ حکومت پر تنقید کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔ پہلی مرتبہ سو دن کی کارکردگی پر وزرا سے پوچھ گچھ ہوئی ہے ۔ پہلی مرتبہ انتہا پسندوں ‘ جو آسیہ بی بی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دھمکیاں دے رہے تھے ‘ کے سامنے جھکنے کی بجائے انہیں جیل میں ڈالا گیا ہے ۔پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی حکومت نے مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن تشکیل دینے کا اپوزیشن کا مطالبہ مانا ہے ۔
بالی میں ہونے والے گیارویں اجلاس میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ اگرچہ جمہوریت کے اصول تبدیل نہیں ہوتے ‘لیکن اس کی عملی جہت کو مقامی حالات کے مطابق ڈھالنے ‘ وہاں کی روایت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے‘ اور اس کے کثیر جہتی اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ آج کی سپرپاور‘ جیسا کہ امریکہ‘ شخصی آمریت کی طرف بڑھ رہی ہے‘ جبکہ آنے والے کل کی ممکنہ سپرپاور‘ چین‘ بھی جمہوریت نہیں ہے ‘ تاہم ان دونوں ممالک کی '' ناقص جمہوریتوں‘‘ کے درمیان فرق بہت واضح ہے ۔ 
جمہوریت میں لفظ ''آزادی‘‘کو مغرب نے بہت غلط معانی دئیے ہیں۔ کسی کی ثقافت‘ روایات‘ مقامی اقدار اور رہن سہن کی توہین آزادی نہیں ۔ اس کے نتیجے میں صرف ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ جب کسی معاشرے پر بیرونی روایات مسلط کی جاتی ہیں تو اس کے نتیجے میں ثقافتی قطبیت جنم لیتی ہے ‘ اس سے سماجی بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ جمہوریت کی خوبی کا تعین کرنے کیلئے زیادہ نہیں‘ صرف دوسوالات کافی ہیں؛ کیا ملک میں قانون کی حکمرانی ہے یا حاکم کی ؟ اور دوسرا یہ کہ کیا عوام طاقت حکمرا ن کی طاقت سے زیاد ہ ہے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved