تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     31-01-2019

ریاست مدینہ… ایک مقدس اصطلاح

عمران خان کی خود ساختہ ریاست مدینہ میں بھی بے وسیلہ مظلوموں کے ساتھ وہی ہو رہا ہے جو پرانے پاکستان میں خاک نشینوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا‘ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلے یہ سب کچھ وہ لوگ کرتے تھے جو ''غیر مہذب‘‘ پاکستان کی گلیوں میں پل کر جوان ہوئے تھے‘ اور اب یہ سب کچھ ایسے حکمران کے دور میں ہو رہا ہے جو آکسفورڈ جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور ولایت جیسے مہذب معاشرے میں پل کر جوان ہوا۔
ٹیلی ویژن پر لچھے دار گفتگو کے ماہر اور اسی گفتگو کے طفیل اب مسندِ وزارتِ عظمیٰ پر فائز عمران خان صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر ایسا کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو حکمران مستعفی ہو جاتے۔ تب انہیں اقتدار کے موج میلے کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ تب وہ ہر چھوٹی بڑی غلطی کا سارا ملبہ آل شریفین پر ڈال کر ان سے استعفے مانگا کرتے تھے۔ آج یہ عالم ہے کہ اتنے بڑے سانحے پر خود وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینا تو کجا ان سے گورنر پنجاب کا برادری کی بنیاد پر لگایا جانے والا آئی جی پنجاب فارغ نہیں ہو سکا۔
ساہیوال سانحے کو آج بارہ تیرہ دن گزر چکے ہیں اور بقول وزیر اعظم وہ اس واقعے کی وجہ سے ''شاک‘‘ میں ہیں اور شاید ابھی تک یعنی اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی وہ اسی ''شاک‘‘ میں ہیں کہ نہ تو وہ ایسے واقعات پر اپنے دعوئوں کے برعکس خود مستعفی ہوئے ہیں اور نہ ہی آئی جی صاحب کو فارغ کیا ہے؛ تاہم اس شدید ''شاک‘‘ میں وہ میانوالی کا جلسہ بھی بھگتا آئے اور قطر سے انہی شرائط پر ادھار ایل این جی کا بندوبست بھی کر آئے جو گزشتہ چوروں اور ڈاکوئوں نے طے کی تھیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر اعلیٰ اخلاقیات کا بھاشن دینے اور مہذب معاشروں کے ساتھ ہمارا تقابل کر کے ہمیں مسلسل بے عزت کرنے والے عمران خان صاحب کو ابھی تک اتنا وقت ہی نہیں مل سکا کہ وہ مظلوم خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے گھر جاتے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھتے۔ انہیں پرسا دیتے اور انہیں انصاف کی یقین دہانی کراتے۔
اس انصاف کی یقین دہانی سے یاد آیا کہ سرکار نے پولیس گردی کے خلاف جو جے آئی ٹی بنائی وہ بھی انہی کے بھائی بندوں پر مشتمل تھی‘ یعنی وہی بقول میرؔ
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
پولیس کے ظلم کی تحقیق بھی انہی کے پیٹی بھائیوں کے ذمے ڈال دی گئی۔ ایک ایسا صاف واقعہ جس کی ویڈیو زموجود ہیں۔ گولیوں سے چھلنی گاڑی موجود ہے۔ چار خون آلود لاشیں موجود ہیں۔ مارنے والے موجود ہیں اور جے آئی ٹی اپنی تفتیش مکمل کرنے کے لیے تیس دن مانگ رہی ہے۔ جس روز جے آئی ٹی نے عدالت میں تیس دن کی مہلت مانگی تھی‘ ہمارے ایک دوست نے لندن سے فون کر کے اسی دن کہہ دیا تھا کہ یہ تیس دن تفتیش کے لیے نہیں بلکہ شواہد ضائع کرنے‘ مجرم غائب کرنے‘ ثبوت صاف کرنے اور گواہ بٹھانے کے لیے استعمال ہوں گے‘ اور وہی ہوا ہے جس کا ڈر تھا۔
عمران خان صاحب کے بیان کردہ مہذب ملکوں میں اگر ایسا واقعہ ہو جائے تو وہاں تفتیشی ٹیم از خود گواہ تلاش کرتی ہے۔ ان کے پاس جاتی ہے۔ ان کے بیانات لیتی ہے۔ انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اِدھر یہ عالم ہے کہ پہلے دو چار دن درجن بھر گواہ تھے اور دس روز بعد یہ عالم تھا کہ یوسف والا تھانہ میں بیٹھی جے آئی ٹی کے پاس صرف ایک گواہ آیا‘ اور باقی لوگ پولیس کے روایتی خوف کے مارے تھانے کے اندر جانے کی جرأت نہیں کر سکے۔ پولیس نے فرانزک لیبارٹری میں گولیوں کے خول تو بھیج دیئے مگر فائر کرنے والی رائفلیں نہیں بھجوائیں۔ قاتل اہلکار پہلے پولیس کی بجائے سی ٹی ڈی کی ہی کسٹڈی میں رہے اور پھر براہ راست جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دئیے گئے۔ نہ کوئی ریمانڈ‘ نہ کوئی تفتیش‘ نہ کوئی برآمدگی اور نہ ہی کوئی پیش رفت۔
اب ان کی شناخت پریڈ ہو گی۔ یہ شناخت کون کرے گا؟ اندازہ لگائیں۔ کیا یہ شناخت معصوم عمیر کرے گا؟ اس کی دو چھوٹی چھوٹی بہنیں کریں گی؟ پچاس گز سے افراتفری میں خوف اور دہشت کے ماحول میں ویڈیو بنانے والے راہگیر ان قاتلوں کی شناخت پریڈ کریں گے جو اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے اور چند فٹ کے فاصلے سے کھڑے ہو کر بے گناہوں کے سروں میں گولیاں مار رہے تھے۔ ایسے ماحول میں جہاں خوف ہو‘ دہشت ہو‘ خون ہو اور قتل ہو رہے ہوں بھلا کون ایک جیسی وردیوں میں اور بلا وردی بھاگ دوڑ کرتے ہوئے دس بارہ اہلکاروں میں سے فائر کرنے والے کو پہچان سکتا ہے؟ فائرنگ کی ویڈیوز موجود ہیں۔ گاڑی سے سامان نکالنے کی ویڈیو موجود ہے۔ بچے اغوا ہونے کی ویڈیو موجود ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ موجود ہے۔ گولیوں سے چھلنی شدہ گاڑی موجود ہے۔ موقع کا سب سے معتبر گواہ عمیر خلیل موجود ہے۔ اس کا ابتدائی بیان‘ جو انتہائی خوف و دہشت میں دیا گیا ہے اور کسی قسم کے جھوٹ اور اختراع سے سو فیصد مبرا ہے‘ موجود ہے‘ اور کیا درکار ہے؟ اب یہ تفتیشی اداروں کا کام ہے کہ وہ ان تمام شواہد اور ویڈیوز کی مدد سے حقیقی قاتلوں کو گرفتار کریں نہ کہ شناخت پریڈ جیسی گھمن گھیریوں میں ڈال کر سارا کیس خراب کریں۔
ایک تیز طرار وکیل نے زنا بالجبر کے مقدمے میں مدعیہ اور مظلومہ سے دوران جرح سوال کیا کہ وقوعہ کہاں ہوا؟ اس نے بتایا کمرے میں۔ کمرہ کچا تھا کہ پکا؟ وہ بولی: پکا تھا۔ چھت لینٹر والی تھا یا کڑیوں والی۔ اس نے کہا: کڑیوں والی۔ وکیل نے بڑا نابغہ قسم کا سوال کیا: کڑیوں کی تعداد کتنی تھی؟ ان واہیات اور غیر متعلقہ سوالات سے تنگ آئی ہوئی خاتون نے جل کر کہا: وکیل صاحب! میری تو عصمت لٹ رہی تھی اور عزت برباد ہو رہی تھی۔ آپ کے ساتھ یہ ہوتا تو میں پوچھتی کہ اس حال میں آپ کو عزت کی پڑی ہوتی یا کڑیاں گننے کی۔
پولیس افسران پر مشتمل جے آئی ٹی اپنے بھائی بندوں کو بچانے میں مصروف ہے۔ کسی افسر میں‘ کسی وزیر میں‘ کسی حکمران میں خیر سے یہ اخلاقی جرأت کہاں کہ وہ مستعفی ہو۔ کسی حکمران میں یہ جرأت بھی نہیں کہ وہ سفارشی آئی جی کی چھٹی کروائے۔ ایڈیشنل آئی جی کو پکڑ کر اندر کر دے۔ مظلوم خاندان کو اسلام آباد کی سڑکوں پر ذلیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔ مدعی کے وکیل کو دھمکانے والوں کو نوکری سے فارغ کرے۔ نا مکمل شواہد فرانزک لیبارٹری بھجوانے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔ تھانے میں رعب اور دبدبے کے ساتھ بیٹھ کر گواہوں کو خوفزدہ کرنے والی جے آئی ٹی کے ارکان کی گوشمالی کرے۔ موجودہ شواہد کو بتدریج ضائع کرنے کی کوششوں کا سدِ باب کرے۔ موجود ویڈیوز کی موجودگی کے باوجود ملزمان کو شناخت کرنے میں ناکام افسران سے پوچھ گچھ کرے۔ درجن بھر بیانات بدلنے والے اعلیٰ پولیس افسران کے خلاف کارروائی کرے۔ دہشت گرد مارنے کا بیان جاری کرنے والے آئی جی سے ثبوت طلب کرے‘ اور سب سے بڑھ کر ذیشان کے بارے یہ ثبوت ہونے کے باوجود کہ وہ دہشت گرد ہے (یہ بھی ابھی مکمل مفروضہ ہے اور پولیس کا یک طرفہ مؤقف ہے) اور عرصہ سے ایسی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے‘ اسے پہلے گرفتار کیوں نہیں کیا؟ جب سارے لوگ بشمول ذیشان نہتے تھے تو انہیں زندہ گرفتار کرنے کے بجائے دس فٹ کے فاصلے سے درجنوں گولیاں مار کر قتل کیوں کیا گیا؟
یہ سب سوال اپنی جگہ۔ سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا دعویدار کیا کر رہا ہے؟ بقول اس کے ایسے واقعات پر مہذب ملکوں میں حکمران مستعفی ہو جاتے ہیں۔ کیا استعفیٰ لکھنے کے لیے دو ہفتے درکار ہیں؟ چلیں استعفیٰ نہ دیں مگر آئندہ اس گلے سڑے اور غلیظ طرز حکومت کیلئے ریاست مدینہ کا لفظ استعمال نہ کریں۔ یہ بڑی مقدس اصطلاح ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved