ساڑھے پانچ قیمتی مہینے ضائع کرنے کے بعد اب موہوم سی امید ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت معاشیات کے عملی تقاضوں کی طرف بھی متوجہ ہو گی۔ بنیاد اس خوش گمانی کی معاشی اصلاحات کا وہ پیکیج ہے جو منی بجٹ کی صورت میں وزیر خزانہ اسد عمر نے پیش کیا ہے۔ شاید کسی دانش مند نے اس حکومت کو سمجھایا ہو گا کہ جولائی سے نومبر تک کے پانچ مہینوں میں آپ کے زیر نگیں ملک میں صنعت کا پہیہ الٹا گھومنے لگا ہے۔ دو ہزار سترہ کے انہیں مہینوں میں جو صنعتیں سات فیصد سے زائد کی ترقی دکھا رہی تھیں، اس حکومت کے پہلے سو دنوں میں ایک فیصد تنزلی دکھا رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے نوکریاں ختم ہو رہی ہیں، اُجرت کم ہو رہی ہے اور حکومت سوائے شور مچانے کے کچھ نہیں کر پا رہی۔ اگر حکومت وہی کچھ کرتی رہتی جو پانچ ماہ سے کر رہی تھی تو آئندہ چھ سات مہینے میں صنعتوں کو تالے پڑنے لگتے جو تحریک انصاف کی حکومت کی قربانی دے کر بھی نہیں کھولے جا سکتے تھے۔ وفاقی کابینہ میں اسد عمر کے سوا کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آتا جو صنعتوں میں سست روی کے ہولناک نتائج کا اندازہ کر سکتا ہو‘ لہٰذا فیصل واؤڈا، علی زیدی اور مراد سعید جیسے نیم خواندہ وزیروں سے بھری کابینہ کے لا یعنی مشوروں اور اعتراضات سے بچ بچا کر اور اپنی ذاتی محدود سی عقل و فہم کی روشنی میں جو کچھ ہو سکتا تھا اسد عمر نے وزیر اعظم عمران خان کی حمایت سے کر ڈالا۔ ان اصلاحات سے یہ توقع تو نہیں کی جا سکتی کہ ملکی صنعت پہلے کی سی رفتار سے چلنے لگے گی؛ البتہ اتنا ضرور ہو گا کہ سسک سسک کر چلتی رہے گی، بند نہیں ہو گی۔
عمران خان صاحب کی حکومت کے اصلاحاتی پیکیج کا ایک اہم نکتہ چھوٹی صنعتوں اور زراعت کو قرضے دینے کے حوالے سے بینکوں کے لیے کچھ مراعات کا اعلان ہے۔ اس کے مطابق جو بینک چھوٹی صنعتوں یا زراعت کے لیے قرضے جاری کرے گا، اسے ان مخصوص قرضوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر نصف ٹیکس دینا پڑے گا۔ بظاہر ذہانت پر مبنی یہ تجویز دراصل حکومت کی لا علمی، نا سمجھی اور نالائقی کی مسلمہ دلیل ہے۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بینک چھوٹے کاروباروں اور زراعت کے لیے قرضے دینے کے لیے دوڑ پڑیں گے‘ اور ملکی پیداوار میں اضافہ ہونے لگے گا، حالانکہ یہ ترکیب اگلے سو سال تک بھی مثبت نتائج نہیں دے سکتی۔ انہیں پتا ہی نہیں کہ پاکستان میں کمرشل بینکوں کو اس میدان میں لانا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ ہر حکومت نے بینکوں کو مائل کرنے کے لیے پاپڑ بیلے مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا، حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت نے ایس ایم ای بینک کے نام سے اپنا بینک اسی کام کے لیے بنایا، اس میں روایتی بینکر بھرتی کیے‘ جنہیں پاکستان کی چھوٹی صنعتوں کے بارے میں علم تھا نہ ان کی ضروریات کا پتا۔ نتیجہ یہ کہ سب کچھ برباد ہو گیا اور اب یہ بینک ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی کے آخری دن گزار رہا ہے، اور معلوم نہیں کتنا مزید عرصہ اس غریب ملک پر بوجھ بنا رہے گا۔ جب یہ بینک بنا تو اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے مجھے بڑے فخر سے اس کے بارے میں بتایا تھا۔ چند دن بعد اسلام آباد میں اس بینک کے صدر دفتر جانا ہوا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ کام چلنے والا نہیں۔ کچھ دن بعد شوکت عزیز نے دوبارہ اس بینک کے بارے میں بات کی تو عرض کیا: یہ بینک نہ چل سکتا ہے نہ کسی کاروبار کو چلا سکتا ہے۔ وہی ہوا، بینک چلا نہ کوئی کاروبار۔ بعد میں خود انہوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں چھوٹی صنعتوں کی ضروریات کو سمجھنے والے اور انہیں پورا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے بینکوں میں ہیں‘ نہ ہی حکومت میں۔
چھوٹے اور درمیانے کاروبار نوکریاں پیدا کرنے کا سستا ذریعہ اور تیز رفتار ترقی کا آسان نسخہ ہیں۔ یہ حقیقت دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک سمجھتا ہے لیکن پاکستان کے معاشی نظام میں چھوٹے کاروباری کی حیثیت ایک اچھوت سے زیادہ نہیں۔ سرکاری دفتروں کے کارندے اور وزیر صرف بڑے بڑ ے لوگوں سے ملتے ہیں، بڑے بڑے لوگوں کے کام کرتے ہیں اور ان کے فائدے کے لیے ہی پالیسیاں بناتے ہیں۔ وہ چھوٹے ادارے جو پاکستان کی پچھتر فیصد صنعتی لیبر کو روزگار فراہم کر رہے ہیں، ان کی قسمت میں سوائے سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی کے کچھ نہیں لکھا۔ ان کے مسائل کا حل صرف اسد عمر کا خلوص نہیں ہے۔ جب تک انہیں ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی نہیں سمجھا جائے گا، ہماری معاشیات دوسروں کے سامنے رکوع کے عالم میں ہی رہیں گی۔ بڑے بڑے کاروباری ادارے بلا شبہ ملکوں کی شان ہوا کرتے ہیں لیکن ہمارے پالیسی سازوں کو اب تک یہ سمجھ نہیں آ پائی کہ معاشیات کی جان چھوٹے چھوٹے اداروں میں ہے، جن کی تعداد پاکستان میں پینتیس لاکھ کے قریب ہے۔ اپنے اصلاحاتی پیکیج میں اسد عمر صاحب نے جو غلطی کی وہ یہی ہے کہ چند بڑوں کی ضروریات تو پوری کر دیں، چھوٹوں کو سرے سے نظر انداز کر دیا۔
معاشی حوالے سے ایک بنیادی ضرورت ہے‘ نارمل سیاسی ماحول، جو معاشی اصلاحاتی پیکیج میں نہیں دیا گیا۔ سنا ہے کہ ایک دانش مند نے چند دن پہلے وزیر اعظم کو یہ نکتہ سمجھایا اور انہوں نے سمجھ بھی لیا۔ پھر انہوں نے چند وزرا کو اپنی زبان پر قابو رکھنے کا حکم نما مشورہ بھی دیا۔ ایک آدھ دن اس پر عمل ہوا اور معاملہ پھر وہیں آ گیا۔ اپوزیشن نے ذرا سا انگیخت کیا تو پہلے ایک وزیر منہ کی ٹھوٹھیاں بنا بنا کر بولا اور پھر لائن لگ گئی۔ چلیے وزیر تو وزیر ہمارے وزیر اعظم صاحب نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ اپنے بنائے ہوئے تعلیمی ادارے نمل کالج میں کھڑے ہیں‘ اور شروع ہو گئے سیاسی مخالفین کے لتے لینا۔ اس ماحول کا ناگزیر نتیجہ ہوتا ہے کہ حکومت کے مخالفین اسے گرانے پر کمر کس لیتے ہیں‘ اور حکومت اپنی لگائی ہوئی آگ میں ہی بھسم ہو جاتی ہے۔ اس حکومت نے اپنی زبان آوری سے جو ماحول پیدا کیا ہے، یہ اسے کوئی کام نہیں کرنے دے گا۔ تھوڑی سی مزید گرمی پیدا ہوئی تو بات جلسے جلوسوں سے ہوتی ہوئی مظاہروں تک پہنچ جائے گی پھر چل سو چل۔ لیکن بات پھر وہی کہ سمجھانے والے تو بہت ہیں، سمجھنے والا اس حکومت میں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ اتنا بھی نہیں سمجھ پا رہے کہ کوئی بھی معاشی پیکیج لے آئیں اسے نافذ کرنے کے لیے پُرسکون ماحول کی ضرورت ہے اور یہاں ان سے قومی اسمبلی بھی نہیں چل رہی۔ جس حکومت کا وزیر اعظم برسرِ عام کہے ''مجھے اسمبلی میں کوئی بات نہیں کرنے دیتا‘‘ اس حکومت کے کام کرنے کی صلاحیت پر کون اعتماد کرے گا؟
اعتماد بھی کیونکر ہو کہ تحریک انصاف ایک ہیجانی کیفیت میں رہتی ہے۔ اس کی سوچ میں خواہشات تو بہت نظر آتی ہیں مگر عمل اس کا بے ہنگم سا ہوتا ہے، یعنی سادہ سی بات سمجھنے کے لیے بھی خاطر خواہ خواری برداشت کرتی ہے اور جب سمجھ جاتی ہے تو بے تکا سا ایک منصوبہ لے آتی ہے۔ کاروباری حقائق کا انہیں علم نہیں اور عمل کی دنیا سے انہیں سروکار نہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کی خواہش ہے مگر حرام ہے کہ ایک قدم بھی اس طرف بڑھایا ہو۔ پچاس لاکھ گھر بنانے کا ارمان ہے مگر بات نیا گھر اتھارٹی بنانے پر پھنسا کر بیٹھے ہیں۔ شوق ہے کہ پاکستان میں طاقتور بلدیاتی نظام ہو لیکن عمل یہ ہے کہ پہلے سے موجود بلدیاتی اداروں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ خیال ہے کہ پولیس کا نظام ٹھیک کرنا ہے، اور حالت یہ ہے کہ انہیں اب تک ڈھنگ کے افسر بھی نہیں سوجھ رہے۔ اس حکومت نے اگر کام کرنا ہے تو سب سے پہلے ہیجان سے نکلے، جیسے اسد عمر نکلے ہیں تو ان کے کام میں تھوڑی سہی، معقولیت بھی نظر آنے لگی ہے۔