تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     01-02-2019

To Whom It May Concern

خاتون نے سوال کیا: آپ یہ بتائیں اگر آپ کو عثمان بزدار کی جگہ چیف منسٹر پنجاب بنانے کی آ فر ہو تو آپ کیا کہیں گے؟ 
ایک خاتون ٹی وی اینکر کے اس سوال کو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ بتائیے اس سوال کا تعلق جمہوریت، سماج ، گورننس، اچھی حکمرانی، عام آ دمی کے لیے فائدہ مند راج نیتی سے ہے یا پھر یہ پِیڈ کنٹنٹ ہے؟ اگر نہیں تو کسی کی ان مول خواہشوں کی بے مول غلامی۔ اس سوال کی گردان بطور قوالی دیر تک سننے والے تنگ آ گئے‘ جن میں ، میں بھی شامل تھا۔ اس لیے مجبوراً چینل بدل لیا ۔ سرِ راہے یاد آیا وکیلوں کی دنیا میں بعض دوست نواز رپورٹرز بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ کسی صوبے کی عدالتِ عالیہ یا پھر ہا ئی کورٹ کے کسی سرکٹ بینچ میں سے دو تین پروفیشنل وکیلوں کے نام لکھ کر‘ ساتھ گم نامِ زمانہ کو ڈال کر خبر بن جاتی ہے۔ جس کی سرخی اس کے سوا اور کیا ہو گی: 4 نامور وکیلوں کے نام ہائی کورٹ کا جج بنانے کے لیے زیرِ غور آ گئے۔ اور کچھ چلے نہ چلے گم نامِ زمانہ کا نام فوراً کلا ئنٹس کے ریڈار پر آ جاتا ہے۔ قوم کا ایک اور نجات دہندہ بڑے زور و شور سے ٹی وی پر استعفیٰ لسٹ چلا رہا تھا۔ تفصیل اس استعیفائی اجمال کی کچھ یوں ہے۔ اب چلیے بھائی پھیرو، جہاں 35 سال سے گلیوں میں پانی کھڑا ہے‘ گندگی کے ڈھیر ہیں اور ''عوام ‘‘ کیا کہتے ہیں۔ ویڈیو کلپ چلایا گیا‘ جس میں ایک مشتبہ حلیے وا لا کہتا ہے: جی ہاں ! عمران خان کو اب استعفیٰ دے دینا چاہیے‘ وہ قوم کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ دور کہیں ایک سرکاری ہسپتال میں قیامت کا منظر ہے۔ نرسیں برآمدے میں بھاگ رہی ہیں۔ ڈاکٹرز ایمرجنسی وارڈ کے ای آر، رو م کی کنڈی لگا کر اندر تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ وارڈ بوائے پر مکّوں، لاتوںکی بارش ہو رہی ہے۔ پانچ چھ انسانیت کے مسیحا اپنے مریض کو پہلے دکھانے اور معائنہ کرانے کے لیے اپنا Preferentional Right Of Pre-emptionاستعمال فرما رہے ہیں۔ باہر ایک موچھندر کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے‘ جس سے ویڈیو بن رہی ہے ۔ ویڈیو میں مظلوم مریضوں کی مسیحائی کے لیے ہسپتال آئے ہوئے مشٹنڈے ڈاکٹروں کے چھپ جانے اور مریض کا علاج معالجہ کرنے سے انکاری ہونے کا اعلان کر ر ہے ہیں۔ یہ کہہ کر کہ ڈاکٹر مریضوں کو ہاتھ لگانے سے انکاری ہیں‘ قوم کے مسیحا اپنی ڈیوٹی ادا نہیں کر رہے۔ 
مجھے ملک بھر میں سپیشلسٹ، سُپر سپیشلسٹ، رجسٹرار، ایم او اور ینگ ڈاکٹرز کی صحیح تعداد معلوم نہیں؛ البتہ ایک wild guess کے مطابق یہ تعداد لاکھوں میں ہونی چاہیے۔ نئے ڈا کٹروں کو چھوڑ کر باقی سب پر ''ہُن‘‘ برستا ہے جب کہ لکشمی کی دیوی ان کے در پر کوڈی کوڈی پرنام کرتی ہے ۔ غالباً لاکھوں پرائیویٹ کلینک ، جنرل پریکٹیشنرز ، ٹیسٹنگ لیبز، ٹیکنیکل لیبارٹریز اور اسی تعداد میں چھوٹے بڑے پرائیویٹ ہسپتال ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر گلی محلے میں دکان ، سٹور ، مارٹ اور شاپنگ مال بھی بن گئے ہیں ‘ جو لندن دبئی اور امریکہ کے مال کا مقابلہ کرنے کے دعو ے دار ہیں ۔ یہ سب کاروباری آئوٹ لِیٹ زیادہ نہیں تو کم از کم ملینز کی تعداد میں ہیں ۔ سب صبح شام ہٰذا من فضلِ ربیِ سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی پیدل نہیں چلتا ‘ نہ ویگن میں بیٹھتا ہے۔ سب کے پاس گا ڑیاں ہیں کچھ کے جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی ۔ ذرا ایس ایم ای کی دنیا دیکھ لیجئے۔ پاور لومز ، کینڈی ، بسکٹ ، چاکلیٹ کے کارخانے ہر گلی محلے میں قائم ہیں۔ ان میں سے کوئی قلاّش نہیں نہ ہی بینکرپٹ۔
پھر یہ تو کوئی پریس والا ہی بتا سکتا ہے کہ بیس بائیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں تحصیل ، تعلقہ، ٹائون ، سب تحصیل، قصبہ، شہر اور میٹروپولیٹن کارپوریشن میں کتنے پریس کلب واقع ہیں۔ ان پریس کلبوں کی کل ممبر شپ ملا کر لاکھ کے لگ بھگ تو شا ید ہو گی۔ میرے شعبے کے لیڈروں کا کہنا ہے: ملک بھر میں 1,80000 سے زائد وکیل ہیں۔ پرائیویٹ سکولز اور درس گاہیں، مذہبی کاروباری ادارے، انڈسٹری، ٹرانسپورٹ، میڈیم اور بڑے سائز کے ٹھیکے دار، ٹمبر مرچنٹس، معدنیات کے تاجر سب ملا کر‘ بلکہ جو اچھی آمدن والے لوگ مجھ سے رہ گئے ہیں آپ ان میں وہ بھی شامل کر لیجئے۔ پھر دل پہ ہاتھ رکھیے تاکہ میں آپ سے اگلی بات کہہ سکوں۔ دل دُکھا دینے والی بات۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بیس بائیس کروڑ لوگوں کے اِس ملک میں اوپر درج ان سب طبقات کی روزانہ آ مدنی کتنی ہے۔ یہ سارے مل کر ہفتے میں کتنا کماتے ہیں۔ ایک مہینے میں کتنا اور ان کی سالانہ آمدن کا گوشوارہ کہاں جا پہنچتا ہے ۔ مجھے معاف کیجئے گا‘ میں نہیں جانتا ۔ لیکن جو میں جانتا ہوں وہ اتنا سا ہے کہ ہم سب میں سے کل آبادی کا ڈیڑھ فی صد بھی اپنے ہی ملک کو ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ جنرل مشرف کے دور میں فوج کے ذریعے ملک کی معیشت کو Documented کرنے کے کوشش ہوئی تھی۔ تب سات لاکھ سے اوپر سرکاری ملازم اور ڈیڑھ پونے دو لاکھ ٹیکس دینے والے دوسرے شہری تھے۔ یہ تفصیل مجھے اپوزیشن پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے ملی ۔ پھر ریشماں جوان ہو گئی اور جمہوریت بالغ ۔ نو لا کھ ٹیکس دینے والے شہریوں کی تعداد گھٹ کر سات لاکھ سے نیچے گِر پڑی۔ اب ایف بی آر کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دورِ حکومت تک ہماری کل آبادی کا 0.57 فی صد حصہ ٹیکس دیتا تھا۔ ایف بی آر کا تازہ دعویٰ ہے کہ عمران خان کی حکومت آنے کے بعد ٹیکس ریٹرن فائلرز 1.2 فی صد ہو گئے ہیں‘ جس کا مطلب ہے‘ 21 کروڑ لوگوں میں سے صرف تقریباً 15 لاکھ اس ملک کے مستقبل میں سٹیک ہولڈر ہیں۔ جو باقی بچ گئے وہ سڑکوں پر اشارے توڑنا، کھمبے توڑنا اور دوسروں کی گاڑیاں توڑنا طورخم سے کراچی تک اوور لوڈنگ کے ذریعے سڑکیں توڑنا نالیوں، نالوں، نہروں اور پانی کے کھالوں میں پلاسٹک کے لفافے پھینکنے جیسی قومی ضرورتیں پوری کرنے میں مصروف ہیں۔ اربوں ، کھربوں کی کرپشن کرنے والے ایسے بولتے ہیں جیسے ابھی کشمیر فتح کیا ہو ‘ فلسطین آزاد کروا دیا ہو اور پاکستان میں دودھ کی نہریں اور شہد کے کنویں کھدوا ڈالے ہوں ۔ ہر آدمی اپنے اپنے شعبٔہ زندگی میں کامیاب ہے ‘ ماسوائے بے روز گار اور بے آسرا طبقات کے۔ 
سمجھ نہیں آ رہی‘ میں نے یہ سب آپ سے کہا، اپنے آپ سے یا ہم سب سے۔ جی ہاں رہ گئے! فَیں فَیں کلب والے کالے انگریز‘ جو ٹیکس دیے بغیر یورپ جتنی سہولتیں مانگتے ہیں۔ اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے، بیلجیم میں کل آبادی کا 54 فی صد، جرمنی 49.4 فی صد، ہنگری 48.2 فی صد، فرانس 48.1 فی صد، اٹلی 47.8 فی صد، امریکہ 44 فی صد ، یو کے 45.3 فی صد اور روس میں 33 فی صد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔
اور آپ جناب سرکار... حضور، رہنے دیجیے۔
21 کروڑ لوگوں میں سے صرف تقریباً 15 لاکھ اس ملک کے مستقبل میں سٹیک ہولڈر ہیں۔ جو باقی بچ گئے وہ سڑکوں پر اشارے توڑنا، کھمبے توڑنا اور دوسروں کی گاڑیاں توڑنا طورخم سے کراچی تک اوور لوڈنگ کے ذریعے سڑکیں توڑنا نالیوں، نالوں، نہروں اور پانی کے کھالوں میں پلاسٹک کے لفافے پھینکنے جیسی قومی ضرورتیں پوری کرنے میں مصروف ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved