بھارت میں ''غدار سازی‘‘ کا کارخانہ ایک بار پھر دن رات‘ یعنی کئی شفٹوں میں کام کر رہا ہے۔ جو بھی سچ بول رہا ہے‘ غداری کی ''سند‘‘ پارہا ہے۔ انتہا پسند ہندو چاہتے ہیں کہ ملک اُن کے اشاروں پر چلے۔ ملک کچھ اور چاہتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے حق میں کچھ بھی بولنے والے پر غدار کا لیبل چسپاں کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ اب معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ اب کوئی بھی مسلمان؛ اگر اصول کی بات کرے تو غدار قرار پاتا ہے۔ یہی حال دیگر اقلیتوں کا بھی ہے۔ مسلمانوں کے بعد مسیحیوں اور سِکھوں کو بھی ''کنٹرول‘‘ کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ انتہا پسند ہندو چاہتے ہیں کہ بات کی جائے تو صرف وہ جو ہندوؤں کے حق میں جاتی ہو۔ یہی معاملہ نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دلِتوں کے ساتھ بھی ہے۔ وہ بھی حق کہنے سے صاف گریز کرنے لگے ہیں‘ کیونکہ معاملہ صرف غدار قرار دینے سے ختم نہیں ہو جاتا‘ بلکہ نوبت تشدد تک پہنچتی ہے۔
مودی سرکار کے دور میں بھارت کا حال یہ رہا ہے کہ گائے کو تحفظ دینے کے نام پر جس مسلمان کو بھی چاہو مار ڈالو یا وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناؤ۔ کوئی پوچھنے‘ ٹوکنے اور روکنے والا نہیں۔ اتر پردیش‘ ہریانہ اور بہار میں صورتِ حال زیادہ خراب رہی ہے۔ بہار میں جب تک معاملات لالو پرساد یادو کے ہاتھ میں تھے‘ اُنہوں نے مسلم مخالف جذبات کو بے قابو نہیں ہونے دیا۔ نیتش کمار اس حوالے سے کمزور ثابت ہوئے۔ مودی سرکار کے دور میں بہار کو بھی انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ مسلم دشمنی کے رنگ میں بُری طرح رنگ دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب بہار میں بھی مسلمانوں کو کسی بھی وقت بحرانی کیفیت کا سامنا ہوسکتا ہے اور کہیں بھی فساد یوں پُھوٹ سکتا ہے کہ روکے نہ رکے۔
اتر پردیش اور ہریانہ کا حال زیادہ بُرا ہے۔ ممبئی‘ دہلی اور دیگر بڑے شہروں میں معاملہ زیادہ خراب نہیں رہا‘ مگر چھوٹے شہروں‘ قصبوں اور خالص دیہی علاقوں میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ ہریانہ کی صورتِ حال خاص طور پر زیادہ خراب رہی ہے جہاں ذات پات کے معاملات کو بھی اُچھالا گیا ہے۔ اعلٰی ذات کے ہندو نچلی ذات کے ہندوؤں کو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا ساتھ دینے کی بنیاد پر بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے۔
بات شروع ہوئی تھی غدار سازی کے کارخانے سے۔ غدّار کا لیبل بہت سوں پر چسپاں کیا جاتا رہا ہے۔ جو بھی پاکستان کے لیے ذرا سا نرم گوشہ دکھاتا ہے اُسے بھارت کا دشمن اور پوری ہندو تہذیب کا غدار قرار دینے سے ذرا بھی اجتناب نہیں برتا جاتا۔ اوم پوری کے ساتھ یہی ہوا۔ وہ پاکستان سے بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔ انہوں نے کئی مواقع پر کھل کر کہا کہ بھارتی قیادت کو پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ وہ لاہور اور کراچی آنے کے معاملے میں بھی بہت فراخ دل رہے۔ اُنہوں نے ''ایکٹر اِن لا‘‘ میں بھی کام کیا۔ یہ فلم اچھا بزنس تو نہ کرسکی مگر خیر‘ اوم پوری نے ایک پاکستانی فلم میں فن کا مظاہرہ کرکے اپنے حصے کا کام تو کر ہی دیا اور پھر اُس کا نتیجہ بھی بھگتا۔ پاکستان کے لیے بولنے پر پہلے تو اوم پوری کو ٹی وی پروگرامز میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا‘ پھر دھمکیاں دی گئیں اور اس کے بعد دھمکیوں پر عمل سے بھی گریز نہیں کیا گیا‘ یعنی اوم پوری پاکستان نواز رویے کی چوکھٹ پر قربان ہوگئے!
اوم پوری کے بعد نصیرالدین شاہ نشانے پر لیے گئے‘ کیونکہ وہ بھی پاکستان کا چکّر لگاتے رہتے ہیں۔ نصیرالدین شاہ بھی معاشرے کی خرابیوں کے حوالے سے غیر معمولی حد تک ''ووکل‘‘ رہے ہیں۔ اور یہی بات انتہا پسند ہندوؤں کو پسند نہیں کہ اُن کے معاشرے کی خرابی کوئی مسلمان بیان کرے! گویا معاشرے کی خرابیوں کو بیان کرنے اور اُنہیں دور کرنے کا صرف انتہا پسند ہندوؤں نے ٹھیکا لے رکھا ہے‘ کوئی اور اس ''ڈومین‘‘ میں قدم نہ رکھے!
نصیرالدین شاہ سے قبل مہیش بھٹ پاکستان آیا کرتے تھے‘ مگر پھر عمر کے تقاضوں کے باعث وہ آنے سے معذوری ظاہر کرنے لگے تو نصیرالدین نے اُن کا پرچم تھام لیا۔ اور یوں ''غدار نمبر ون‘‘ قرار پائے۔
عامر خان نے بھارتی معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور عدم رواداری کی بات کی تو اُنہیں مشورہ دیا گیا کہ ملک چھوڑ دیں‘ پاکستان چلے جائیں۔ یہ بھی خوب رہی کہ اگر کوئی معاشرے کی خامیوں اور خرابیوں کا ذکر اور شِکوہ بھی کرے تو غدار! عامر خان کا شمار بھارت کی اُن نمایاں ترین شخصیات میں ہوتا ہے ‘جو معاشرے کی اصلاح چاہتی ہیں۔ وہ تعلیم کے حوالے سے بھی غیر معمولی حد تک فعال ہیں۔ معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں کو اجاگر کرکے اُن سے نجات پانے کی ذہنیت کو پروان چڑھانے کے معاملے میں وہ پیش پیش رہے ہیں۔ ''تارے زمین پر‘‘ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ اس فلم کے ذریعے عامر خان نے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کی اور عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کیا۔
اب نصیرالدین شاہ اور عامر خان کے ساتھ ساتھ نوجوت سنگھ سِدّھو بھی معتوب ٹھہرے ہیں۔ کیوں نہ ٹھہرتے؟ وہ اپنے نام کا مصداق ثابت ہوتے ہوئے نئی جوت جو جگا رہے ہیں! بدنامِ زمانہ بنیاد پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے صدر اِندریش کمار کا کہنا ہے کہ یہ لوگ (عامر خان‘ نصیرالدین شاہ اور نوجوت سنگھ سدّھو) عزت کے قابل نہیں۔ ساتھ ہی اِندریش کمار کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت میں عشرت جہاں‘ اجمل قصاب اور یعقوب جیسے نوجوان قابل نہیں۔ صرف اُنہیں قبول کیا جائے گا‘ جو سابق صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر عبدالفقیر زین العابدین عبدالکلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے!
سِدّھو کا قصور یہ ہے کہ کرکٹ کے میدان سے نکلنے کے بعد اب وہ عوامی رابطوں کے میدان میں بھی چوکے اور چھکے لگا رہے ہیں۔ کرتار پور راہداری کے قیام کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنے اور پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی مساعی کی پاداش میں نوجوت سنگھ سِدّھو کو انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اُنہیں بھی غدار قرار دیا جارہا ہے۔
غداروں کی فہرست میں یہ تازہ ترین اضافہ ہے۔ انتہا پسند اس حوالے سے غیر معمولی حد تک فعال اس لیے ہیں کہ عام انتخابات نزدیک آرہے ہیں۔ ملک بھر میں انتخابی ماحول تیزی سے جڑ اور زور پکڑ رہا ہے۔ اب غدّاروں کی فہرست میں نام بہت تیزی سے جُڑتے چلے جائیں گے۔ شریمان اِندریش کمار جسے چاہیں گے غدّار ٹھہرائیں گے اور جسے چاہیں گے حُبّ الوطنی کا سرٹیفکیٹ عنایت فرمائیں گے۔ آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے ہاتھوں پورا بھارتی معاشرہ داؤ پر لگا ہوا ہے‘ مگر معاملات کو درست کرنے کی پروا کسی کو نہیں۔ جنہیں بولنا اور اپنا کردار ادا کرنا ہے وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ رام راج کی باتیں کرنے والوں نے راون راج قائم کر رکھا ہے‘ یعنی زبان پر حرفِ حق لانے والے ہر شخص کو غدّار قرار دے دو۔ مودی اور اُن کے چیلے کچھ سوچیں گے یا انتہا پسندی اور عدم برداشت کے ہاتھوں پیدا ہونے والی تباہی کو ملک کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے مطمئن ہو رہیں گے؟