تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     01-02-2019

دنیا کی سب سے قیمتی چیزکی بے قدری

ستاروں سے لے کر انسان تک ‘ اس دنیا میں جتنی بھی جاندار اور بے جان چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں ‘ سب گنتی کے کچھ عناصر سے مل کر بنی ہیں۔ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے ‘ وہ قیمتی عناصر کی ملکیت پر ایک دوسرے سے جنگ لڑتا آیا ہے ۔ ابتدا ہی سے قبائل پانی اور جانوروں کی ملکیت پر ایک دوسرے کا قتلِ عام کیا کرتے تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے انسان زمین کھودتا چلا گیا‘ اسے کوئلے‘ سونے اور ہیروں کے ذخائر ملے۔ 
آپ قیمتی چیزوں کی فہرست بنائیں ۔ ہیروئن اور ایفی ڈرین جیسی منشیات لاکھوں ڈالر فی کلو میں فروخت ہوتی ہیں ۔ افزودہ یورینیم ‘ سینٹری فیوجز یا ایٹمی ہتھیار بنانے کے سازو سامان کی قیمتیں بلیک مارکیٹ میں اربوں ڈالر ہیں ۔ لانگ رینج میزائل بہت قیمتی ہیں۔ اس طرح کی قیمتی چیزیں بنی تو لوہے سے ہیں‘ لیکن ان کی اصل قیمت ان کے ڈیزائن اور نقشے میں ہے ۔خلا میں کرّہ ٔ ارض کے گرد گھومتے ہوئے سیٹلائٹس اور کیپلر جیسی دوربینیں ہیں ‘ جن کی قیمتیں اربوں ڈالر میں لگائی جا سکتی ہے ۔ 
اب آپ ایک نظر جانوروں کو دیکھیں۔ ان کے سامنے آپ سیٹلائٹ کنٹرول کرنے والے آلات رکھیں ۔ وہ انہیں سونگھ کر چھو ڑ دیں گے ۔ آپ انہیں سپر کمپیوٹر دے دیں ‘ وہ اسے دولتی رسید کر دیں گے ۔اس کا کیا مطلب ہے ؟ یہ کہ جانور بے وقوف ہیں ۔ انہیں اتنا شعور نہیں کہ وہ قیمتی چیز کی قدر کر سکیں ۔ بالکل ٹھیک‘ لیکن اس کا ایک مطلب اور بھی ہو سکتاہے اور وہ یہ کہ ہم انسان چیزوں کو غلط قدر و قیمت دے رہے ہیں ۔ آپ زمین کھودتے ہیں ‘ ہیرے نکالتے ہیں ‘ ان کے لیے لڑتے ہیں ‘ جو جیتتا ہے ‘ وہ اس کا زیور بنا کر پہن لیتاہے ۔ اس کے علاوہ وہ آپ کے کس کام کے ؟ یہی حال سونے اورقیمتی پتھروں کا ہے ۔ آپ انہیں کھا نہیں سکتے ۔ صرف لوگوں کو دکھا سکتے ہیں ۔ آپ کے مرنے کی دیر ہے ‘ وہ چیز دوسروں کی ملکیت ہو جائے گی ۔ 
زمین قیمتی تین چیزوں میں سے ہے ۔ ایک ایک مرلے کی قیمت لاکھوں اور کروڑوں میں ہے ۔ زمین ان چیزوں میں سے ہے ‘ جن کے لیے پہلے دن سے جنگ و جدل ہوتی رہی ۔ بڑے بڑے بادشاہ ایک دوسرے کی سرزمین پر حملہ آور ہوتے اور لاشوں کے انبار لگا دیتے ۔ بدقسمتی سے اس زمین کا حال بھی یہی ہے کہ ادھر ایک شخص مرا‘ ادھر اس کی زمین اور اس کا گھر دوسروں کو منتقل ہوا۔ یوں اکثر قیمتی چیزوں کی ملکیت ایک انسان کے مرنے کے بعد دوسرے کو منتقل ہو جاتی ہے ۔ جس چیز پر آپ کی ملکیت ہی مستقل نہیں ‘ آپ اس کے لیے لڑتے ہیں ‘ چار دن اس کی ملکیت پر فخر کرتے ہیں اور پھر مر کے اسے دوسروں کے حوالے کر جاتے ہیں ۔ 
میری نظر میں دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے ایک سیکھا ہوا اور سوچتا ہوا دماغ ۔ ایک دماغ جو کہ جانتا ہے ۔ قرآن کہتاہے کہ علم رکھنے والا اور بے علم کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ یہ جاننے والا دماغ ہی ہے ‘ جس نے ہیرے کی قیمت لگائی ‘ورنہ وہ انسان کے کسی کام کا نہیں ۔ اسی دماغ نے لوہے کو انجن میں بدلا اور اسی کا میزائل بنا ڈالا۔ اسی نے یورینیم کو افزودہ کیا۔ یہی جاننے والا دماغ ہے ‘ جو تین طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی وادی کی چوتھی طرف دیوار بنا کر ڈیم بنانے کا سوچتا ہے ۔ یہی سوچنے والا دماغ ہے ‘ جو خوردبین سے جائزہ لینے کے بعد ہر بیماری کے جراثیم کو الگ نام دیتاہے اور ان کی الگ الگ ویکسین بناتا ہے ۔ یہی سوچنے والا دماغ ہے ‘ جو شیشوں سے عدسے بناتاہے ۔ پھر وہ انہیں خوردبین میں فٹ کرتاہے اور دوربین میں بھی ۔ یوں وہ اپنے اندر بھی جھانک لیتاہے اور زمین کی حدود سے باہر بھی ۔ یہی سوچنے والا دماغ ہے ‘ جس نے انسان کو زمین کے نیچے دفن قیمتی ذخائر تک پہنچایا۔یہی آلاتِ جراحی کو جراثیم سے پاک کر تا ہے ۔ ٹیلی فون اور موبائل فون سمیت آج تک جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں ‘ وہ سب اس سوچتے ہوئے ذہن کی بدولت ہیں ‘لیکن کیا یہ سوچتا ہوا دماغ اپنے حقیقی فائدے کے بارے میں سوچ رہا ہے ؟ 
ہم جانوروں کو بے وقوف سمجھتے ہیں کہ سونے اور ہیرے کی قدر و قیمت کو نہیں جانتا ۔ ہم بچّے کو بے وقوف سمجھتے ہیں کہ وہ ایک ویڈیو گیم کو کروڑوں ڈالر مالیت کے ہیروں پر فوقیت دے دیتاہے ۔ ہم کبھی خود کو بے وقوف نہیں سمجھتے‘ جب ہم زمین اور سونے جواہرات کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں ۔ انسان کو اس قدر دور اندیش عقل ‘ جو اسے تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے ‘ ایک خاص مقصد کے لیے دی گئی ہے ۔ یہ مقصد ہے خدا کی پہچان اور اپنی ذات کا عرفان۔اس مقصد کے لیے آپ کو یہ عظیم الشان عقل عنایت کی گئی تھی ‘ جس کی مدد سے آپ یہ سب فائدے اٹھا رہے ہیں ۔ 
جب عقل اپنے اس خصوصی اور اصل مقصد پر مرتکز نہیں ہوپا تی تو پھر اس کی تمام تر توجہ ادنیٰ مادی فوائد تک رہ جاتی ہے ۔ پوری زندگی انسان اپنی دولت میں اضافے کے لیے ایڑیاں رگڑ تا رہتاہے ۔ جو غریب ہوتے ہیں ‘ وہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے پاس ایک خاص حد تک دولت آجائے تو باقی زندگی وہ خوش رہیں گے ۔دوسری طرف آپ امرا کو دیکھیں ‘ جن کے پاس بے تحاشا مال و دولت موجود ہے تو وہ آپ کو غریبوں سے زیادہ پریشان نظر آئیں گے ۔آپ اپنے ملک کی سیاسی اشرافیہ کو دیکھ لیں ۔نواز شریف سے اسحٰق ڈار اور ڈاکٹر عاصم حسین تک ‘ ہر شخص نے اپنی دولت میں انتہائی حدتک اضافہ کیا اوریہ پوری سیاسی اشرافیہ ہر وقت پریشان رہتی ہے ۔ 
تیسری طرف انسان کا رزق مقدر کر دیا گیا ہے ۔ وہ رزق ہے کیا؟ جو ہم کھاتے اور اوڑھتے ہیں ‘ جو ہم دنیا کی زندگی میں واقعی استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً: جس لکڑی کے بنے ہوئے جس بیڈ پر میں سوتا ہوں ‘ وہ میرا رزق ہے ۔ مٹی کی بنی ہوئی جو اینٹ میرے کمرے میں لگی ہوئی ہے ‘ وہ میرا رزق ہے ؛ اگر میرے پچاس گھر اور بھی ہیں اور وہاں ملازم رہ رہے ہیں تو وہ میرا رزق نہیں ہے ۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نا۔ انسان اپنی زندگی میں بہت کم چیزیں استعمال کر سکتاہے اور جو وہ استعمال کرتا ہے ‘ وہی اس کا رزق ہے ۔ امیروں او رغریبوں بالخصوص مزدوروں کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے یہ حقیقت نظر آئی کہ غریب زیادہ کھاتے ہیں ؛ اگر آپ کو رزق زیادہ استعمال کرنا ہے تو پھر اس کے لیے جسمانی مشقت لازم و ملزوم ہے ۔ چاہے آپ اینٹیں اٹھائیں یا ورزش کریں ۔ 
بات ہو رہی تھی دنیا کی سب سے قیمتی چیز کی۔ کائنا ت کی سب سے قیمتی چیز وہ عقل ہے ‘ جسے خدا کی طرف سے بصیرت عطا ہو ئی ہو۔باقی چیزیں عارضی استعمال کے لیے دی گئی ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عقل کی بات کرنے والا شاذ و نادر ہی کوئی نظر آتاہے ۔صرف ایک فیصد سکول ہیں ‘ جہاں بچوں کو عقل استعمال کرنی سکھائی جاتی ہے !ایسے استاد نہ ہونے کے برابر ہیں ‘ جو عقل تودنیا کی سب سے قیمتی چیز کی بے قدری کرنے والے کو آپ کن الفاظ میں یاد کریں گے ؟ قرآن ہمیں ظالم اور جاہل کہتاہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved