تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-02-2019

جدید تجارتی سائنس

کیا تجارت 1930ء کی طرز پر ہو رہی ہے؟ کیا دنیا پہلے جیسی کامیاب تجارت کر پائے گی؟ وائٹ ہاؤس کاہر فرد سراپا سوال ہے کہ آئندہ ہفتے کے ریاستی یونین کے اجلاس میں تجارتی ترمیمی بل کیا ہوگا؟ بل کے نام کا تو علم نہیں مگر شاید امریکہ میں، تاریخ ایک بار پھر دُہرائی جا رہی ہے، مستحکم تجارتی معاہدے کا ایکٹ، جس میں سابق صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے 1934 ء میں امریکہ کو بڑے تجارتی دبائو سے نکالا تھا، موجودہ کانگریس یقینی طور پر اسی طرزکا بل لانے پر سوچ رہی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے ممالک پر ٹیرف کو بڑھانے کے لئے پہلے سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔ واشنگٹن کے لئے مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب حالات 1930ء کے نہیں رہے، کیونکہ ریٹس اور ان کا تعین اب جدید ترین تجارت میں بدل چکا ہے ، سرمایہ کاری حقوق کی ضمانت، صحت اور حفاظت کے قواعد، دانشورانہ اثاثوں کی حفاظت، ڈیجیٹل تجارتی قواعد، رضاکارانہ معیار،سب کچھ تبدیل ہو چکا ، ریٹس پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے نئی پالیسی کا مقصد ،امریکہ کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے مزید تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے زور دیا ہے کہ باقی دنیا کو وسیع معاہدوں کے ذریعے ایک نقطہ پر لانے کی کوشش کی جائے، تاکہ مزید اضافی بوجھ سے بچا جا سکے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کو اپنی ڈوبتی معیشت مزید تنزل کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے؟تجارت میں سنجیدگی کا تصور صدیوں تک پہنچ گیا ہے، سرمایہ کاروں نے ہمیشہ مارکیٹ میں ''نفسیاتی برتری‘‘حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کو اپنی مارکیٹ تک رسائی دی ہے، غالبا ًتمام ممالک ایسا کرتے ہیں،وقت کے ساتھ، یہ تصور سب سے زیادہ مقبول بھی ہے۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں قوم پرستوں نے ٹیرف پرسب سے زیادہ توجہ دی ہے،19 ویں اور ابتدائی 20 صدیوں کی تجارتی جنگوں میں، اوسط ٹیرف کی شرح اکثر 50 فی صد تک ہی رہی ،جب روزویلٹ نے 1934ء کے تجارتی عمل پر دستخط کیے، تو انہوں نے واشنگٹن میں اقتصادی تنقید کا خاتمہ کیا اور تحفظ پسند عالمی ماحول میں تجارتی لبرلائزیشن کو ایک مہرابنا یا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کسی بھی ایسے ملک کے لئے اپنے ٹیرف کو آزاد کرنے کی پیشکش کرتا تھاجو واشنگٹن کے لئے زیادہ مفید ہوتے،1940 تک امریکہ نے 21 ممالک میں معاہدوں پر دستخط کیے،دوسری عالمی جنگ کے بعدحالات بدل گئے اور دائرہ کار وسیع کردیا گیا۔تجارتی خسارے اور ٹیرف پر توجہ کے ساتھ تنازعات پر ٹرمپ کا خیال ہے کہ اپنے سابقہ فیصلوں کے برعکس، واضح طور پر عالمی، سٹریٹجک نقطہ نظر سے تجارتی معاملات کو ختم کیا جائے ، اس طرح کے نقطہ نظر نے امریکی سیاسی کارکنوں کونظریاتی طور پر نقصان بھی پہنچایا، روایتی ٹریڈ ایکٹ میں وائٹ ہاؤس کے آپریٹنگ نقطہ نظر کو دیکھتے ہوئے ، تجارتی تحفظ کو فروغ دینے کے بجائے ، ٹیرف میں کمی یا اضافہ کیا جائے گا، یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے،اس کے مطابق صدر کواختیار ہوگا کہ وہ جس ملک سے چاہے جو ٹیرف طے کرے یا نہ کرے، اس سے تجارتی مساوات کا عمل ضرور متاثر ہوگا۔
ٹرمپ کی طاقت کو کم کرنے کے لئے قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے، تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ معتبر ٹریڈ ایکٹ میںقانون سازی تجارتی موت کے مترادف ہوگی، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ صدر دوسرے آلات کا استعمال بھی کرسکتا ہے، جو اس کے نقطہ نظر کو تقویت بخشتا ہے۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے اس معاملے پر اپنے مقاصد کا پیچھا کرنے کے لئے 1962ء کے تجارتی توسیع ایکٹ کے سیکشن 232 اور امریکی ٹریڈ ایکٹ آف 1974 ء کے سیکشن 301 کا استعمال کیا ہے۔ واضح طور پر یورپی یونین کے ٹیرف میں گاڑیوں پر سیکشن 232 تحقیقات سے منسلک کرنے کے لئے، گاڑیاں (برسلز سے درآمد شدہ گاڑیوں پر 10 فیصد چارج کرتی ہیں، جبکہ واشنگٹن غیر ملکی ساختہ آٹوموبائل پر 2.5 فیصد ٹیرف برقرار رکھتا ہے)۔لیکن اس حکمت عملی کا تعاقب ایسی دنیا میں ایک دراڑہو گی جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد تبدیل کر دیا گیا،1950ء کے دہائیوں سے پہلے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی تجارت خام مال، زراعت یا کچھ صنعتی سامان پر مرکوز رہی ۔ فراہمی کی زنجیریں گہری نہیں تھیں، جبکہ عالمی سطح پر کثیرتعداد میںکارپوریشنز موجود تھیں، وہ صنعت اور علاقوں میں سرگرم رہیں ،مزید برآں، حکومتی ریگولیٹری اداروں کو عام طور پر کمزور کیا گیا، صرف حفاظت، حفظانِ صحت اور ماحولیات کے معاملات پر نگرانی کا ایک ماڈیول استعمال کیا گیا،ایسی دنیا میں، ٹیرف نے تجارتی مذاکرات پر زور دیااور تجارت کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔
صرف ٹیرف ہی اہم مسئلہ نہیں ،فراہمی کی زنجیریں عالمی طور پر پیچیدہ اور گہری ہیں،کثیر ملکی کارپوریشنز نے سرمایہ کاری کے تحفظ کو حاصل کیا ہے، اس حوالے سے کئی معاہدے بھی کیے گئے ۔ صحت، حفاظت اور دیگر ریگولیٹری معیار کے نتیجے میں تجارت کرنے کے لئے تکنیکی رکاوٹوں کو دور کر کے تیزی سے جدید طریقوں پر استوار کیا گیا۔دریں اثنا ڈیجیٹل ، ای کامرس تجارت اور الیکٹرانک پرائیویسی، تجارتی مباحثے اس کا مرکز ہیں،خاص طورپر ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان، لیکن مجبور کرنے پر ریگولیٹری مسائل پر گھریلو قوانین میں ترامیم بھی کی گئیں۔عالمی تجارت کی شرائط میں، ٹیرف ہی شاید مسائل ہوں، 2017ء میں اوسط لاگو ٹیرف کی شرح (برآمد شدہ مال کی طرف سے وزن میں) دنیا بھر میں صرف 2.59 فیصد تھا۔یورپی یونین کا اوسط صرف 1.79 فیصد تھا جبکہ امریکی شرح 1.66 فیصد تھی،امریکہ کے مقابلے میں گاڑیوں پر یورپی یونین کے اعلیٰ ٹیرف بھی سب کے سامنے ہیں، لیکن واشنگٹن نے برسلز کے بجائے ٹرمپ پر بہت زیادہ الزام لگائے۔کچھ صنعتوں کے لئے کم ٹیرف حاصل کرنے کی خاطر گراونڈ زبنائے گئے، سیاست دان یقینی طور پر گھر میں کچھ پوائنٹس سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔
امریکہ، ٹیرف کے خطرے میں دیگر ممالک کو بات چیت کی میز پرلانے میں کامیاب ہوگیا ہے، اگرچہ یہ واضح نہیں کہ واشنگٹن کتنے عرصے میں نئے سودے پر تبادلہ خیال کرے گا۔ٹرمپ واضح طور پر 2020 ء کے انتخابات سے قبل کاروباری برادری چاہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے، اس پربڑی تنقید کی تجارتی حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے،جو اسے انتخابات میں نقصان پہنچا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved