ڈاکٹر کہتے ہیں دل بڑھا‘ میں کہتا ہوں دل بڑا ہے: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ڈاکٹر کہتے ہیں دل بڑھا‘ میں کہتا ہوں دل بڑا ہے‘‘ کیونکہ جو کمالات میں کرتا رہا ہوں وہ کوئی چھوٹے دل والا تو کر ہی نہیں سکتا جبکہ جیل میں رہنے کے لیے بھی بڑے دل کی ضرورت ہے اور حکومت کہتی ہے کہ نواز شریف اور زرداری کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں‘ اور میں کہتا ہوں کہ اب ہمیں سیاست کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کیونکہ سیاسی میدان میں داخل ہونے کا جو مقصد تھا‘ وہ ہم نے جی بھر کے پورا کر لیا جو قیامت تک ہماری آئندہ نسلوں کے لیے کافی ہے‘ باقی رہی جیل‘ تو یہاں بھی اے کلاس اور بی کلاس مل جاتی ہے اور دیگر سہولیات کے علاوہ ایک عدد مشقتی بھی‘ اس لیے جیل کا ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں ہے‘ اور اب چونکہ زرداری صاحب بھی آنے والے ہیں اس لیے ؎
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
دن رات گپیں لگایا کریں گے اور حکومت کی بیوقوفی پر ہنسا کریں گے کہ وہ اپنی دانست میں ہمیں سزا دے رہی ہے۔ آپ اگلے روز ملاقات کے لیے آنے والوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خاں ملک ٹھیک نہیں چلا رہے: ممنون حسین
سابق صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''عمران خاں ملک ٹھیک نہیں چلا رہے‘‘ کیونکہ یہ دہی بھلے بنانے جیسا کوئی آسان کام نہیں ہے جن میں مرچ مسالے اور ذائقے وغیرہ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور میری یہی ادا نواز شریف کو اتنی پسند آ گئی تھی کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجھے صدر بنا دیا تاکہ صدارت بھی چلتی رہے اور دہی بھلے بھی‘ اور آپ نے دیکھا کہ دونوں کیسے خوب چلے ہیں جبکہ نواز شریف خدمت جیسی شہرئہ آفاق مصروفیت کے دوران بھی اسی نعمت سے مستفید ہوا کرتے تھے کیونکہ ان سے بھوک بھی بہت لگتی ہے اور کھانا کھانے کے بعد بھی اتنا ہی کھانا مزید کھایا جا سکتا ہے یعنی دہی بھلے اپنے اندر ایک زبردست پھکی کے اوصاف بھی رکھتے ہیں‘ حتیٰ کہ صاحبِ موصوف اور دہی بھلے لازم و ملزوم ہو گئے تھے جنہیں ظالم و مظلوم بھی کھا سکتے ہیں چنانچہ اب بھی اگر کوئی صاحب صدر بننے کے خواہشمند ہوں تو میں انہیں نہایت مناسب معاوضے پر یہ ہنر سکھانے پر تیار ہوں چنانچہ آپ سمجھ لیں کہ آئندہ جو بھی صدر مملکت آئے گا‘ وہ اسی بل بوتے پر آئے گا۔ آپ اگلے روز کوٹ لکھپت جیل میں میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
تفتیش شفاف انداز میں ہو رہی ہے‘ جوڈیشل
کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ساہیوال واقعے کی ''تفتیش شفاف انداز میں ہو رہی ہے‘ جوڈیشل کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں‘‘ جبکہ ملزمان نے کہہ دیا ہے کہ گولی انہوں نے نہیں چلائی بلکہ مرنے والے اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے‘ اس لیے اب ہم سارا زور اُن ساتھیوں کی تلاش میں لگا رہے ہیں‘ نیز چونکہ ہماری حکومت ہی ماشاء اللہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے تعاون سے ہی چل رہی ہے اس لیے انہیں کسی جھوٹے کیس میں پریشان کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے‘ چنانچہ جونہی مرنے والوں کے مذکورہ بالا ساتھی گرفتار ہوتے ہیں‘ انہیں عبرتناک سزا دے کر انصاف کا بول بالا اور دشمن کا منہ کالاکر دیا جائے گا‘ اگرچہ اُن کے منہ پہلے ہی کافی کالے ہیں اور بازاری فیس کریم کے استعمال کے بعد مزید کالے ہو گئے ہیں‘ اس لیے مذکورہ لوگوں کو پکڑنے کے بعد ناقص فیس کریم بنانے والوں کے خلاف بھی پرجوش کارروائی کی جائے گی۔ آپ اگلے روز وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کر رہے تھے۔
حکمران ملک کو لیبارٹری سمجھ کر مختلف تجربات کر رہے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمران ملک کو لیبارٹری سمجھ کر مختلف تجربات کر رہے ہیں‘‘ مثلاً ٹور ازم کو فروغ دینا وغیرہ‘ لیکن جو لوگ سیاحت کے لئے آئیں گے اپنے لیے کھانے پینے کی چیزیں وغیرہ خریدیں گے تو اس سے ملک کو کیا ملے گا‘ ماسوائے پہاڑی مقامات پر برف میں پھنسے سیاحوں کو نکالنے کی فٹیگ کے‘ اس کی بجائے یہاں قابل دید اشخاص کی بھی کمی نہیں ہے۔ ایسے حضرات پر ٹکٹ لگا کر کافی پیسہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور جس سے ملک کے بیشتر مسائل حل ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ ان معززین کو اور تو کوئی کام نہیں ہے‘ ماسوائے اُلٹے سیدھے بیانات دینے کے‘ تو اپنی نمائش کے دوران یہ شوق بھی پورا کر سکتے ہیں‘ یعنی آم کے آم‘ گٹھلیوں کے دام‘ اگرچہ گٹھلیوں کو ہم نے کبھی بازار میں بکتے نہیں دیکھا اس لیے یہ محاورہ ہی غلط ہے جبکہ غلط محاورے ٹھیک کرنے کیلئے بھی حکومت کو کچھ کرنا ہوگا اور یہ وہ کام ہے جس میں ہم اپنا تعاون بھی پیش کرنے کو تیار ہیں اور وہ بھی اپنی گڈ گورننس کی نمائش کے دوران‘ یعنی ایک پنتھ دو کاج۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میری صحت بہتر ہے‘ بس کمر کا درد چل رہا ہے: شہباز شریف
سابق خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''میری صحت بہتر ہے‘ صرف کمر کا درد چل رہا ہے‘‘ جبکہ نیب کی انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے کمر کافی ڈھیلی ہو گئی ہے جسے کسنے کی ضرورت ہے‘ نیز صحت کو مزید بہتر کرنا بھی مقصود ہے جس کے لیے طبی مشورہ کی غرض سے برخوردار حمزہ شہباز لندن سدھا رے ہیں جبکہ کچھ خفیہ بیماریاں اُن کو بھی لگی ہوئی ہیں جو یہاں مقامی معالجوں کی سمجھ میں نہیں آ رہیں۔ اس لیے وہاں چند سال کے لیے اُن کا قیام طویل بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں پر موجود جملہ جائیدادوں کو بھی بلے لگانا مقصود ہے تاکہ حکومت اُن پر قبضہ نہ کر سکے‘ اگرچہ وہاں جا کر اُنہیں وطن کی یاد بہت ستائے گی۔ اورہو سکتا ہے کہ اس اداسی کی وجہ سے ان کے مذکورہ امراض خدانخواستہ مزید پیچیدہ ہو جائیں‘ اگرچہ وہ ساری پیچیدگیاں یہیں چھوڑ گئے ہوں گے۔ آپ اگلے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
آج کا مقطع:
اس بار تو میں خود ہی ، ظفر ، ہو گیا ہوں ٹھیک
آرام مجھے اس کی دوا سے نہیں آیا