تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     02-02-2019

’’آدو ‘‘

قدیم سویت تاریخ میں ایغور پاشا کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ ایک لڑکا تھا ‘ جس کی انتہائی خوبصورت ماں طوائف تھی ۔ نسل در نسل اس خاندان کی عورتیں طوائف ہوا کرتی تھیں۔لڑکے کم سنی ہی میں اس بات کو سمجھ لیا کرتے اور تسلیم کر لیتے لیکن ایغور پاشا ان سے مختلف تھا۔وہ انتہائی خوبصورت لڑکا تھا ۔گو کہ وہ شرمیلا اور مزاجاً نفیس تھا لیکن ساتھ ہی غیرت مند بھی۔ایک دن اس نے ماں سے پوچھا کہ جب میں بازار جاتا ہوں تو لوگ مجھے طنزیہ نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں۔ اس کی ماں نے سمجھایا کہ ایک طوائف کا بیٹا ہونے کے ناطے اسے خود کو ان نگاہوں کا عادی کر لینا چاہئے۔ 
اس وقت وہ خاموش تو ہو گیا لیکن اس کا دل روتا رہا۔ اسے ایک روگ لگ گیا تھا۔ اس دن سے اس نے منہ ڈھانپنا شروع کر دیا۔ وہ لمبا تڑنگا تھا‘ سیاہ گھوڑے پر‘ سیاہ لباس میں ملبوس ہو کر جب وہ گلیوں میں نکلتا تو نگاہوں کا مرکز بن جاتا۔ اس کی شخصیت میں ایک سحر تھا۔ لوگ اس سے بات کرنا چاہتے لیکن وہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا۔ کوئی زیادہ اصرار کرتا تو وہ یہ زہر آلود الفاظ ادا کرتا ''میں ایک طوائف کا لڑکا ہوں۔۔۔ ‘‘۔ 
انہی دنوں وہ سخت بیمار ہوا۔ بخار کی حالت میں بستر پہ پڑا‘ وہ کئی دن روتا رہا۔ اس کی ماں سخت صدمے کے عالم میں تھی۔ اس نے ایغور پاشا سے کہا کہ میں یہ کام چھوڑ دیتی ہوں۔ ہم کہیں دورچلے جاتے ہیں۔ پاشا نے کہا: ہم غیر معمولی حسین لوگ کہاں چھپیں گے۔ ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے۔ ماضی پیچھا کرتا رہے گا۔ 
اب وہ ویرانوں میں پڑا رہتا۔ دنیا بھر کی نعمتیں میسر تھیں لیکن وہ دائمی صدمے کی کیفیت میں تھا۔ اسے عزت کی تلاش تھی اور یہ عزت کسی صورت اسے مل نہ سکتی تھی۔ یہی وہ دن تھے‘ جب ریاست الاگیر کے نواح میں ایڈم سے اس کی ملاقات ہوئی۔ ایڈم ریاست کے چند گنے چنے خداپرستوں میں سے تھا۔ وہ ایک بہت بڑا صاحبِ علم و فضل تھا۔ ایغور پاشا جب پوچھتا ہوا اس کے پاس پہنچا تو وہ دوپہر کے کھانے کے بعد قدرے غنودگی کی کیفیت میں تھا۔ اس نے سیاہ پوش پاشا کو دیکھا تو چونک کر اٹھ بیٹھا۔ پھر اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ پاشا نے کہا '' ایک طوائف کا بیٹا ہوں‘ عزت کی تلاش میں!‘‘ یہاں پہنچ کر اس کا صبر جواب دے گیا اور وہ خاموشی سے رونے لگا۔
ایڈم وہ پہلا شخص تھا‘ جس نے طوائف زادہ ہونے کے باوجود اسے تکریم کی نظر سے دیکھا۔ اس نے کہا: خدا تجھے عزت دے گا۔ پاشا نے پوچھا: کب؟ ایڈم نے کہا: جب سلیقے سے مانگے گا!
پاشا کو ڈھارس ہوئی۔ پہلی بار اسے امید نظر آئی اور وہ خدا سے عزت مانگنے کا سلیقہ سوچنے لگا۔ اسی ادھیڑ بن میں کئی ماہ گزر گئے۔ اسے کوئی طریقہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ وہ ہر وقت سوچ میں گم رہتا۔
یہی دن تھے‘ جب پارک میں بچّے والا واقعہ پیش آیا۔ ایک بہت چھوٹا سا بچّہ جھولے کے پاس کھڑا تھا‘ جو ابھی بولنا سیکھ ہی رہا تھا۔ اس نے اپنی ماں سے توتلی آواز میں کہا ''آدو ‘‘ اس کی ماں نے اٹھا کر اسے جھولے پر بٹھا دیا۔ کچھ دیر وہ سواری سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ پھر ا س نے کہا ''آدو‘‘ اس کی ماں نے اسے جھولے سے نیچے اتار دیا۔ ''آدو‘‘ اس نے ایک بار پھر کہا۔ اس کی ماں نے اسے گود میں اٹھایا اور گھر کی طرف چل پڑی۔ پاشا نے اس سے پوچھا کہ بچہ تو ایک ہی لفظ کہہ رہا ہے‘ ''آدو‘‘‘ ماں کو کیسے پتہ چلتاہے کہ وہ کیا مانگ رہا ہے۔ اس کی ماں نے کہا: میں نے اسے پیدا کیا ہے۔ بھلا مجھے نہیں پتہ کہ وہ کیا مانگ رہا ہے!
''آدو‘‘ اس بچّے کے لیے اسمِ اعظم تھا‘ جس میں اس کی ہر ضرورت پوری کرنے کا انتظام موجود تھا۔ 
پاشا گم صم کھڑا رہا۔ اس عورت کے الفاظ ا س کے کانوں میں گونج رہے تھے‘ بھلا جس نے پیدا کیا ہے‘ اسے نہیں پتہ کہ وہ کیا مانگ رہا ہے۔ اسے محسوس ہوا کہ خداکے سامنے کھڑا ہے۔ پہلی بار وہ خدا کی موجودگی محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے کہا ''اے خدا تجھے معلوم تو ہے کہ میں کیا مانگ رہا ہوں۔ پھر بھی تو سننا چاہتا ہے‘ میری زبان سے!
''آدو‘‘ ایغور پاشا نے کہا ''اے خدا آدو‘‘
''آدو‘ آدو‘ آدو‘ آدو‘ آدو‘‘ وہ زیرِ لب کہتا رہا‘ چلتا رہا۔ پھر اس کا حوصلہ بلند ہونے لگا۔ اس نے اونچی آواز میں کہا ''آدو‘ آدو‘ آدو‘‘ لوگ پلٹ کر اس کی طرف دیکھتے رہے۔ جس کسی نے سوال کیا‘ اس نے کہا: ایک طوائف کا بیٹا خدا سے عزت مانگ رہا ہے ۔وہ ہنستے رہے ‘ یہ مانگتا رہا۔
'' آدو‘ آدو‘ آدو‘ آدو‘ آدو!‘‘
اس نے اپنے منہ سے کپڑا نوچ پھینکا۔ جس خوف اور شرم نے اسے اپنا منہ چھپانے پر مجبور کر رکھا تھا‘ وہ تحلیل ہو رہی تھی۔ اس نے کہا: اے لوگو! میں ایک طوائف کا بیٹا ہوں۔ میں خدا سے عزت مانگ رہا ہوں‘‘ اس نے کہا ''خدا سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔ آدو ‘ آدو‘ آدو۔‘‘
لوگ کہتے ہیں کہ چالیس دن تک بازاروں اور محلوں میں وہ خدا سے عزت مانگتا رہا۔ اپنی سحر انگیز شخصیت اور جذبات میں رندھی ہوئی آواز کی وجہ سے وہ بہت مقبول ہو رہا تھا۔ لوگ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ خدا سے عزت مانگنے والے طوائف کے بیٹے کو بھلا کیا ملتا ہے۔
اب اس کی شخصیت میں ایک ٹھہرائو آرہا تھا۔ جب وہ واپس اپنے محلے پہنچا تو وہاں اس کی برادری اس کی منتظر تھی۔ اس کے کچھ رشتے دار اچانک ملنے والی اس شہرت کی وجہ سے اس سے حسد محسوس کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا: یا شیخ! سنا ہے آپ گیان حاصل کر کے لوٹے ہیں۔ دعا فرمائیے کہ خدا اس خشک سالی کو بارش سے بدل دے۔ وہ قہقہہ مار کے ہنسا۔ ''کیوں نہیں‘‘ ایغور پاشا نے نرمی سے کہا ''خدا بارش ضرور برسائے گا‘‘ پھر وہ اندر گیا ۔ اس نے اپنی ماں سے کہا کہ ہمیں فی الفور اس محلے سے نکل جانا ہے۔ جب وہ باہر نکلے تو بارش شروع ہو رہی تھی۔ 
ظاہر ہے کہ اس کی ماں کو گناہ کا یہ کاروبار چھوڑنا ہی تھا لیکن مخلوق بھلا کب کسی کا ماضی بھولتی ہے۔ ہاں البتہ جب بارش شروع ہوئی اور جب اس کی دعائیں قبول ہونا شروع ہوئیں تو پھر اپنی اپنی غرض میں انہوں نے اس کا ماضی بھی آسانی سے فراموش کر دیا۔
طوائف کا بیٹا بے قصور تھا۔ اس نے اپنی جائے پیدائش کا انتخاب خود نہیں کیا تھا۔ اس کی ماں بھی بے قصور تھی‘ اس نے بھی اپنے والدین کا انتخاب خود نہیں کیا تھا لیکن جب طوائف کے بیٹے نے عزت مانگی تو خدا نے ایک رستہ نکالا۔ اس کا تعلق خود سے جو ڑ کر‘ اس کی دعائوں کو قبولیت بخش کر اس نے اسے عزت عطا کی۔
ہم تو عزت دار گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟؟؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved