دودھ کے جلے چھاچھ کو بھی پُھونک پُھونک کر پیتے ہیں۔ دہشت گردی کے ستائے ، واشنگ مشین کے ٹائمر کو بھی بم یا بم کا حصہ سمجھ کر شدید خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہماری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی جب ہم نے ٹی وی پر ٹِکر دیکھا کہ فوج نے سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کارپوریشن کی تنصیبات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ماضی میں جب بھی فوج نے طالع آزمائی کی ہے، سب سے پہلے پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کو کنٹرول میں لیا ہے۔ لوگوں نے تو یہ بھی دیکھا کہ مین گیٹ کھلا ہونے پر بھی دیواریں کود کر عمارت کو کنٹرول میں لیا گیا! خیر، اس طرز عمل کے نفسیاتی اسباب و نتائج پر بحث پھر کبھی سہی۔ بات ہو رہی تھی کہ سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کو کنٹرول کرنے کی۔ جوانوں کو تعینات دیکھ کر ہم سہم سے گئے۔ طرح طرح کے وسوسوں نے مکھیوں اور مچھروں کی طرح ہمیں گھیر کر کاٹنا شروع کردیا۔ خیر گزری کہ چند ہی لمحات کے بعد ٹی وی اسکرین پر نمودار ہونے والے ایک اور ٹِکر نے ہماری تشویش اور اندیشوں کا گلا بروقت گھونٹ دیا۔ یہ دیکھ کر دِل کو سُکون ملا کہ سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کو اِس لیے کنٹرول میں لیا گیا ہے کہ وہاں بیلٹ پیپرز کی طباعت شروع ہو رہی ہے۔ مگر پھر خوشگوار حیرت بھی ہوئی۔ حیرت یوں کہ اب تک ہم یہی سمجھتے آئے تھے کہ سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کا کام صرف کرنسی نوٹ چھاپنا ہے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ اِس پریس کی مشینوں پر مُلک چلانے والے کاغذی ٹکڑوں کے علاوہ بھی کچھ چھپتا ہے۔ مینڈیٹ کے مطابق حال ہی میں میعاد پوری کرنے والی جمہوری حکومت پانچ برسوں کے دوران سیکیورٹی کا مسئلہ تو خیر حل نہ کرسکی مگر ہاں، سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کی سیکیورٹی اُس نے ٹائٹ رکھی تاکہ مشینیں کام کرتی رہیں اور معیشت چلتی رہے! منتخب حکومت کو پانچ برسوں میں اتحادیوں سمیت کچھ بھی آسان نہیں ملا۔ حالات نے قدم قدم پر محاذ کھولے۔ عوام کی خدمت پر مامور حکومت کو ملک کی بقاء اور سلامتی یقینی بنائے رکھنے کا مینڈیٹ ملا تھا۔ مگر جمہوریت کے نام پر یہ تماشا بھی قوم نے دیکھا کہ حکومت کا بیشتر وقت اپنی بقاء کا اہتمام کرنے پر صرف ہوا! یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ اِن پانچ برسوں میں سیکیورٹی کے ادارے زیادہ لڑے یا حکومت نے ایوان ہائے اقتدار کے مختلف مورچوں پر زیادہ ’’دادِ شجاعت‘‘ دی! جمہوریت کو بچانا ضروری، بلکہ لازم تھا۔ عوام کا کیا ہے، وہ تو ہر دور میں رہے ہیں اور رہیں گے! ویسے تو زمانے کا چلن یہ ہے کہ رات گزرتی ہے تو سُورج نکلنے پر آنکھ کھلتی ہے۔ جمہوریت میں کائنات کے اُصول پلٹ جاتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے ملنے والے مینڈیٹ کی شام ہونے کو آئی تو حکومت ہڑبڑاکر اُٹھ بیٹھی۔ معاملات کو تیزی سے سمیٹ کر پوٹلے باندھے گئے۔ تمام مسائل راتوں رات حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کوئی شعبہ رہ نہ جائے یعنی بچنے نہ پائے! کراچی میں ایک زمانے سے قتل و غارت کی آگ لگی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں اِس صورتِ حال پر کئی بار آواز بلند ہوئی مگر حکومت چوہدری شجاعت کی طرح ’’مِٹّی پاؤ‘‘ کے فارمولے پر عمل پیرا رہی۔ کراچی کے حالات درست کرنے کا معاملہ چند نمائشی اقدامات تک محدود رہا۔ بظاہر یہی یقینی بنایا جاتا رہا کہ کراچی کے شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو۔ کراچی کے معاملات کو اِس قدر نظر انداز کیا گیا کہ شہر بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔ کوئی ایک آدھ غلط بیان کی دِیا سلائی بھی پھینک دے تو شہر کے کئی علاقے بم کی طرح پھٹ پڑتے ہیں! شہر کئی شہروں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ نو گو ایریاز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ شہریوں کے ذہنوں پر چھائے ہوئے خوف کا یہ عالم ہے کہ کہیں واشنگ مشین کا ٹائمر بھی پڑا ملے تو بم کا گمان گزرتا ہے! میعاد ختم ہونے کو آئی تو حکومت کو اچانک بہت کچھ یاد آگیا۔ گویا جمہوری فلم کے دی اینڈ میں ہیروئن کی یادداشت واپس آگئی! زہے نصیب! یادداشت کی واپسی کے بعد حکومت نے سب سے پہلے کراچی کو پہچانا۔ برسوں پوری آزادی سے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم رکھنے والوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلانے کا عہد کیا گیا، چند نمائشی اقدامات بھی کئے گئے۔ مگر اِس کا نتیجہ کیا نکلنا تھا۔ وہی، ڈھاک کے تین پات۔ سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ شر پسندوں کو جس طرح للکارتے تھے اُسے ڈرانے سے زیادہ ہنسانے کی کوشش ہی کہا جاسکتا ہے! اگر اشعار خود بخود موزوں ہوں تو ’’آمد‘‘ کہلاتے ہیں۔ جب طبیعت شعر کہنے پر مائل نہ ہو تو شُعراء کو زور لگانا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں موزوں کئے جانے والے اشعار ’’آورد‘‘ قرار پاتے ہیں۔ اگر زیادہ عام فہم زبان استعمال کی جائے تو یہ بھرتی کے اشعار کہلائیں گے۔ منتخب حکومت کے پاس آمد کے شعر کہنے کی جو تھوڑی بہت صلاحیت تھی اُس کا معقول حصہ اپنی بقاء پر صرف اور اپنی ہی صفوں میں موجود بدنظروں کی نوحہ گری پر نچھاور ہوا۔ رہی سہی کسر مفاہمت کے فلسفے کی قصیدہ خوانی نے پوری کردی۔ حکومت جاتے جاتے مختلف اداروں، وزارتوں اور محکموں میں اندھا دھند بھرتی کے ذریعے اپنا دیوان بھرتی کے اشعار سے مکمل کرنے پر تُلی ہوئی دکھائی دی۔ ہنگامی، بلکہ جنگی بُنیاد پر سرکاری محکموں اور اداروں میں بھرتی کئے جانے والوں یا متعلقہ اداروں کا مستقبل کیا ہوگا، اِس کے بارے میں سوچنے کی زحمت کسی نے گوارا نہ کی! بے روزگاری ختم کرنا لاکھ مستحسن سہی، مگر اِس عمل کے نام پر اداروں کے وجود ہی کو اُلٹ پلٹ دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ بے چاری منتخب کا آدھا وقت تو اتحادیوں کو منانے اور بہلانے پُھسلانے میں صرف ہوا۔ حلیفوں کے ’’تحفظات‘‘ دور کرنے سے فُرصت ملتی تو عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا سوچا جاتا۔ تھوڑی سی فراغت نصیب ہوتی تھی تو وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا انتظام کرنے پر خرچ ہو جاتی تھی! جمہوریت کو نوٹ چھاپنے اور مال سمیٹنے کا ذریعہ سمجھنے والی حکومت کو بُھولنے کی بیماری لاحق تھی مگر دو معاملات میں اُس کا حافظہ خوب کام کرتا رہا… نوٹ چھاپنا اور بینکوں سے قرضے لینا۔ عوام پریشانی سے دوچار رہے۔ سیکیورٹی کا معاملہ بھلے ہی کھٹائی میں پڑا رہا مگر سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کو خوب کام پر لگایا جاتا رہا۔ پاسپورٹ چھاپنے والی مشینیں چھ چھ ماہ خراب رہیں اور قوم کے پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد کا مستقبل مِٹّی میں ملتا رہا مگر نوٹ چھاپنے کی مشینوں کا سانس پُھولا نہ خراب ہوئیں! حکومتی مشینری میں لے دے کر بس یہی وہ مشینیں ہیں جو ڈھنگ سے اپنا کام کرتی اور قوم کا کام اُتارتی آئی ہیں! یہ عمل کچھ اِس تواتر سے جاری رہا کہ State Bank بے چارا Estate Bank ہوکر رہ گیا! اب سیکیورٹی پرنٹنگ پریس میں بیلٹ پیپر چھپ رہے ہیں تو قوم حیران ہے۔ مگر قوم سے زیادہ حیرت تو شاید مشینوں کو ہوگی کیونکہ اُنہیں تو صرف کرنسی نوٹ چھاپنا یاد رہ گیا تھا! اللہ کرے کہ جو بیلٹ پیپر چھاپے جا رہے ہیں اُن کی بدولت ایسی حکومت قائم ہو جو سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کو دوبارہ صرف کرنسی نوٹ چھاپنے کے دھندے پر ہی نہ لگائے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved