تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-02-2019

…بڑا کام رفو کا نکلا

ابھی ابھی سیدھا ہسپتال سے آ رہا ہوں۔ اس کی شانِ نزول ٹخنے کے قریب آنے والا زخم تھا۔ بس کموڈ پر بیٹھتے وقت رگڑ سی آ گئی تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ جس سے دبوا رہا تھا‘ اسے معلوم نہیں تھا؛ چنانچہ اس نے ایک مروڑا سا دیا اور اوپر جو جھلی سی آ چکی تھی‘ وہ ایک طرف اکٹھی ہو گئی اور ماس نظر آنے لگا۔ پائیوڈین نہیں تھا‘ اس لیے اس پر سنی پلاس چپکا دیا گیا‘ لیکن دو تین دن کے بعد درد محسوس ہونے لگا۔ سنی پلاس اتارا تو باقاعدہ زخم بن چکا تھا؛ چنانچہ اس پر پائیوڈین منگوا کر لگاتا رہا؛ حتیٰ کہ اس پر ایک چھوٹا سا چھالہ بھی نمودار ہو گیا۔ تب میرا ماتھا ٹھنکا کہ بات تو بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر طیب عباس سے وقت لیا‘ انہوں نے کہا کہ صبح دس بجے سے پہلے پہلے جناح ہسپتال آ جائیں‘ کیونکہ ویک اینڈ ہے اور انہوں نے کہیں جانا ہے۔ ان کی مسیحا نفسی کا تو میں قائل تھا ہی‘ سو ہلکی سی گڑ بڑ بھی کہیں ہو تو اُنہی سے رجوع کرتا ہوں۔
وہاں ہم بروقت ہی پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ سے ملاقات کا کوئی نہ کوئی بہانہ بن ہی جایا کرتا ہے۔ انہوں نے زخم کو دیکھتے ہی کہا کہ آپ تو اسے خراب کر کے لے آئے ہیں‘ تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ میری حماقت‘ لاپروائی اور بدپرہیزیوں کا مرہونِ منت ہے اور زخم کا خراب ہونے کی وجہ میرا ڈائیا بیٹک ہونا بھی تھا۔ میں شوگر پاس نہیں کرتا‘ لیکن کوئی دس بارہ برس پہلے بائی پاس کروایا تو اس دوران بلڈ شوگر ڈیویلپ ہو گئی۔ تب سے میں اس کی گولی استعمال کرتا ہوں اور یہ کنٹرولڈ رہتی ہے کہ میٹھی چیزوں سے پرہیز کرتا ہوں‘ لیکن شامتِ اعمال‘ کوئی ایک ماہ پہلے‘ سردیاں شروع ہونے پر میں شہد کا ایک چمچ نیم گرم آدھے گلاس پانی میں ملا کر نہار مُنہ لیتا رہا۔ اب جا کر پتا چلا ہے کہ ایک چمچ شہد کا مطلب چار چمچ چینی ہے‘ جبکہ نہار مُنہ اس کے استعمال سے یہ زیادہ شوگر پیدا کرتا ہے۔
اسی پر بس نہیں‘ میرا معمول تھا کہ نہار منہ شہد اور واک وغیرہ کے بعد فروٹ چاٹ لیا کرتا‘ جس میں سیب‘ انگور‘ کیلا اور امرود ہوا کرتے ہیں؛ چنانچہ یہ ایک طرح کا دوآتشہ ہو گیا۔ اس پر طرہّ یہ کہ شوگر کی گولی بھی تین دن سے نہیں لے رہا تھا‘ کیونکہ جو صاحب میرے لیے مہینے بھر کی دوائیں لایا کرتے ہیں‘ ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور یہ تین دن کا ناغہ اس لیے بھی ہو گیا۔ اس کے علاوہ وہ میرا چینی کا اِن ٹیک بالکل معمولی ہے کہ سہ پہر کو کافی کا ایک کپ پیتا ہوں‘ دیسی شکر ڈال کرکہ اس میں چینی کی نسبت مٹھاس کم ہوتی ہے؛ البتہ کبھی کبھار ایک آدھ ڈلی برفی کی ضرور چکھ لیتا ہوں‘ جو یہاں کا خاص تحفہ ہے کہ دیہاتی علاقہ ہونے کی وجہ سے خالص دودھ بالعموم دستیاب ہے۔ اس لیے برفی صحیح معنوں میں برفی ہوتی ہے اور‘ یہ تحفہ حسبِ توفیق آگے بھی چلایا جاتا ہے۔
ایک اور بدپرہیزی‘ یعنی گرمیوں میں ایک آم روزانہ‘ شریفانہ سائز کا۔ حکیم الامت والا نہیں‘ جنہیں ایک آم روزانہ کھانے کی اجازت تھی۔ ڈاکٹر معمول کے چیک اپ کے لیے آیا تو دیکھا کہ علامہ صاحب کوئی کلو بھر کا آم سامنے رکھے کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں! اور‘ سب سے بڑی نالائقی‘ میری‘ علامہ صاحب کی نہیںکہ اصولی طور پر مجھے باقاعدگی سے شوگر چیک کرواتے رہنا چاہیے تھا‘ لیکن ایک عرصے سے وہ بھی چھوٹی ہوئی تھی؛ حالانکہ میں جانتا تھا کہ ذیابیطس اُم الامراض ہے‘ بلکہ اور کئی بیماریوں کا باعث بھی بنتی ہے اور اُن میں اضافہ بھی پیدا کرتی ہے۔ اصولی طور پر مجھے آج ہسپتال ہی میں شوگر چیک کرواتے آنا چاہیے تھا‘ لیکن ایک بڑی فروگذاشت یہ بھی تھی۔
کچھ عرصہ میں سکرول وغیرہ (نقلی چینی) بھی استعمال کرتا رہا ہوں‘ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ یہ چینی سے بھی زیادہ نقصان رساں ہوتی ہے‘ تو وہ بھی چھوڑ دی اور دیسی شکر پر آ گیا۔ ہاں‘ ایک اور بدپرہیزی تو رہ ہی گئی اور وہ یہ کہ میں ساری گرمیاں سکنجبین کا ایک گلاس بھی سہ پہر کو روزانہ پیتا رہا ہوں اور وہ بھی باقاعدہ چینی ڈال کر۔ کچھ دوستوں نے شوگر چیک کرنے کا آلہ بھی خرید رکھنے کا مشورہ دیا‘ لیکن میں سمجھتا تھا کہ میں کوئی ذیابیطس کا مریض تھوڑی ہوں‘ ویسے ہی احتیاط کر لینا کافی ہے اور احتیاط کی صورتِ حال کا اندازہ آپ کو ہو ہی گیا ہوگا۔
ذیابیطس اور بلڈ پریشر ہمارا فیملی مرض ہے؛ حتیٰ کہ میرے مرحوم والدین کے علاوہ سارے بہن بھائی بھی‘ لیکن حیرت انگیز طور پر میں ان سے بچا ہوا ہوں۔ شوگر کی صورت حال اوپر بیان کر چکا ہوں‘ بلڈ پریشر میرا وہ ہے جو ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کا ہوتا ہے۔ بیماریِ دل کی وجہ بھی یہ رہی کہ شروع ہی سے دو اُبلے ہوئے انڈے میرے ناشتے میں شامل ہوا کرتے تھے۔ منو بھائی نے ایک بار لکھا تھا کہ ظفرؔ اقبال کو پہلا ہارٹ اٹیک اُس دن ہوا تھا جب اس نے پہلا شعر کہا تھا۔
اور‘ اب آخر میں حسبِ معمول اس ہفتے کی تازہ غزل:
کبھی زندگی میں نہ کچھ ملا‘ تو ملے گا کیا اُنہیں مر کے بھی
جو تری نظر میں نہ آ سکے ترے سامنے سے گزر کے بھی
تُو اسی سے کھوج لگا سکے گا ہماری صورت حال کا
جو زمیں پہ پاؤں نہ دھر سکے ترے آسماں سے اُتر کے بھی
کوئی کام ہی وہ عجیب تھا کہ کبھی سمجھ میں نہ آ سکا
مگر آج بیٹھے ہیں مطمئن جو کیا نہیں اُسے کر کے بھی
کوئی روشنی جو سیاہ تھی‘ کوئی تیرگی جو سفید تر
ہمیں دیکھیے کہ جو کھا چکے ہیں فریب‘ شام و سحر کے بھی
وہ مہک نصیب نہ ہو سکی‘ وہ ہوا جو آئی نہ پھر کبھی
کہ جو کہنے کو تو ہم آس پاس رہے دریچہ و در کے بھی
کوئی باریاب رہے تو کیا‘ کوئی دل کی بات کہے تو کیا
جو نظر کے ساتھ ہی ساتھ ہوں وہ مقام صرفِ نظر کے بھی
شب و روز گھر میں پڑے رہیں‘ کوئی برگِ خشک جھڑے رہیں
کہیں لے کے تو ہمیں جائیں گے یہ جو سلسلے ہیں سفر کے بھی
ظفرؔ‘ ایک امر محال تھا‘ وہ کمال میں بھی زوال تھا
وہ جو دونوں یار تھے اپنے ہم گئے شام سے بھی شجر سے بھی
آج کا مطلع
پتا نہیں کہ یہ کتنا‘ کہاں سے ہٹ کر ہے
مری زمین ترے آسماں سے ہٹ کر ہے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved