سبھی کو کچھ نیا چاہیے۔ کتنا نیا؟ بالکل نیا۔ پیٹی پیک یا ڈبا بند! بازار میں پُرانا نہیں چلتا۔ ایک ہاتھ بھی لگ جائے تو چیز ''سیکنڈ ہینڈ‘‘ ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے پنپنے والی ذہنیت‘ کسی نہ کسی درجے میں‘ ہم سب میں پائی جاتی ہے۔ پُرانے کے نام پر منہ بسورنا ہم سبھی کے مزاج یا فطرت کا حصہ ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ ہم نئے کے چکر میں پُرانے کو حقارت یا ناپسندیدگی کی نظر سے کیوں دیکھتے ہیں؟ کیا لازم ہے کہ جو کچھ بھی نیا ہے وہ کام کا بھی ہو؟ کیا پُرانی چیزیں محض چمک دمک سے محروم ہوتی ہیں یا افادیت بھی کھو بیٹھتی ہیں؟ مشاہدہ اور تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ ہر نئی چیز لازمی طور پر کام کی نہیں ہوتی اور ہر پُرانی چیز ناگزیر طور پر بے مصرف نہیں رہتی۔
ہمیں چمک دمک اچھی لگتی ہے۔ یہ عادت اب ہمارے مزاج کا حصہ ہوکر رہ گئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ملکیت میں پائی جانے والی بیشتر اشیاء کام کی ہوں یا نہ ہوں‘ خوش نُما ضرور دکھائی دیں۔ خرابی کی جڑ ہمارے مزاج کے اسی رجحان میں پنہاں ہے۔ ہم نیا تو چاہتے ہیں‘ کام کا نہیں چاہتے۔
اس حقیقت پر بھی تو غور کیا جانا چاہیے کہ دنیا میں نیا کچھ بھی نہیں ہے۔ جو بھی کچھ پہلے سے موجود ہے اُسی کو نئی شکل دے کر نئے انداز سے متعارف کرایا جاتا ہے‘ بس۔ سارا ہنر صرف اس نکتے میں مضمر ہے کہ کسی بھی پُرانی چیز کو نیا بناکر کس طور پیش کیا جاتا ہے۔ اقبالؔ نے اِسی حقیقت کی طرف یوں اشارا کیا ہے ع
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
ہمیں دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ تغیّر کی بدولت ہے۔ تغیّر کے بغیر جدت ممکن نہیں۔ اور جدت نہ ہو تو تغیّر کس کام کا؟ یعنی تغیّر اور جدت ایک دوسرے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ تغیّر کا مزا صرف اُس وقت ہے جب اِنسان کچھ سیکھنے پر مائل ہو اور جو کچھ سیکھے اُسے بروئے کار لانے کا ذہن بھی رکھتا ہو۔
یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ اِس دنیا میں حقیقی معنوں میں نیا کچھ بھی نہیں۔ ہر طرف پُرانے ہی کو نیا کرکے یش کرنے کی مساعی جاری ہیں۔ جو کسی بھی چیز کو نئے انداز سے پیش کرنے کا جتنا ماہر ہے وہ اُتنا ہی کامیاب ہے۔ ہر شعبے کا یہی معاملہ ہے۔ لکھنے ہی کو لیجیے۔ کچھ نیا کیا لکھا جاسکتا ہے؟ اِس دنیا میں کون سی ایسی بات ہے جو پہلے بیان نہیں ہوئی؟ ہر کہانی کسی نہ کسی شکل میں پہلے بھی بیان ہو ہی چکی ہے۔ لکھنے والے پُرانی کہانیوں اور نکات کو نئے رنگ میں پیش کر رہے ہوتے ہیں اور یہی نیا انداز اُن کی کامیابی کا راز ہے۔ کسی بھی پُرانی چیز کو نئے انداز سے پیش کرنے کے حوالے سے جو جس قدر نُدرت پسندی کا مظاہرہ کرسکتا ہے وہ اُسی قدر کامیابی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں کوئی نئی بات کیسے پیدا کی جائے۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر ایک سوال یہ ہے کہ کوئی بھی شخص باقی دنیا سے لاتعلق رہ کر اپنے آپ کو کسی بھی نئے کام کے لیے کیسے تیار کرسکتا ہے۔ ہم کوئی بھی نیا کام اُسی وقت کرسکتے ہیں جب ہمیں اچھی طرح معلوم ہو کہ اب تک کیا ہوچکا ہے اور اُس سے ہٹ کر کچھ کرنا کس طور ممکن ہے۔ کسی کے فن کو جوں کا توں اٹھاکر اپنے نام سے پیش کرنا نقل کہلاتا ہے۔ ہاں‘ کسی کی محنت سے اکتساب کرنے میں کوئی قباحت نہیں ... بہ شرطِ کہ ایسا کرنے میں نقّالی کا احتمال نہ ہو۔ جو لوگ کسی کی لیاقت اور محنت سے اکتساب کرتے ہیں وہ دراصل اپنے لیے الگ راہ نکال رہے ہوتے ہیں۔ بہت سی فلموں کو دیکھ کر انداز ہوتا ہے کہ کسی ایک یا چند فلموں کو دیکھ کر کچھ سوچا گیا ہے اور بات کو نئے انداز سے اور تھوڑی آگے بڑھاکر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِس طور کام کرنے کی صورت میں نقّالی کا الزام عائد نہیں کیا جاتا۔ مگر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ اکتساب کی صورت میں انسان کسی کے فن سے محض تحریک لیتا ہے اور چند ایک معاملات میں اصل سے کچھ لے کر اپنی چیز تیار کرتا ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ حوالہ بھی دیا جائے۔ تحریک لینے کے نام پر کسی کے فن پارے کا بڑا حصہ اپنے نام سے پیش کرنا کسی بھی اعتبار سے فن کی خدمت نہیں اور نہ ہی اِسے جِدّت و نُدرت قرار دیا جاسکتا ہے۔ کسی کے فن سے اکتساب کرتے ہوئے جِدّت و نُدرت کی گنجائش پیدا کرنا بجائے خود ایک فن ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بنیادی خیال جس کے فن پارے سے لیا گیا ہو وہ بھی مستفید ہونے والے کی نُدرتِ خیال کی داد دیئے بغیر نہیں رہتا۔
علم و فن کی دنیا میں وقعت اُن کی ہے جو دوسروں کے فن سے مستفید ہونے کا فن جانتے ہیں۔ دنیا بھر میں جدت اور نُدرت کا بازار اگر گرم ہے تو اُنہی لوگوں کے دم سے جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کب کس چیز سے مستفید ہوتے ہوئے کوئی نئی بات کہنی ہے‘ کسی بھی چیز کو نئے انداز سے پیش کرنا ہے۔ ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں اُس میں وہ سب کچھ ایجاد کیا جاچکا ہے جو ایجاد کیا جانا تھا۔ اب ایجاد کچھ نہیں ہو رہا‘ صرف نُدرت کی پتنگ اُڑ رہی ہے۔ ہر معاملے کو زیادہ سے زیادہ جِدّت سے ہم کنار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے نُدرت پسندی سب سے مستحکم مثبت رجحان ہے۔
کسی بھی شعبے میں حقیقی نُدرت پسندی کا مظاہرہ اُسی وقت کیا جاسکتا ہے جب ایسا کرنے کا پختہ ارادہ کیا جائے اور پھر پوری تیاری کے ساتھ اپنا کام کیا جائے۔ کسی بھی بات یا چیز میں نیا پن لانے کے لیے متعلقہ شعبے کی عمومی پیش رفت پر نظر رکھنا لازم ہے۔ جب انسان اپنے شعبے میں ہونے والے کام کا جائزہ لیتا ہے تب اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ عمومی رجحان کیا چل رہا ہے‘ لوگ کیا پسند کرتے ہیں‘ مزید کیا دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ کہ جو کچھ بھی نیا کیا جانا ہے اُس کی عملی شکل کیا ہوگی۔ کچھ نیا کرنے کے لیے جو نئی سوچ درکار ہوتی ہے وہ اُسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب آپ اپنے شعبے کو اچھی طرح جانتے ہوں‘ نُدرت کا اندازہ ہو‘ لوگوں کی پسند و ناپسند پر نظر ہو‘ لاگت بھی ذہن میں ہو‘ منافع کی گنجائش بھی اچھی طرح معلوم ہو۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ نقل کرنے والے بیشتر معاملات میں پس ماندہ ذہنیت کے حامل ثابت ہوتے ہیں۔ کامیابی اُسے ملتی ہے جو دستیاب معلومات اور حقائق کی بنیاد پر نیا سوچنے کی اہلیت رکھتا ہو اور پھر اپنی سوچ کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے میں تاخیر و تساہل سے کام نہ لے۔ نقل کرنے والے محض نقاّل کہلاتے ہیں۔ پورے خلوص کے ساتھ دوسروں کے کام کا جائزہ لے کر کچھ نیا کرنے کی تحریک پانے والوں ہی کو بھرپور کامیابی ملتی ہے۔ اُنہیں سراہا بھی جاتا ہے اور نوازنے میں بھی بُخل کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کسی بھی شعبے میں حقیقی نُدرت پسندی کا مظاہرہ اُسی وقت کیا جاسکتا ہے جب ایسا کرنے کا پختہ ارادہ کیا جائے اور پھر پوری تیاری کے ساتھ اپنا کام کیا جائے۔ کسی بھی بات یا چیز میں نیا پن لانے کے لیے متعلقہ شعبے کی عمومی پیش رفت پر نظر رکھنا لازم ہے۔