آخر وہی ہوا جس کی سال بھر سے آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ ہر طرف سے کہا جا رہا تھا کہ یہ ’’ حضرات‘‘ تحریک انصاف کے لیے ٹروجن ہارسز ثابت ہوں گے۔ آج سب نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ ملک میںحقیقی تبدیلی کے خواہشمندوںکو، ملک میں انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے خواب دیکھنے والوں کو اور ان خوابوں کو عملی تعبیر دینے کی جدو جہد کرنے والے پرجوش نوجوانوں کو ’’ٹروجن ہارسز‘‘ نے پہلے ہی مر حلے میں شکست سے دو چار کر دیا ہے۔ راولپنڈی سے گوجرانوالہ اور پورے جنوبی پنجاب میں ٹکٹوں کی غیر دانشمندانہ تقسیم نے تحریک انصاف کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ لگتا ہے کہ اب یہاں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں ہی ہوگا۔ تحریک انصاف کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اس ملک کے لاکھوں نوجوانوں کی امیدوں کو خاک میں ملانے والوں میں صرف شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری اور جاوید ہاشمی ہی نہیں بلکہ کچھ پردہ نشین بھی ان کے شریک کار ہیں۔ مجھے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ صاحبانِ اقتدار کی دھمکیاں اور تھپکیاں مجھے نہ کل اپنے راستے سے ہٹا سکیں نہ کل میرے راستے کی رکاوٹ بن سکیں گی‘ میں کسی چیز کا خواہش مند نہیں‘ میں پورے پاکستان میں خوش گوار تبدیلی کا خواہاں ہوں۔ جو کچھ میں نے دیکھا ہے اسے سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ دوست کی غلطیوں کی نشاندہی نہ کرنا دوستی نہیں بلکہ منافقت ہوتی ہے۔ مجھے لاکھوں نوجوانوں کے ارمانوں کا خون ہوتے دیکھ کر چپ رہنا گوارہ نہیں۔ میرا اﷲ جانتا ہے کہ عمران خان کی حمایت کرنے پر میں نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ خداگو اہ ہے نوجوانوں کو کند چھری سے ذبح کرنے والوں کے لیے میرے دل میں کوئی جگہ نہیں۔ ایک سینئر کالم نگار نے فلم مولا جٹ کا یہ مشہور ڈائیلاگ بجا طور پر نقل کیا تھا کہ ’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مرسکدا‘‘۔۔۔۔۔ عمران خان کو اب عمران خان ہی مار سکتا ہے کسی اور کے ہاتھ سے عمران خان نہیں مر سکتا۔ کیا تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کو رشید بھٹی تیس اکتوبر کے لاہور کے پہلے جلسے میں نظر نہیں آیا تھا؟اگر وہ غلط تھا تو پھر لاہور کی تحریک انصاف نے بھاری ووٹوں سے اسے اپنا سیکرٹری جنرل کیوں چنا؟ اگر رشید بھٹی پارلیمانی بورڈ کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لاہور کی تحریک انصاف دیانت دار نہیں ہے۔ یہ اس قابل نہیں کہ اسے ٹکٹ دیا جائے۔ اب بھی وقت ہے کہ رشید بھٹی کو عزت و احترام سے یا تو واپس لایا جائے یا تحریک انصاف کے لاہور کے الیکشن کالعدم قرار دے کر ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے رشید بھٹی کو تحریک انصاف میں شامل کرایا اور انہیں اپنا سیکرٹری جنرل بھی منتخب کیا۔ تحریک انصاف کے تھنک ٹینک اگر میانوالی سے انعام اللہ نیازی کو ٹکٹ نہیں دے سکتے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ لاہور سے انہیں ٹکٹ دیتے کیونکہ یہاں ان کے لیے بہت جگہ تھی۔ انہیں اگر لاہور سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ پورے لاہور میں جوش و جذبہ ابھرتا لیکن ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی سکندر بوسن کو اپنے ساتھ لے کر آئے اور سکندر بوسن ملتان میں تحریک انصاف کو کانٹوں پر گھسیٹتا رہا۔ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی آنکھیں بند کر کے تماشا دیکھتے رہے اور بوسن اپنا کام دکھا کر نون لیگ میں واپس چلے گئے۔ اور توا ور جاوید ہاشمی کے ساتھ اپنی صوبائی نشست سے مستعفی ہونے والے شاہ محمود خان کے ساتھ ان دونوں نے جو سلوک کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان ٹروجن ہارسز نے ملتان شہر عمران خان سے اس طرح چھینا ہے جیسے رہزن راہ چلتے لوگوں سے موبائل فون چھینتے ہیں۔ جاوید ہاشمی بھول گئے کہ ان کا اصل شکار جنرل مشرف نہیں بلکہ نواز شریف تھے لیکن انہوں نے لاہور میں ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے اسلام آباد کی نشست کو ترجیح دے کر بہت سے لوگوں کاحق مارنا مناسب سمجھا۔ اعجاز چوہدری کو اپنے ساتھ شامل کر کے جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کاجو صفایا کیا گیا ہے اس کی کہانیاں سرائیکی خطے کے ہر گھر اور ہر چوک میں سنائی دے رہی ہیں۔ بہاولپور میں اصلی تحریک انصاف کے ساتھ جو سلوک نقلی تحریک انصاف کے ہاتھوںکرایا گیا وہ گنیز بک آف ورلڈریکارڈ میں درج کیا جانے والا لا جواب کارنامہ ہے۔ کیا بہاولپور کی صوبائی نشست پی پی 271 کے لیے سید معید بخاری جیسے لوگوں کی قربانیاں کسی سے کم ہیں؟ لاہور میں قومی اسمبلی کی چار نشستوں کے لیے جاری کی گئی ٹکٹیں جس تکنیک سے ٹروجن ہارسز نے نواز لیگ کی جھولی میں ڈال دی ہیں اس کا دکھ جاننا ہو تو مینار پاکستان کے سائے تلے کئی کئی گھنٹے فلک شگاف نعرے لگانے والے نو جوانوں سے پوچھ لیں۔ وہ اپنی بے بسی اور اپنی امیدوں کے قتل پر نوحہ کناں ہیں۔ آج بھی اگر لاہور کی یہ چار نشستیں عوامی مقبولیت رکھنے والے کارکنوں کو واپس کر دی جائیں تو لاہور کی صورت حال قصور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور ننکانہ تک کو تبدیل کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم جس بدتدبیری سے کی گئی اُس پر نوجوان رو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قافلہ ایک بار پھر لٹنے کو ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں کئی بار بیرون ملک جانے کا اتفاق ہوا‘ سمندر پار پاکستانی عمران خان کو آخری امید سمجھتے تھے۔ ان کا پاکستان کے لیے درد بالکل اُس طرح تھا جیسے ایک ماں کا اپنے بیمار بچے کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن اب ان کی امیدوں کے چراغ بھی گل کیے جائیں گے۔ سردار آصف احمد علی اور خور شید محمود قصوری ایک ساتھ تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ سردار آصف نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو کر شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے اسمبلی کی تحلیل تک حاصل ہونے والی پچاس لاکھ کے قریب مراعات کو تحریک انصاف پر قربان کیا۔ کیا عمران خان اور ان کی جماعت کے لوگ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ یہ دونوں حضرات ایک ہی نشست سے الیکشن میں حصہ لیں گے؟ یقینا بے خبر نہیں تھے۔ پھر جماعت کی قیا دت یا اس کے تھنک ٹینک نے ان دونوں کو ایک جگہ بٹھا کر یہ فیصلہ کیوں نہ کرایا کہ یہ دونوں قصور کے قومی اسمبلی کے دو حلقوں 139-140 پر مل کر انتخاب میں حصہ لیں۔ اگر سردار آصف یا خورشید قصوری کو ایک سال قبل ان کا ایک ایک حلقہ مقرر کر دیا جاتا جس میں وہ اپنی مر ضی کے صوبائی امیدوار مقرر کرتے تو یہ دونوں نشستیں تحریک انصاف کی جھولی میں تھیں لیکن ایسا نہ کیا گیا کیونکہ ’’ ٹروجن ہارسز‘‘ کا منصوبہ کچھ اور تھا وہ نوجوانوں کی اس جماعت سے مخلص ہی نہیں تھے۔ کیاقریشی اور ہاشمی اس ملک کے کروڑوں نوجوانوں کو بتانا پسند فرمائیں گے کہ انہوں نے ایک سال میں جنوبی پنجاب میں کیا کام کیا۔ بھکر سے لے کر رحیم یار خان تک پارٹی کے لیے ان کی کیا کارکر دگی ہے؟ لگتا ہے کہ ٹروجن ہارسز کی وجہ سے قافلہ ایک بار پھر لٹنے جا رہا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved