یہ بات 1930ء کے عشرے میں امریکہ میں سَر اٹھانے والی تاریخی کساد بازاری کے دوران کی ہے۔ اِسے معاشی تاریخ میں The Great Depression کہا جاتا ہے۔ امریکی ریاست اوکلاہوما کے ایک کھیت میں ایک خاندان گایوں اور بکریوں کا دودھ دوہ کر گاہکوں کو فراہم کرنے پر مامور تھا۔ ہر اعتبار سے کسمپرسی کے دن تھے۔ پورا ملک شدید مندی کی لپیٹ میں تھا۔ عمومی کیفیت یہ تھی کہ حوصلے شکستہ تھے اور قویٰ مضمحل ہوچلے تھے۔ ایسے گئے گزرے ماحول میں بھی کچھ لوگ تھے جنہوں نے طے کر رکھا تھا کہ کسی بھی حال میں ہمت نہیں ہارنی ہے اور اپنے حصے کا کام بڑھ چڑھ کر کرتے رہنا ہے۔
سیم والٹن کا بھی یہی قصہ ہے۔ اوکلاہوما کے کھیت میں کام کرنے کے دوران ان کے خاندان نے خود کو زندہ رکھا اور تابناک مستقبل کے لیے خود کو تیار کرتا رہا۔ سیم والٹن نے اِسی پُرامید اور حوصلہ افزا ماحول میں پرورش اور تربیت پائی۔ 26 سال کی عمر میں انہوں نے یونیورسٹی آف مسوری سے اقتصادیات میں بی اے کی سند حاصل کی۔ انہوں نے فوج کے لیے خدمات انجام دینے کے عوض 5 ہزار ڈالر پائے۔ اپنے سُسر سے 20 ہزار ڈالر لیے اور آرکنساس میں بین فرینکلن ورائٹی سٹور خریدا۔ سیم والٹن نے دن رات ایک کرکے اپنے سٹور کو غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار کیا اور پھر یہ ہوا کہ اُن کے سٹور کی شاخیں کھلتی چلی گئیں۔ یہ وہی سیم والٹن ہیں جنہوں نے امریکہ میں وال مارٹ کی بنیاد رکھی۔ اور یوں سپر سٹورز کا ایک پورا سلسلہ معرضِ وجود میں آیا۔ سیم والٹن کا انتقال 1992ء میں ہوا۔ وہ اربوں ڈالر کی پراپرٹی اپنی بیوی اور اولاد کے نام چھوڑ گئے۔
یہ کہانی بہت انوکھی لگتی ہے مگر امریکہ جیسے ملک میں کچھ بھی انوکھا نہیں۔ وہاں چونکہ ایک سسٹم موجود ہے اس لیے محنت کرنے والے کو اُس کی محنت کا پورا صِلہ مل پاتا ہے۔ کاپی رائٹ اور پیٹنٹ کا قانون موجود ہے اس لیے جو محنت کرتا ہے وہ اس یقین کے ساتھ مطمئن رہتا ہے کہ اُس کی محنت پر کوئی اور ڈاکا نہیں ڈال سکے گا اور جو کچھ بھی ملنا ہوگا وہ اُسی کو ملے گا۔ لکھنے والے جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں اُس کا صِلہ اُنہی کے بینک اکاؤنٹ میں آئے گا۔ سیم والٹن جیسے ہزاروں افراد نے دن رات محنت کے ذریعے جو شاندار کاروباری سلطنت قائم کی وہ اُن کی محنت کے بھرپور صِلے کے طور پر یوں جلوہ گر ہوئی کہ دنیا نے دیکھا اور مزید کام کرنے کی تحریک پائی۔
ترقی یافتہ معاشروں میں محنت کا پورا صِلہ مل کر رہتا ہے۔ لوگ سسٹم میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں اور اپنا مستقبل تابناک بنانے کے حوالے سے کی جانے والی محنت کا ثمر پاتے ہیں۔ خیر‘ معاملہ محض سسٹم پر موقوف نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ غیر ترقی یافتہ معاشروں میں بنیادی اصول تبدیل ہو جاتے ہیں۔ غیر منظم اور غیر ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ملتا اُنہی کو ہے جو منظم سوچ کے تحت متحرک ہوتے ہیں اور منصوبے تیار کرکے اُن پر عمل کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں بھرپور کامیابی اُنہی کے حصے میں آتی ہے جو حالات کو سمجھنے کے بعد سوچتے ہیں‘ خود کو عمل کے لیے تیار کرتے ہیں اور بھرپور محنت کے ذریعے اپنے حالات بدلنے کی مخلصانہ کوشش کرتے ہیں۔
امریکہ کی عظیم کساد بازاری سے اب تک دنیا کئی بار شدید معاشی بحرانوں سے گزری ہے اور کسی نہ کسی طور کاروبارِ ہستی چلتا ہی رہا ہے۔ جو لوگ اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا کے حالات پر بھی نظر رکھتے ہیں‘ پڑھتے رہتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے انسان کو کسی بھی وقت کسی بھی مرحلے سے گزرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ روئے زمین پر ہر اعتبار سے حتمی نوعیت کا تو کچھ بھی نہیں ہوا کرتا۔ دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ حالات کی تبدیلی سے انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح کے معاملات بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ کہیں کوئی مٹتا ہے تو کہیں اور کسی کے سنورنے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ بات عجیب سی لگتی ہے مگر خیر‘ اِس دنیا میں کیا ہے جو عجیب نہیں؟ دنیا کا نظام اسی طور چلتا ہے۔
آج پاکستانی معاشرہ شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ معیشت مشکلات سے دوچار ہے۔ انفرادی اور اجتماعی‘ ہر سطح پر شدید فکری انتشار ہمارا مقدر ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ رات دن تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ گزشتہ جولائی کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت نے چند ایک ایسے اقدامات کیے ہیں جو مشکلات کا باعث بنے ہیں۔ مگر خیر‘ ایسا تو ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ جب بھی معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو تھوڑا بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہی ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کی ہر کوشش تھوڑا بہت بگاڑ پیدا کرکے لوگوں کو پریشان کرتی ہی ہے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہو رہا ہے تو زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام معاملات میں ایک constant ضرور موجود رہے! ایسا ممکن نہیں۔ پوری کائنات میں صرف ایک بات constant ہے ‘ یہ کہ constant کچھ بھی نہیں!
کبھی کبھی کسی معاملے کے چند پہلو بدلتے ہیں اور کبھی پورا معاملہ ہی بدل جاتا ہے۔ تخریب و تعمیر کا عمل ہر دم جاری رہتا ہے۔ معاملہ علم کا ہو یا فن کا‘ معیشت کا ہو یا معاشرت کا‘ سیاست کا ہو یا سفارت کا‘ کھیلوں کا ہو یا تفریح کا ‘ کہیں بھی‘ کچھ بھی ایسا نہیں جو رکا ہوا ہو‘ تھما ہوا ہو۔ تبدیلیاں ریلے کی شکل میں بہتی چلی آتی ہیں اور اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جاتی ہیں۔ ہمیں اِس پورے ماحول میں اور اِس ماحول کے پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے زندہ رہنا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں تبدیلیوں کا بازار گرم ہے۔ ہر معاشرہ مختلف حوالوں سے تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ ایسے میں ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کے لیے خرابیاں زیادہ ہیں۔ کوئی بھی معاشی خرابی غیر منظم معاشرے کے لیے زیادہ شِدّت لیے ہوئے ہوتی ہے کیونکہ ایسے معاشرے میں خرابیوں کے منفی اثرات جھیلنے کی سکت کم ہوتی ہے۔ اِس وقت پاکستانی معاشرہ بھی خرابیوں کی زد میں ہے۔ خرابیوں کا درجۂ حرارت جس قدر ہے ''فیل‘‘ اُس سے زیادہ آرہی ہے!
ہمیں زندہ رہنا ہے اور اِسی ماحول میں زندہ رہنا ہے تو خود کو عمل کی کسوٹی پر پرکھتے رہنا پڑے گا۔ ماحول میں رونما ہونے والی ہر تبدیلی اپنے دامن میں ہمارے لیے کچھ نہ کچھ لیے ہوئے ہوتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم کسی بھی موقع کو بروقت شناخت کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔ دنیا صرف اُن کے لیے ہے جو بحرانی کیفیت سے گھبراکر ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دینے کے بجائے کمر کَس کر میدان میں اُترتے ہیں اور خود کو وقت و عمل کی کسوٹی پر کھرا ثابت کرتے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ اس وقت جس کیفیت سے دوچار ہے وہ پریشان کن تو کہی جاسکتی ہے‘ حیران کن ہرگز نہیں۔ بیشتر معاشروں کا یہی حال ہے۔ بہت کچھ ہے جو ٹھکانے پر نہیں۔ لوگ تمام مشکلات کے ساتھ جیتے ہیں اور جینے کا حق بھی ادا کرتے ہیں۔ ہم انوکھے نہیں۔ اب اگر ایک مشکل کیفیت سر پر آن پڑی ہے تو ہمیں اِس کے تدارک کے لیے سوچنا اور متحرک ہونا ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ اہمیت اِس نکتے کی ہے کہ ہم مثبت سوچ کے حامل رہیں یعنی ہر معاملے کے روشن پہلو پر نظر رکھیں۔ خدشات اور تحفظات کو ایک طرف ہٹاکر صرف امکانات کے بارے میں سوچنا وقت کا تقاضا ہے۔