تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     18-04-2013

پارٹی کارکن مشکل میں

30نومبر 1967ء کو وجود میں آنے والی پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی خوش قسمت سیاسی جماعت رہی ہے کیونکہ جس سطح کی عوامی پذیرائی اسے ملی، دوسری سیاسی جماعتوں میں اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ اس جماعت کو ذوالفقار علی بھٹو جیسے کرشماتی سیاسی لیڈر ملے‘ تو کبھی بے نظیر بھٹو جیسی ذہین اور بہادر سیاستدان اسے میّسر آئیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کے انقلابی نعرے نے کئی دہائیوں تک پاکستان کے خاک بسر لوگوں کو اپنا اسیر کیے رکھا۔ غریب، بھوکے پیٹ، اس نعرے پر دھمال ڈالتا رہا، اس خواب کو اپنی آنکھوں میں بسائے کہ ایک دن ایسا روشن سورج اس کے خستہ حال مکانوں میں بھی طلوع ہوگا جب روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ ایک بہتر زندگی اس کی دسترس میں ہوگی۔ مگر شاید اب اس نعرے کی چمک دمک زنگ آلود ہوچکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے کارکن ہمیشہ سے اس کا قیمتی اثاثہ رہے ہیں۔ آج بھی بھٹو زندہ ہے کے نعروں پر رقص کرنے والے جیالے، اپنے لیڈر پر جان نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ پارٹی سیاسی اتار چڑھائو سے گزرتی رہی یہاں تک کہ بھٹو کی پھانسی نے پیپلزپارٹی کو ایک نئی زندگی سے ہمکنار کیا۔ اپنے رہنما کی محبت سے سرشار کتنے ہی جیالوں نے اس سانحے پر خودسوزی کی کوشش کی اور کچھ تو اپنے رہنما کی محبت میں جاں سے گزر گئے۔ ذوالفقار علی بھٹوایک ایسا لیڈر جو لاکھوں کے مجمعے پر اپنی شعلہ بیانی سے سحر طاری کر دیتا تھا۔ جب تختہ دارپر پہنچا تو گویا داستانوں کا کردار بن گیا۔ کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کیا لوگو! یہ تم نے کس کو سرِ دار کھو دیا لوگو!… بھٹو کے کھونے کا غم، نظموں کے مصرعوں میں ڈھلنے لگا، شاعروں نے اسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ بھٹو کا نام بکتا رہا اور بے نظیر بھٹو دو دفعہ اس ملک کی وزیراعظم بنیں۔ جیالے اب بھٹو کی بیٹی کے روپ میں اپنے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھتے تو پھر سے’’ آج بھی بھٹو زندہ ہے‘ کل بھی بھٹو زندہ تھا‘‘ کے نعروں پر دیوانہ وار رقص کرتے۔ جیالوں کی کمٹمنٹ کا عالم وہی تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھا۔ بینظیر بھٹو بطور وزیراعظم تمام توقعات پر پورا نہیں اتر سکیں۔ مایوسی کی لہر پھیلی۔ غریبِ شہر جو روٹی کپڑا اور مکان کے خواب کی تعبیر کا منتظر رہا، مایوس ہوا مگر بھٹوز اور پیپلزپارٹی سے محبت ختم نہیں ہوئی۔ بی بی کی جلا وطنی کا دور شروع ہوا۔ وہ نظر سے اوجھل ہوگئیں مگر اس دوران اپنے لوگوں اور اپنے کارکنوں سے رابطے میں رہنے کی کوشش ضرور کی۔ ہزاروں میل کی دوری پر وہی رابطے میں رہ سکتا تھا جس کے پاس اتنے وسائل تھے۔ غریب جیالا اب لاوارث ہوچکا تھا۔ یہاں تک کہ وہ دن آیا جب بی بی ملک واپس آئیں۔ بینظیر بھٹو کا دبلا پتلا سراپا اب قدرے فربہ ہوچکا تھا۔ عمر اور حالات کی گرد‘ خدوخال پر تھی۔ شخصیت میں وقار اور متانت زیادہ نظر آتی۔ بی بی کے چہرے پر اب مائوں والی شفقت دکھائی دیتی۔ ملک پر دہشت گردی کے سائے تھے اور ان کی شخصیت کو شدید خطرات لاحق تھے۔ پھر بھی وہ ایک بہادر عوامی رہنما کی طرح ملک واپس آئیں‘ اپنے لوگوں میں وہ آ کر بے حد خوش تھیں۔ راولپنڈی کے جلسہ عام سے جذباتی انداز میں خطاب کرتے ہوئے اور بھٹو کے نعرے لگواتے ہوئے دہشت گردی کا شکار ہوگئیں: جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘ وہ شان سلامت رہتی ہے۔ فیض کا یہ مصرعہ اپنی پوری معنویت کے ساتھ آشکار ہوگیا۔ اس سانحے پر ہر پاکستانی کی آنکھ پرنم تھی۔ پیپلزپارٹی کو بے نظیر کا لہو پھر سیراب کر گیا۔ پارٹی کو ایک بار پھر عروج ملا۔ اب یہ شہیدوں کی جماعت تھی مگر اب کے یہ عروج ایسا تھا جس کے بعد زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ ’’جو رات ہے عروج کی وہی ہے زوال کی۔‘‘ صحیح معنوں میں پیپلزپارٹی سے ’’بھٹوز‘‘ کے دور کا خاتمہ ہوگیا لیکن اگر پیپلزپارٹی کی باقی رہ جانے والی قیادت بی بی کی قربانی کا احساس ایک لمحے کو بھی کر جاتی تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔ بی بی کا چلے جانا اگرچہ پارٹی کو اگلے الیکشن میں حکومت میں لے آیا مگر اس میں سراسر نقصان پارٹی کے جیالوں کو ہوا جن کے لیے منظر خالی ہوچکا تھا۔ اب کوئی چہرہ ایسا نہ تھا جس پر نگاہ پڑے وہ جئے بھٹو کا نعرہ لگائے۔ بھٹو کے عشق میں سرشار خاک بسر جیالوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو کی کرشماتی شخصیت تقویت دیتی اور ان کے محبوب لیڈر کے خلا کو پرُ کرتی تھی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال رہی اور وہ جن کی پارٹی سے دہائیوں کی وابستگی تھی پارٹی پالیسیوں سے نالاں رہے۔ مفاہمت کے نام پر ہر اصول ضابطے اورقاعدے کو قربان کیا گیا۔ پارٹی کی سیاسی غربت کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ پیپلزپارٹی کے دونوں وزرائے اعظم‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف‘ اپنی کرپشن کی ہوشربا داستانوں کے بعد عدالت سے الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہوچکے ہیں۔ عام پاکستانی کو صرف مہنگائی، بدامنی اور بحرانوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ جیالا اس بات پر پارٹی کی قیادت کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں کہ پانچ سالہ حکومت میں پیپلزپارٹی اپنی محبوب لیڈر بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کرسکی۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ خار زار سیاست میں نووارد بلاول زرداری کے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ لگانے سے پارٹی کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ الیکشن کے اس موسم میں پارٹی کے پاس کوئی ایسا چہرہ نہیں ہے جو قومی سطح پر پارٹی کی الیکشن مہم چلا سکے۔ پنجاب میں منظور وٹو کو پردھان بنا کر بھی پارٹی نقصان میں ہے کیونکہ جیالا کبھی بھی اس تبدیلی کو دل سے تسلیم نہیں کرسکا۔ پاکستان پیپلزپارٹی سے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کا سفر منیر نیازی کے الفاظ میں ایسا ہی ہے: ؎ آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے! کہتے ہیں انتخابات کا موسم آتے ہی سیاسی کارکنوں کے اندر سے نعرہ باز بیدار ہونے لگتے ہیں۔ ڈھولک کی تھاپ پر ’’آوے ای آوے‘‘ کا نعرے لگانے کو جی مچلنے لگتا ہے۔ پیپلزپارٹی کا جان نثار جیالا اس بار مشکل میں ہے کہ وہ بھٹو کے سیاسی فلسفے سے عاری پارٹی کی الیکشن مہم میں کسے دیکھ کریہ نعرہ لگائے گا: ’’آج بھی بھٹو زندہ ہے‘ کل بھی بھٹو زندہ تھا۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved