تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-02-2019

ملتان، بہاولپور اور اب لودھراں

جنوبی پنجاب سے‘ یعنی ملتان‘ بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان سے تحریک انصاف کو محیر العقول کامیابی ملی۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی قومی اور صوبائی نشستوں کا باہمی فرق بہت زیادہ تھا۔ اتنا زیادہ کہ وسطی اور بالائی پنجاب میں مسلم لیگ ن کو حاصل برتری نا صرف ختم ہو کر رہ گئی‘ بلکہ تحریک انصاف کو پنجاب بھر میں مجموعی طور پر برتری حاصل ہو گئی۔ جنوبی پنجاب میں یہ برتری اسے جنوبی پنجاب کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کے وعدے کے طفیل حاصل ہوئی۔ لوگوں کو یقین تھا کہ اگر تحریک انصاف کامیاب ہو گئی تو وہ اس علاقے کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کرے گی اور ان کی محرومیوں کا خاتمہ ہوگا۔
حالانکہ یہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ بھی تھا اور ان کی شدید خواہش بھی‘ لیکن یہ بات طے ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں نے اس سلسلے میں سرائیکی قوم پرست پارٹیوں کو کبھی بھی اعتماد کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ وہ یہ مقصد کسی قومی سطح کی سیاسی پارٹی کے ہاتھ مضبوط کر کے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ میری اس بات سے سرائیکی قوم پرست پارٹیاں ضرور ناراض ہوں گی‘ مگر صرف ان کی ناراضی کے ڈر سے سچ کہنے سے بہرحال باز نہیں رہا جا سکتا۔ جنوبی پنجاب میں بے شک سرائیکی بولنے والی آبادی کی تعداد کافی زیادہ ہے‘ لیکن خود سرائیکی بولنے والوں کو بھی ان قوم پرست سرائیکی پارٹیوں پر اعتماد نہیں تھا۔ سرائیکی قوم پرست پارٹیوں کی پہلی بات ہی ''سرائیکستان‘‘ سے شروع ہوتی تھی۔ یہ کوئی بری بات نہیں تھی۔ ان کی یہ بات مناسب تھی کہ سرائیکی وسیب کو اس کے نام سے پہچانا جائے‘ لیکن اس شناخت کے ساتھ ساتھ جو دیگر عوامل تھے‘ اس نے اس علاقے کی غیر سرائیکی (زبان کے حوالے سے) آبادی کے تحفظات میں اضافہ کر دیا‘ مثلاً: یہ بات میں نے ایک دو نہیں‘ کئی سرائیکی لیڈروں کے منہ سے خود سنی کہ تھل میں پنجابی آباد کاروں کو زمینوں سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ سرائیکی علاقے کی زمین پر صرف سرائیکیوں کا حق ہوگا۔ کچھ اصحاب سے سنا کہ غیر سرائیکیوں کا سرائیکستان میں وہی سٹیٹس ہوگا ‘جو بلوچستان میں غیر بلوچوں کا ہے‘ یعنی (Settlers) آباد کار۔ سرائیکی دھرتی کے باسی ہیں اور غیر سرائیکی دوسرے درجے کے شہری۔ یہ وہ باتیں تھیں‘ جن کے طفیل سرائیکی قوم پرست پارٹیوں کا سرائیکستان والا چورن سرے سے فروخت ہی نہ ہوا۔
اس سلسلے میں سرائیکی قوم پرست اس عاجز پر گرمی جھاڑ سکتے ہیں‘ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کی عوام میں سرائیکستان والا نظریہ کبھی بھی وہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا کہ انہیں سیاسی میدان میں عوامی حمایت حاصل ہو سکتی اور وہ ووٹوں کے ذریعے اپنی مقبولیت ثابت کر سکتے۔ یہ وہ چیز ہے‘ جو حقیقت ہے اور اظہر من الشمس ہے۔ سرائیکی قوم پرستوں میں سب سے زیادہ جدوجہد مرحوم تاج محمد لنگاہ نے کی اور برسوں نہیں‘ عشروں تک اپنے مقصد کے لیے کام کرتے رہے‘ مگر عالم یہ تھا کہ وہ کبھی بھی کسی الیکشن میں قابل ذکر ووٹ حاصل نہ کر سکے؛ حتیٰ کہ ایک بار وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے‘ تب بھی لوگوں نے ان کو ووٹوں کے ذریعے کامیابی نہ بخشی۔ وہ حلقے میں کم ترین ووٹ لینے والوں میں شامل ہوتے تھے۔
اس کام کے لیے علاقے کے لوگوں کو کسی قومی سطح کے لیڈر اور پارٹی کی حمایت کا انتظار تھا؛ حتیٰ کہ اگر الیکشن 2018 ء سے دو ماہ قبل مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر ''تحریک صوبہ جنوبی پنجاب‘‘ بنانے والے؛ اگر پی ٹی آئی کی بجائے اپنے اسی پلیٹ فارم‘ یعنی ''تحریک صوبہ جنوبی پنجاب‘‘ کے نام سے الیکشن لڑتے تو ناکام ٹھہرتے۔ علاقے کے تمام غیر سرائیکی‘ یعنی پنجابی‘ اُردو اور ہریانوی بولنے والے‘ جن کی قابل ذکر تعداد اس علاقے میں آباد ہے اور وہ اب مہاجر نہیں‘ بلکہ مقامی ہیں کہ انہوں نے یہاں سے کہیں اور نہیں جانا۔ ان کو اس سلسلے میں مقامی طور پر قائم ہونے والی پارٹیوں یا اتحادوں پر بالکل اعتماد نہ تھا۔ میں ذاتی طور پر کئی ہریانوی زبان بولنے والے جنوبی پنجاب کے رہائشی دوستوں اور رہنماؤں کو‘ جن میں رانا تصویر نمایاں ہے ‘علیحدہ صوبے پر دل و جان سے متفق اور راضی دیکھا ہے ‘لیکن وہ بھی لفظ سرائیکستان سے خائف تھے۔
میں نے اپنے ایک سابقہ کالم میں لفظ ''سرائیکی‘‘ کی حقیقت بیان کی تو اس پر بڑا شور و غوغا مچا اور کہا گیا کہ میں نے اس لفظ کی قطعاً غلط تشریح کی ہے اور اس لفظ کا ماخذ وہ نہیں ‘جو میں نے لکھا ہے ‘لیکن وہ اس کے مقابلے میں نہ کوئی اور دلیل پیش کر سکے اور نہ ہی کوئی دستاویزی حوالہ یا تاریخی ثبوت دے سکے۔ میں نے پروفیسر حسین سحر کی خود نوشست ''شام و سحر‘‘ سے حوالہ دیا کہ سمرا پبلک سکول ‘حسن پروانہ میں 6 اپریل 1962ء کو میر حسان الحیدری نے ملتان‘ بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان کے تقریباً تمام قابل ذکر ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کیا‘ جس میں پروفیسر حسین سحر خود اور اقبال ارشد مرحوم (جب میں نے کالم لکھا تب اقبال ارشد حیات تھے) بھی شامل تھے۔ اس اجلاس میں تجویز پیش ہوئی کہ جنوبی پنجاب میں بولی جانے والی زبان کے مختلف لہجے اور نام ہیں‘ کہیں اسے ریاستی‘ کہیں ملتانی اور کہیں بہاولپوری اور ڈیروی کہا جاتا ہے‘ اسے اگر کوئی مشترکہ نام دے دیا جائے تو مناسب ہوگا۔ اس پر سب نے یہ ذمہ داری بھی میر حسان الحیدری کے کندھوں پر ڈال دی‘ جنہوں نے اس کے لیے ''سرائیکی‘‘ کا نام تجویز کیا۔ پوچھنے پر بتایا کہ اس کا مطلب ''سرا‘‘ یعنی شمال کی زبان ہے۔ میرے اس کالم پر اعتراضات تو بہت ہوئے‘ مگراس کا علمی‘ تاریخی‘ ثقافتی یالسانی جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
میرے ایک دوست نے اس سلسلے میں 1904ء کے چھپے ہوئے بہاولپور گزٹ کے ترجمے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اس گزٹ کے ترجمہ شدہ صفحہ نمبر 414 پر (حسین سحر کے دعوے کی تردید ملتی ہے کہ یہ لفظ 1962 ء میں ''ایجاد‘‘ کیا گیا) لکھا ہے ''کوٹ سبزل اور گرد و نواح کے لوگ بہاولپوری اور سندھی دونوں لہجے بولتے ہیں اور موخر الذکر لہجے کو سرائیکی بھی کہتے ہیں ‘لہٰذا کم از کم 1904ء میں تو سرائیکی کا لفظ مستعمل تھاہی‘‘ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بہاولپور گزٹ کے اصل ‘یعنی انگریزی والے مسودے کے 392 صفحات میں ایک جگہ بھی لفظ سرائیکی موجود نہیں ہے۔ اصل کتاب میں بہاولپور میں بولی جانے والی جن زبانوں کا ذکر ہے‘ وہ چار ہیں: -1 ملتانی یا مغربی پنجابی‘ -2 پنجابی (جٹکی یا ابھیچڑ) -3 سندھی -4 مارواڑی راٹھی‘ یعنی 1904ء کے بہاولپور گزٹ میں لفظ سرائیکی سرے سے ہی موجود نہیں۔
اگر ہمارے سرائیکی دوست (اب میں اسے سرائیکی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ خواہ یہ لفظ 1962ء میں یہی ایجاد کیا گیا تھا ‘لیکن اب یہ لفظ نا صرف مستعمل ہے ‘بلکہ مقبول عام بھی ہے) اس لفظ کو اس خطے کی سینکڑوں سال قدیم تاریخ قرار دے کر اس پر ضد نہ کرتے تو دوسری زبانیں بولنے والے مقامی (میں بذات خود پنجابی بولنے والا مقامی ہوں) جن کا جینا مرنا اب یہیں ہے ‘اگر سرائیکی تسلیم کر لیا جائے‘ تو بات آسان ہو سکتی ہے اور سرائیکی زبان سے آگے بڑھ کر اور وسعت دے کر وسیب کے رہنے والوں کی شناخت قرار دے دیا جائے‘ تو معاملات میں بہت زیادہ بہتری اور آپس میں غلط فہمیوں کا تدارک ہو سکتا ہے۔
بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ جنوبی پنجاب کو ایک صوبے کے وعدے کی بنیاد پر یہاں کے لوگوں نے پی ٹی آئی پر اعتماد کیا ‘لیکن ابھی تک اس سلسلے میں عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوا۔ علیحدہ صوبے کی طرف کو خیر کیا ہوتا؟ ابھی تک جنوبی پنجاب کے لیے علیحدہ سیکریٹریٹ کی بات بھی سرے نہیں لگ سکی ا ور ''پنڈا بھی بسا نہیں اور اچکے لوٹنے آ گئے ہیں‘‘ کے پنجابی محاورے کے مصداق جھگڑا اس بات پر ہو رہا ہے کہ یہ سیکریٹریٹ کہاں ہوگا؟ملتان‘ بہاولپور یا پھر لودھراں؟ لوگوں کو آسانی درکار ہے۔ عوام کو اپنی مشکلوں کے حل کی ضرورت ہے اور سیاست دان اپنی دکانداری چمکا رہے ہیں۔ بہاولپور اور ملتان تو چلیں ‘پھر بھی کوئی عقل لگتی بات ہے‘ یہ لودھراں درمیان میں کہاں سے آ گیا؟ چودھری بھکن کا کہنا ہے کہ لودھراں کا مطلب ہے؛ جہانگیر ترین۔ بہرحال یہ تو محض دو تین سال پرانا تعلق ہے۔ اس سے پہلے اس باہمی رشتے کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved