تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     05-02-2019

زرد پتوں کا بن

زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرادیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے 
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں والیٔ ماسوا‘ نائب اللہ فی الارض
دہقاں کے نام
چھ ہزار میل کے محفوظ فاصلے پر رہنے کے باوجود میں نے آج کے کالم کا عنوان زرد پتوں کا بن رکھا ہے ‘ جو فیض ؔصاحب کے تیسرے مجموعہ کلام (سرِ وادیٔ سینا) کی تیسری نظم (انتساب) کا پانچواں مصرع ہے۔ ہم اپنا قومی ترانہ گاتے ہیں تو اس کو شروع ہی پاک سر زمین کے شاد باد ہونے کی دُعا سے کرتے ہیں۔ برائے مہربانی اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں اور پھر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سچ بتائیںکہ کیا واقعی پاک سرزمین خطِ افلاس سے نیچے بصد مشکل گزر اوقات کرنے والے (جن پر زندگی کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی) اُتنے ہی خوش و خرم ہیں‘ جس کی دعا ہم خشوع وخضوع ‘ جوش و خروش اور ذوق و شوق سے قومی ترانہ گاتے ہوئے مانگتے ہیں۔ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ مورخین کی رائے میں ہندوستان میں برطانوی راج کی جتنی بھی ''برکات ‘‘ ہوں (قانون کی حکمرانی سے لے کر فروغِ تعلیم اور انسان دوست سماجی تبدیلیوں کا محرک ہونے تک) جلیانوالہ باغ میں قتلِ عام کے ایک واقعہ نے برطانوی راج کے چہرہ پر وہ بدنما داغ لگا دیا کہ آنے والے25 سالوں میں ہندوستان کو آزادی دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہا۔ صرف ایک قتل عام اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران پڑنے والے قحط بنگال (جو لاکھوں افراد کی ہلاکت کا موجب بنا) نے راج کا ساری Credibility ‘ وقار‘ عزت‘ دبدبہ‘ احترام اور قبولیت ختم کر دی اور وہ بھی اتنے فیصلہ کون طریقے سے کہ برطانوی حکومت کی کوئی بھی شاطرانہ چال راج کو زیادہ طول نہ دے سکی۔ 
یہ تو تھیں ماضی کی باتیں اور ماضی مردہ ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے 71 سالوں میں ہمارا اپنا ریکارڈ کیا رہا؟ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں فائرنگ‘ پکا قلعہ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف نصیراللہ بابر کا آپریشن‘ 1971 ء میں مشرقی پاکستان میںلاکھوں افراد کا قتل عام‘ 12 مئی کا کراچی اور17 جون 2014ء کا سانحہ ماڈل ٹائون لاہور۔ پاکستان کے تمام تھانوں میں ہر روز ہزاروں زیر تفتیش لوگوں پر ناقابل برداشت اور ناقابل بیان تشدد۔عابد باکسر سے لے کر رائو انوار تک جعلی پولیس مقابلے۔ لاہور کے شاہی قلعہ میں حسن ناصر سے لے کر بلوچستان میں اکبر بگٹی کی شہادت۔ قارئین جانتے ہوں گے کہ پاکستان کا آئین پرُامن مظاہرے اور احتجاج کا حق دیتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر ہوں یا اساتذہ‘ کسان ہوں یا مزدور‘ کلرک ہو ں یا محنت کش‘ نرسیں ہوں یا Health Visitors ‘ طلبا ہوں یا طالبات۔ جب بھی پر امن مظاہرہ کریں تو انہیں پولیس کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کہاں گئی قانون کی حکمرانی؟ کہاں گیا آئین کا احترام؟کیا تمام انسانی حقوق (جن کی حفاظت کی ضمانت ہمارا آئین دیتا ہے) کو پامال کرنا ہمارا شیوہ بن گیا ہے؟ کیا ہم ایک نیا قومی ترانہ لکھیں؟ جس میں شاد باد کے الفاظ نہ ہوں اور وہ لاکھوں کروڑوں محنت کشوں کے دُکھوں اور اضطراب‘ رنج و خوف‘ عذاب اور اذیت کی ترجمانی کرے؟ اگر ایسا کیا گیا تو ہمارا قومی ترانہ ہمارے قومی نوحہ میں بدل جائے گا۔ جوستم زدگان اور اُفتاد گانِ خاک کی محرومیوں اور ان پرڈھائے جانے والے ظلم کا ماتم کرے گا۔ یقین کریں کہ کالم نگار فرضی باتیں نہیں کر رہااور نہ آپ کو من گھڑت قصے سنا رہا ہے۔ کالم کی محدود جگہ میں 71 سال کی عوام دُشمنی کی تلخ داستان تو بیان نہیں کی جا سکتی۔ میں صرف ایک (اور وہ بھی تازہ ترین) مثال دینے پر اکتفا کروں گا۔ کراچی کی پورٹ قاسم کے ایک ہزار سے زیادہ کارکنوں کو پانچ ماہ سے ان کی تنخواہیں اور واجبات نہیں ملے۔ وہ تین ماہ سے کراچی پریس کلب کے باہر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پورے 90 دن گزر گئے مگر نہ اخبارات میں خبر شائع ہوئی اور نہ ٹیلی ویژن پر اُن کے مظاہرہ کی تصویر دکھائی گئی۔ نہ کراچی کے وکلا نے اُن سے اظہارِ یک جہتی کیا اورنہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے۔ رہی موجودہ حکومت تو وہ نہ ہزاروں مظاہرین کو دیکھ سکی اور نہ تین ماہ سے بلند ہونے والی فریاد کو سُن سکی۔ 9 دسمبر کو وزیر اعظم عمران خان کراچی گئے تو مظاہرین نے گورنر ہائوس جانے اور وہاں اپنی عرضداست پیش کرنے اور عوام دوست وزیراعظم کی توجہ فوری طور پر اپنی حالتِ زار کی طرف دلانے کا فیصلہ کیا۔ بجائے اس کے کہ ان مظلوموں کی داد رسی کی جاتی اور ان کی سو فیصدی جائز شکایت کو ہمدردی سے سنا جاتا اور اُنہیں ان کے واجبات جلد از جلد ادا کرنے کا حکم جاری کیا جاتا۔ حکومت سندھ نے کیا کیا؟ مظاہرین کو ہر طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اُن پر نہ صرف اندھا دھند لاٹھی چارج کیا گیا۔ بلکہ Water Cannons کے ''فیاضانہ‘‘ استعمال سے اُنہیں منتشر ہو جانے پر مجبور کیا گیا۔ تبر کاً ایک درجن مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب نہ جانے وہ کتنے دن کال کوٹھڑی میں بند رہیں گے؟ اُنہیں رہائی ملے گی تو کیونکر؟ جب مظاہرین کو جان کے لالے پڑے تو وہ یقینا اپنے واجبات کی وصولی کے مطالبہ کو بالکل بھول چکے ہوں گے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حکومت سندھ نے اپنے قابل رشک تدبرسے ایک بڑے مسئلے کو کس طرح آناً فاناًحل کر دیا اور وہ بھی واجبات ادا کئے بغیر۔ اب رہے سندھ کی صوبائی یا وفاق کی قومی اسمبلی کے اراکین یا حکومت پاکستان کا انسانی حقوق کمیشن۔ ان سب کو مذکورہ بالاواقعہ کی خبر آج تک نہیں پہنچی۔ وہ اس مسئلہ پر ایک لفظ نہیں بولے اور نہ بولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اربابِ اقتدار اختیار کسی فسادی سے مذاکرات کا تو کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر وہ پر امن محنت کشوں کو ہر قسم کے تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
کالم نگار برطانیہ میں بیرسٹر ہونے کے باوجود ماہر قانون ہونے کا دعویٰ ہرگز نہیں کرتا۔ قانون کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے وہ ایک مستند حوالہ دیتا ہے اور وہ ہے ایک قانون کا The Dock Workers (Regulation of Employment) Act 1974 ۔ اس قانون کے تحت نہ صرف بندرگاہوں پر کام کرنے والوں کو ان کی محنت کا قومی خزانے سے معاوضہ دیا جائے بلکہ گزارے کے لئے تنخواہ کا ایک حصہ اُن دنوں بھی ادا کیا جائے جب ملازمت ختم ہو جائے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے حکام کو چھ ماہ کی قید کے ساتھ جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ آخر وزیراعظم کو محنت کشوں پر کئے جانے والے ظلم کی آخری قسط کی خبر ملی۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے زخموں کو مندمل کرنے‘ شرمناک زیادتی کی تلافی کرنے اور حق داروں کو اُن کا حق پہنچانے کے لئے کون سے عملی اقدامات اٹھائے ہیں؟ چین کے کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے ہم نے پہلے محبت کی کتنی پینگیں بڑھائیں۔ ہمیں ترجیح تو بہرحال اپنے مقامی محنت کشوں کو ہی دینا ہوگی۔ کالم نگار تک یہ برُی خبر بھی پہنچی ہے کہ حکومت (صوبائی اور وفاقی) بندرگاہوں پر کئے جانے والے کام کو Out Source کر کے غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکہ پر دے رہی ہے۔ خدا کرے کہ یہ خبر سچی نہ ہو۔ زرداری اور شریف ٹولے کی پرلے درجے کی نالائقی اور بددیانت حکومتوں کے طفیل ہمارا چمن اداس ہے۔ قائداعظم کا پاکستان ایک سہانے خواب سے کئی قدم آگے جا کر ڈرائونا بن گیا۔ وہ فلاحی مملکت تو کیا بنتا۔ واجبات کی ادائیگی پر احتجاج کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ توقع تھی کہ حکومت ماں جیسی ہوگی۔ وہ لاٹھی گولی کی سرکار بن گئی۔ ان دنوں موسم خزاں ہے اور زرد پتوں کا بن موسم بہار کے انتظار میں زندہ ہے۔...زرد پتوں کا بن جومرا دیس ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved