تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-02-2019

پروڈکشن آرڈر

لندن جانے کے لیے ایئر پورٹ پہنچا تو بورڈنگ کے لیے قطار میں لگے کچھ نوجوان وہاں موجود عملے سے الجھ رہے تھے۔ چند لمحوں بعد اس شور شرابے اور بحث و تکرار میں دوسرے شعبوں کے لوگ بھی کود پڑے‘ جس سے اپنی اپنی منزل کی جانب روانگی کے لیے امیگریشن کائونٹرز پر موجو د دوسرے مسافروں کے معاملات تاخیر کا شکار ہو نے لگے۔ بات زیا دہ بڑھی تو پتا چلا کہ خلیجی ممالک میں روزگار کے لیے جانے والوں کے لیے یہ قانون نافذ ہو چکا ہے کہ جو بھی ورک ویزا پر وہاںکام کاج کے لیے داخل ہو گا‘ اس کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان پولیس کے مجاز افسر کی جانب سے اس امر کا سرٹیفکیٹ ساتھ لگائیں کہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں اور نہ ہی وہ کبھی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ جب تک ا س کے پاس مطلوبہ سرٹیفکیٹ نہیں ہو گا ‘وہ ملازمت کے لیے بیرون ملک نہیں جا سکے گا۔
ایک چھوٹی سی ملازمت کے لیے خلیجی ممالک کا پیمانہ یہ ہے کہ پاکستان سے ملازمت کے لیے آنے والا جرائم پیشہ نہ ہو‘ اس پر اس کے ملکی اداروں کی جانب سے بد دیانتی یا دوسرے کسی جرم کی تفتیش نہ ہو رہی ہو ‘ لیکن پاکستان میں بہتی ہوئی الٹا گنگا دیکھئے کہ اپوزیشن لیڈر اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کی نشست کے بھر پور اختیارات ا یسے شخص کے سپرد کر دیئے گے ہیں‘ جو سر سے پائوں تک اس غریب ملک کی اربوں کی نہیں ‘بلکہ کھربوں کی دولت لوٹنے کے الزام میں قومی احتساب بیوروکے پاس زیر حراست ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سپیکر قومی اسمبلی نہ جانے کیوںہر دوسرے ہفتے ان کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کر دیتے ہیں اور رہائش کے لیے وہ جگہ ان کے حوالے کر دیتے ہیں ‘جو وزیر اعظم پاکستان کی رہائش گاہ سے بھی زیا دہ وسیع اور آرام دہ ہے ۔ پروڈکشن آرڈر صرف اسی صورت سپیکر جاری کر سکتا ہے‘ جب ملک میں کسی بہت ہی اہم ترین مسئلے یا ووٹنگ کی ضرورت ہو‘ لیکن یہاں ریوڑیوں کی طرح پروڈکشن آرڈر جاری ہو رہے ہیں۔
وزیر ریلوے شیخ رشید سے جب ٹی وی اینکرز نے پوچھا کہ عمران خان کو کیا ہوا‘ کل تک وہ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کسی بھی صورت میں شہباز شریف کو نہیں دی جائے گی‘ پھر یہ سب کیا ہوا ؟تو شیخ رشید کوئی جواب دینے کی بجائے گیٹ نمبر چار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خاموش ہو گئے۔ ہم نہیں جانتے کہ گیٹ نمبر چار کہاں ہے اور اس کا کیا مطلب ہے‘ بلکہ سیدھا سا سوال ہے کہ جس نے بھی روز روز کی کل ِکلِ ختم کرنے کے لیے شہباز شریف کی '' ایک دھیلے اور ایک پائی کی کرپشن‘‘ ثابت ہونے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی اس نے اچھا نہیں کیا۔ ان تک عوام کے جذبات کا سمندر یہ کہتے ہوئے دوہائیاں دیتا دکھائی دے رہا ہے کہ کل کو پھر کوئی بھی آپ کی آواز نہیں بنے گا۔ وہ نوجوان نسل اور درد مند اوور سیز پاکستانی ‘جو ملک لوٹنے والوں کا کڑا احتساب چاہتے ہیں‘ انہیں ایسی مایوسی ہو گی کہ آپ اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ ان کے دلوں میں وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے کا وہ جذبہ جو کچھ سال سے پیدا ہو چکا ہے‘ ممکن ہے کہ یہ جوش و جذبر قرار ہی نہ رہے۔ دبئی‘ لندن اور امریکہ میں موجود پاکستانی کھل کر کہنے لگے ہیں کہ ہمارے ہاتھ بھاشا ڈیم کی فنڈ ریزنگ کے لیے اسی دن رک گئے تھے جب شہباز شریف کا پروڈکشن آرڈر جاری ہوا اور پھر انہیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئر مینی دے دی گئی۔ ان اوور سیز پاکستانیوں کا اعتماد اور بھروسہ ٹوٹ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیم کے لیے فنڈز آگے بڑھنا رک گئے ہیں۔ لوگ ڈرنے لگے ہیں کہ پاکستان میں قانون صرف غریب اور لاوارث کے لیے ہوتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر کے بعد پبلک اکائونٹس کمیٹی کی نشستیں قومی اسمبلی اور پنجاب میں باپ بیٹے پر مشتمل دو ایسی شخصیات کے سپرد کر دی گئی ہیں جن پر اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتے ہوئے کروڑوں ڈالر خرد برد کرنے کے الزامات کی ایک سیریز چل رہی ہے۔کیا یہ سب کرم فرمائیاں کسی ڈیل کا نتیجہ کہی جا سکتی ہیں؟کیا یہ سب وزیر اعظم عمران خان سے بالا با لا کوئی شخصیت کرا رہی ہے ؟کوٹ لکھپت جیل سے اچانک سروسز ہسپتال لاہور کا وسیع پورشن بڑے میاں صاحب کے لیے اور منسٹر انکلیو چھوٹے صاحب کے لیے کہیں معاف کر دینے والی کہانی نئی طرز پر تو نہیں دہرائی جا رہی؟احتساب اور انصاف اس طرح نہیں ہوا کرتا؛ اگر احتساب دیکھنا ہے تو ملائیشیا جا کر دیکھئے جہاں نجیب رزاق کے گلے میں کرپشن کا طوق باندھ دیا گیا ہے۔ اگر احتساب اور انصاف دیکھنا ہے تو جنوبی کوریا چلئے جہاں دو سابق صدور پارک اور لی کو بالترتیب24 سال اور 15 سال قید سخت کی سزا ئیں بھگت رہے ہیں۔ جیل میں ان کی سزائوںپر دوسرے قیدیوں کی طرح عمل ہوتا سب دیکھ رہے ہیں۔ احتساب کرنا ہی ہے‘ اگر انصاف دکھانا ہی ہے تو پھر برازیل چلئے جہاں دو سابق صدور ابھی تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔ انصاف دیکھنا ہی ہے تو پھر اسرائیل کی جیل میں سابق وزیر اعظم ایہود المرٹ کو دیکھ لیجئے جو کرپشن کے جرم میںاس طرح قید بھگت رہا ہے کہ اسے جیل کے برتن دھونے پڑ رہے ہیں۔ نکارا گواکے صدر آرنالڈو کو جیل میں دیکھئے جس نے100 ملین ڈالر کی کرپشن کی تھی‘ یوکرائین کے وزیر اعظمPavloکا حال دیکھئے جسے آٹھ سال قید اورنو ملین ڈالر جرمانہ کیا گیا۔ پیرو کے صدر البرٹو کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئر مین نہیں بنایا گیا‘ بلکہ اسے کرپشن پر 2000ء میں دی گئی سزا پر ابھی تک عمل ہو رہا ہے۔ہیٹی کے جین کلائوڈے ‘سربیا کے سالوبودان ‘ تیونس کے زین العابدین‘ نائجیریاکے سانی اباکا ‘ کانگو کے مبوتو‘ فلپائن کے مارکوس اور انڈونیشیا کے سہارتو کو کرپشن پر دی جانے والی سزائیں دیکھئے اور پھر رومانیہ کے Antonescuکو کرپشن پر دی گئی سزا کے منا ظر دیکھئے۔ 
اس ملک پر رحم کیجئے؛ اگر اس ملک کے آئین اور قانون کی پاسداری کرنی ہے‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک کا آئین سلامت رہے‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی غیر جمہوری قدم نہ اٹھ سکے تو ‘پھراس آئین پر ہو بہو عمل کر کے دکھایئے۔کبھی سوچتا ہوں سب کچھ کہہ دوں‘ لیکن پھر ہاتھ لکھتے ہوئے رک جاتا ہے ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں۔شریف برادران اور زرداری خاندان کی اکثریت‘ دولت اور بیرونی رابطوں کے طفیل اپنا راستہ صاف کر چکے ہیں‘ لیکن احتساب اور انصاف کے لیے جدو جہد کرنے والے پاکستانیوں کو اتنا بتا دیتا ہوں کہ مڈل اور ہائی سکول تک انصاف کے تمام مرحلوں کو شریف برادران فتح کر چکے ہیں‘ یہ میری معلومات ہیں جنہیں کوئی تین ماہ سے دل میں لئے ہوئے تھا‘ اس لئے نیچے کی سطح پر '' میاں برادران کا انصاف گروپ‘‘ ان کے لیے ہمیشہ کی طرح سکولوں کے اساتذہ کے لشکر کو ساتھ ملا چکا ہے‘ جس کے اثرات آپ سب کو گزشتہ تین چار ماہ سے دیکھنے کو مل رہے ہوں گے۔ بس اتنا ہی کافی ہے جو عقل والے ہیں وہ سمجھ گئے ہوں گے اور جو تجاہل عارفانہ کا شکار ہیں‘ ان سے میرا یہ مضمون مخاطب ہی نہیں ۔ 
سوچتا ہوں سب کچھ کہہ دوں‘ لیکن پھر ہاتھ لکھتے ہوئے رک جاتا ہے ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں۔شریف برادران اور زرداری خاندان کی اکثریت‘ دولت اور بیرونی رابطوں کے طفیل اپنا راستہ صاف کر چکے ہیں‘ لیکن احتساب اور انصاف کے لیے جدو جہد کرنے والے پاکستانیوں کو اتنا بتا دیتا ہوں کہ مڈل اور ہائی سکول تک انصاف کے تمام مرحلوں کو شریف برادران فتح کر چکے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved