۱۹۹۰ء میں امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب قاضی حسین احمد نے مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ۵فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور بیگم بینظیر مرحومہ وزیراعظم پاکستان نے بھی اس کی تائید کا اعلان کر دیا۔ سرکاری سطح پر اس دن کو منانے کی خاطر ۵فروری قومی تعطیل قرار پائی۔ اس دن سے لے کر آج تک الحمدللہ پاکستان اور دنیا بھر میں پاکستانی اور کشمیری آبادیاں یہ دن بڑے ایمانی جوش و جذبے کے ساتھ مناتی ہیں۔ مطالعہ کے دوران مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کئی تحریروں میں مسئلہ کشمیر پر ان کے خیالات نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ آج ایک ایمان افروز تحریر اس حوالے سے قارئین کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔
مولانا مودودی کے بیرونی ممالک کے اسفار کے احوال مختلف احباب نے لکھے ہیں۔ اہم ترین روداد سفر نامہ ارض القرآن ہے۔ اسے مولانا مودودی کے رفیقِ خاص مولانا مسعود عالم ندویؒ کے شاگرد جناب محمد عاصم الحدادؒ نے مرتب کیا تھا۔ یہ سفر ۱۹۵۹ء کے آخری اور ۱۹۶۰ء کے شروع کے مہینوں پر مشتمل تھا۔ اس سفر میں مولانا کے ہمراہ عاصم صاحب کے علاوہ امیر جماعت اسلامی کراچی جناب چودھری غلام محمد مرحوم بھی تھے۔ سفرنامہ بہت ہی دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔مولانا مودودی نے مختلف مجالس میں عرب اور غیر عرب احباب کے سامنے اور ریڈیو نشریات میں مختلف موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ ایک مجلس کا تذکرہ جس میں مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا‘ اس کتاب میں شامل ہے۔یومِ کشمیر کے حوالے سے یہ تحریر آج بھی اتنی جامع اور ایمان افروز ہے کہ ایک ایک لفظ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔
مولانا کی اس تقریر کو معروف عرب عالم اور سیرت نگار جناب محمد احمد باشمیل مرحوم (۱۹۱۵ء ۔۲۰۰۵ئ)نے اپنی کتاب(القومیہ فی الاسلام) ''اسلام میں قومیت کا تصور‘‘ میں شامل کیا۔ یہ کتاب عرب نوجوانوں کے درمیان بہت زیادہ مقبول ہوئی۔ محمد احمد باشمیل سعودی عرب میں رہتے ہوئے عالمی تحریکِ اسلامی کا درخشندہ ستارے تھے۔ وہ یمنی النسل تھے۔ جوانی میں بارہ سال اریٹیریامیں مقیم رہے۔ پھر سعودی عرب میں آ گئے اور سعودی شہریت حاصل کر لی۔ رابطہ عالم اسلامی میں بہت گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ درجنوں کتابوں کے مصنف تھے اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی مداحین میں سے تھے۔
جناب عاصم الحداد اس تقریر کا تذکرہ اپنے سفرنامے میں یوں فرماتے ہیں:
عرب قومیت اور پاکستان
''(۱۲دسمبر۱۹۵۹ئ) کو ہمارا کوئی خاص پروگرام نہیں رہا۔ صرف مختلف احباب سے ملاقاتیں رہیں۔ ملاقات کے لیے آنے والوں میں پاکستانی بھی تھے اور عرب بھی۔ عرب نوجوانوں سے دوسرے مسائل کے علاوہ قومیت کے موضوع پر خاص طور پر گفتگو رہتی تھی۔
استاذ محمد احمد باشمیل مکہ معظمہ کے ایک خالص اسلامی طرزِ فکر رکھنے والے ادیب ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب القومیۃ فی الاسلام شائع ہوئی ہے‘ جس میں انہوں نے خالص اسلامی نقطۂ نظر سے عرب قومیت کی خوب خوب خبر لی ہے اور اس کے نقصانات اور خطرناک نتائج سے عرب نوجوانوں کو خبردار کیا ہے۔ سنا ہے کہ اس کتاب نے شائع ہوتے ہی پورے سعودی عرب میں تہلکہ مچا دیا ہے‘ جس کے نتیجے میں بہت سے نوجوان عرب قومیت سے تائب ہو رہے ہیں۔ اس وقت تک اس کے پانچ ہزار نسخے نکل چکے ہیںاور اب مصنف نے دس ہزار اور چھپوائی ہے۔ اس کتاب میں محمد احمد باشمیل نے مولانا کا نام لیے بغیر وہ بحث نقل کی ہے‘ جو ان کے اور عرب قومیت سے متاثر ایک نوجوان کے درمیان اس روز ہوئی۔ اس نوجوان نے مولانا سے سوال کیا کہ ''آپ پاکستانی حضرات نے عربوں کے قومی مسائل میں کیا کیا ہے؟‘‘۔
مولانا نے اس سوال کا جواب یہ دیا کہ ہم نے اپنے عرب بھائیوں کے مسائل میں ہمیشہ ان کی تائید کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے‘ لیکن اس تائید کی بنیاد آپ لوگوں کا یہ نعرہ نہیں ہے‘ جو آپ عرب قومیت کے نام سے لگا رہے ہیں‘ بلکہ اس کی بنیاد وہ دینی رابطہ ہے جو ہمارے اور آپ کے درمیان اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ آپ حضرات اس دینی رابطے کو ختم کرنے کے درپے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود ہم اب تک اس کی پاسداری کر رہے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے‘ اس نے نہ صرف فلسطین اور الجزائر بلکہ عربوں کے تمام دوسرے مسائل میں ان کی پوری تائید کی ہے۔ لیکن آپ حضرات کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہر قوم جو ایک خاص ملک میں رہتی ہو‘ اس کے کچھ اپنے مسائل بھی ہوتے ہیں‘ جن سے اسے بہرحال نپٹنا ہوتا ہے۔ اگر آپ لوگوں کو فلسطین اور الجزائر یا دوسرے مسائل درپیش ہیں تو ہم پاکستانیوں کو بھی کشمیر کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگر یہودیوں نے آپ کے دس لاکھ افراد کو قتل کیا اور جلاوطن کیا ہے تو ہندوئوں نے ہمارے ایک کروڑ کے قریب افراد کو قتل اور جلاوطن کیا ہے اور اب تک ہندستان اور کشمیر میں ان کے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔
آپ لوگ اپنی یادداشت پر زور ڈال کر ذرا مجھے بتائیے کہ اس پورے المیے میں آپ لوگوں نے ہماری کہاں تک تائید کی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ اس کا کوئی جواب نہیں دے سکیں گے۔ لہٰذا میں خود ہی اس کا جواب دیتا ہوں۔ آپ لوگوں نے ہماری مدد یوں کی ہے کہ جب ہندستان و کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی تو آپ لوگوں نے اپنی زبانوں پر قفل چڑھا لیے۔ آپ کے اخبارات نے اس کی مذمت میں چند سطریں لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے تمام اخبارات نے آپ لوگوں پر کسی طرف سے جو بھی زیادتی ہوئی‘ اس کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور اب تک کر رہے ہیں۔ کاش آپ لوگوں کی کرم فرمائی یہیں تک محدود رہ جاتی۔ مگر آپ نے اثباتی غیر جانب داری اور امن و سلامتی کے علم بردار (ابطال الحیاد الایجابی ورسل السلام) کا لقب دیتے ہوئے ان لوگوں کی طرف دوستی و محبت کا ہاتھ بڑھایا جن کے ہاتھ اب تک مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
کاش ہندستان کو آپ لوگوں کی دوستی کا واقعی پاس ہوتا‘ مگر اس نے آپ کو کوئی وقعت نہ دیتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اب تک اسے تسلیم کیے ہوئے ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے اب تک نہ اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ کبھی اسرائیل کے کسی باشندے کو اپنی سرزمین میں قدم رکھنے کی اجازت دی ہے۔ سوچیے! اگر خدانخواستہ آپ لوگوں کی ضد میں ہم لوگ بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور اس کے ساتھ دوستی و محبت کے روابط پیدا کرنے لگیں‘ اور بن گوریاں کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دیں اور اس کے لیے رسول السلام[نقیب امن] کے نعرے لگا کر اس کا استقبال کریں‘ تو کیا اس صورت میں آپ لوگ ہمیں کچھ بھی ملامت کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ لیکن نہیں‘ ہرگز نہیں‘ میں تو اسے آپ لوگوں کے سامنے ایک مفروضے کے طور پر بیان کر رہا ہوں‘ ورنہ ہم پاکستانی مسلمان اس کا خیال تک دل میں نہیں لا سکتے‘ اس لیے کہ ہمارا دین ہمیں اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا‘ لہٰذا مجھے امید ہے کہ اس مفروضے کے ذکر سے میں نے آپ لوگوں کی دِلآزاری نہیں کی ہو گی۔‘‘
باشمیل صاحب نے اس ساری گفتگو کو نقل کرنے کے بعد تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب میں کشمیر کے مسئلے اور ہندستانی مسلمانوں کے مصائب کا ذکر کیا ہے اور عرب سیاست دانوں کو شرم دلائی ہے کہ انھوں نے آج تک کبھی ہندستان و پاکستان کے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘‘ (سفر نامہ ارض القرآن از محمد عاصم ‘ مطبوعہ: جنوری ۱۹۷۰ء ‘ صفحہ: ۲۰۹۔۲۱۲)
جس طرح مولانا مودودی نے کشمیر کا مسئلہ عرب دنیا میں اجاگر کیا‘ اگر ہمارے حکمران اور سفارت کار اس کا عشرعشیر بھی کرتے تو آج مسئلہ کشمیر دنیا کے نظروں سے یوں اوجھل نہ ہوتا۔ مولانا مودودی نے اپنی تقریر میں بھارت کی شاطرانہ سفارت کاری کا تذکرہ کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو کے دورۂ سعودی عرب کا ذکر کیا ہے۔ اس دورے میں سعودی حکومت نے نہرو جیسے سیاسی گرگ کو غیر جانبدار اور سلامتی کے علمبردار کا خطاب دیا۔ اس کے مقابلے میں ہماری سفارت کاری اور حکمرانوں کے دورے بغیر کسی تیاری اور منصوبہ بندی کے ہوتے رہے جس کی وجہ سے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی اپنا ہم نوا نہ بنا سکے۔ اگر آزادی کے فوراً بعد ہم کشمیر کو سرکاری سطح پر اہمیت دیتے اور کامیاب سفارت کاری کا کوئی منصوبہ روبہ عمل لاتے تو کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیاں آج انہیں منزل سے ہمکنار کر چکی ہوتیں۔
ہمارا یقین ہے کہ کشمیر انشاء اللہ ایک روز آزاد ہو گا۔ پاکستانی عوام پوری طرح کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ۵فروری یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جانا ایک سنگ میل ہے۔ اس کا تصور رہبر ملت قاضی حسین احمد مرحوم نے دیا تھا جسے پوری قوم اور حکومت نے اپنایا۔ یہ خوش آئند بات ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ سابقہ سے لے کر موجودہ تک‘ ہمارے حکمرانوں نے اس قومی ایشو پر کیا عملی خدمت سرانجام دی ہے؟کشمیری قوم اس کا جواب چاہتی ہے۔