یقین نہیں آرہا۔ایک ایسا شخص جو ملک کی منظم ترین اور نظم و ضبط کی پابند فورس کا سربراہ اورصدر مملکت کے منصب پر فائز رہ چکا ہو، وہ عدالت میں گرفتاری کا حکم سن کر، اپنی ہی ماتحتی میں رہی فورس کے ایک دستے کو بغاوت پر آمادہ کرے اوراپنے آپ کو قانون کے سپرد کرنے کی بجائے فرار ہو جائے۔شاید جنرل( ر) پرویز مشرف کو یہ احساس بھی نہ ہوکہ انہوں نے اپنی قوم، اپنے ادارے اور اپنے ملک کے قانون کا کتنا سنگدلانہ تمسخر اڑایا ہے۔عادی مجرم بھی ایسا کرنے سے ڈرتے ہیں۔انہیں بھی پتہ ہوتا ہے کہ قانون کو للکارکے کوئی اس کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتا اور ایسا کر کے وہ جس اخلاقی پستی کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کی وجہ سے معاشرہ ہی نہیں اسکے اہل خاندان بھی مذمت کئے بغیر نہیں رہ سکتے اور انکے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ ان سے تعلق رکھنے والے کسی فرد نے اس طرح کی غلط حرکت کی۔آج فوج بھی بحیثیت مجموعی احساس ندامت کا سامنا کر رہی ہو گی۔وہ تمام اراکین پارلیمنٹ جنہوں نے پرویز مشرف کو منصب صدارت پر قبول کیا وہ بھی خود پر ملامت کر رہے ہوںگے کہ ایسے قانون شکن شخص کو انہوں نے اپنی ریاست کا سربراہ بنایا۔ پاکستان میں ملک کے بے شمار اعلیٰ عہدیداروں کو ملکی قوانین کا سامنا کرنا پڑا ۔ا ن میں بہت سے بے گناہ بھی تھے لیکن اپنی بے گناہی کو عذر بنا کر کسی نے قانون شکنی کی جرأت نہیں کی کیونکہ ریاستی اداروں کے وقار اور قانون کا احترام کرنا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہوتاہے۔ ہمارے ہاں جمہوری اور آمرانہ ادوار میں ہر حکومت نے شہری آزادیوں کو مسخ کیا۔ بڑے بڑے وزراء اور اراکین پارلیمنٹ پر جھوٹے مقدمے بنائے گئے۔سیفٹی ایکٹ دفعہ3کے نام سے ایک کالا قانون عشروں تک پاکستان میں نافذرہا‘ جس کے تحت تین ماہ تک کسی کو بھی قید میں رکھا جا سکتا تھا اور تین ماہ پورے ہونے پر مزید تین ماہ کے احکامات آجاتے تھے اور اس طرح ایک امن، قانون پسند شہری کوبھی غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جا تا تھا۔میں بھی اس کالے قانون کا نشانہ بن چکا ہوں اورپہلے تین ماہ کی مدت پوری ہونے کے بعد دوسری مدت شروع ہو چکی تھی کہ عام رہائی کا اعلان ہو گیا اور مجھے آزادی نصیب ہوئی۔یہ تحریک ختم نبوت کا زمانہ تھا۔اس دوران ہزاروں نوجوانوں اور علماء کرام کو، ملک بھر کی جیلوں میں ڈالا گیا مگر قانون سے بھاگنے کی ایک بھی مثال سامنے نہیں آئی۔صرف مولانا عبدالستار نیازی روپوش ہوئے تھے لیکن انہو ں نے یہ روپوشی تحریک کو جاری رکھنے کیلئے اختیار کی تھی ۔ اس میں مولانا کی کوئی ذاتی غرض یا فائدہ نہیں تھا۔مختلف تحریکوں میں بھی سیاسی لیڈر اور کارکن پکڑے جاتے رہے مگر کوئی قانون سے بھاگنے کا مرتکب نہیں ہوا۔ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کیخلاف مجرمانہ انتقام کی مہم چلائی۔ پولیس کو احکامات تھے کہ بھٹو کے حامیوں کو ذلیل کر کے پکڑا جائے، انہیں جیلوں میں تکالیف دی جائیں۔ قیدیوں کے سامنے کھڑے کر کے کوڑے لگائے جائیں، انکی تذلیل کی جائے لیکن ظلم کی اس سیاہ رات میں بھی کسی سیاسی لیڈر اورکارکن نے قانون کو دھوکہ دے کر بچنے کی کوشش نہیں کی۔خود بھٹو صاحب بھی قانون پسندی کی ایک روشن مثال قائم کر کے گئے ہیں۔جب لاہور ہائیکورٹ میں انکی ضمانت ہوئی تو وہ کراچی چلے گئے تھے، انکے بے شمار حامیوں نے انہیں پاکستان سے فرار ہونے کا مشورہ دیا۔ کئی غیر ملکی سربراہان مملکت نے، انہیں دعوتیں دیں کہ وہ انکے مہمان بن کر پاکستان سے باہر آجائیں۔ خود میں لاہور سے کراچی جا کر انکی خدمت میں حاضر ہوا اور تنہائی میں درخواست کی کہ ضیاء الحق انہیں جان سے مارنے کی’’سپاری‘‘پکڑ چکا ہے۔ وہ انہیں کسی قیمت پر زندہ نہیں چھوڑے گا۔ آپ ضمانت پر رہائی کو غنیمت سمجھیں اور اسکا فائدہ اٹھا کر تب تک ملک سے باہر رہیں جب تک ضیاء الحق اقتدار سے باہر نہیں ہوتا۔بھٹو صاحب شاید اس قسم کے مشوروں سے تنگ آئے ہوئے تھے ، انہوں نے میرے چہرے پر نظر یں گاڑتے ہوئے پوچھا’’تم بھی مجھے یہی سمجھانے آئے ہو؟‘‘اوراسکے بعد انہوں نے اپنے عزم و ارادے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ میںنہیں چاہتا کہ تاریخ میں مجھے ایک بھگوڑے کی حیثیت سے یاد کیا جائے۔‘‘میں دل پر بوجھ لے کر واپس لاہور آگیا۔ضیاء الحق نے انکا مقدمہ تمام عدالتی مراحل کو رگیدتے ہوئے، سیدھا لاہور ہائیکورٹ میں لگا دیا اور مقدمہ سننے والے بنچ کی سربراہی مولوی مشتاق کو دے دی‘ جو ملازمت میں رعایت نہ ملنے پر بھٹو صاحب کے جانی دشمن بن گئے تھے اور انتقام کی آگ میں جل رہے تھے۔مولوی مشتاق نے بھٹو صاحب کی ہر طرح سے تذلیل کی اورانہیں سزائے موت سنا دی۔ بھٹو صاحب کا عوام میں مقبولیت کا یہ حال تھا کہ جیل سے لاہور ہائیکورٹ تک آتے جاتے وہ کسی وقت بھی فرار ہو سکتے تھے اور اپنے حامیوں کے سمندر میں روپوش ہو کر ملک سے نکل جانا انکے لئے مشکل نہ تھا مگر انہوں نے قانون توڑنے کے بارے میں کبھی سوچا تک بھی نہیں تھا۔انہیں اپنی حیثیت اور مقام کا علم تھا۔وہ ایک فخر مند پاکستانی تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ انکے کردار میں کسی بھی قسم کی خامی ریکارڈ پر آئے۔وہ پھانسی چڑھ گئے لیکن قانون سے بھاگنے کا خیال تک نہ کیا۔ خود پاک فوج کے درجنوں افسر اور جوان قانونی کارروائیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ قید میں رکھ کر مقدمات چلائے گئے، کڑی سے کڑی سزائیں دی گئیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی قانون کی خلاف ورزی کر کے، اپنی جان بچانے کی کوشش نہیں کی۔راجہ نادر پرویز جیسی کئی مثالیں موجود ہیں جو بھارت میں جنگی قیدیوں کے کیمپوں سے دشمن کے ہمہ وقت نگران فوجی پہرے داروں کو جُل دے کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے اور پھر دشمن کی سر زمین پر سفر کرتے ہوئے سیکڑوں میل دور آکر سرحد پار کی۔اس طرح کے فرار کو نہ صرف جائز بلکہ بہادرانہ اقدام تصور کیا جاتا ہے مگر اسی نادر پرویز پر، جب پاکستان میں بغاوت کا مقدمہ بنا تو اس نے بہادری سے قانونی کارروائی کا سامنا کیا اورا پنے وطن کی جیل سے بھاگنے کی ذرا کوشش نہیں کی۔یہی ایک فوجی کی شان ہے کہ وہ ڈسپلن کا پورا پابند ہوتا ہے اور قانون سے بھاگنا ڈسپلن توڑنے کی بدترین مثال ہوتی ہے۔آج راجہ نادر پرویز اور ان جیسے کئی دوسرے نازاں اور فخر مند فوجی عالم افسوس میں ہاتھ مل رہے ہوں گے کہ ایک ایسا شخص جو ملک کے منظم ترین ادارے کا سربراہ رہ چکا ہے‘ وہ عدالت میں گرفتاری کا حکم سن کرفرارہو گیا اور اس مجرمانہ فعل میں رینجرز کے ان معصوم جوانوں کو بھی قانون کا باغی بنا دیا‘ جنہوں نے کبھی ڈسپلن توڑنے کا تصور تک نہیں کیا ہو گا۔وہ صرف اپنے رینکس کی وجہ سے سابق چیف کا حکم ماننے پر مجبور ہوئے اور انہوں نے جو کچھ بھی کیا، وہ اپنے سابق کمانڈر کی وجہ سے کیا۔میں انہیں بے گناہ سمجھتا ہوں۔ ہر چند فوج ایسی باتوں کو برداشت نہیں کیا کرتی اور ہو سکتا ہے کہ رینجرز کے ان جوانوں کو بھی ضابطے کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑے مگر ان کی کوتاہی کا اصل ذمہ دار ،ان کا سابق چیف آف آرمی سٹاف ہے۔ جنرل( ر) پرویز مشرف کوسوچنا چاہیے تھا کہ ایک سابق سربراہِ مملکت کی حیثیت سے ان کے کیس پر عالمی میڈیا کی نظریں جمی تھیں ۔ تمام دنیا کے ٹی وی چینلز، ان کے مقدمے کی کارروائی دکھا رہے تھے۔ ان گنت کیمرے سارے مناظر لائیو دکھا رہے تھے اور تمام ٹی وی چینلز پر ضمانت منسوخ ہونے کے بعد، پرویز مشرف کو گرفتاری سے بچنے کی خاطر رینجرز کے حصار میں عدالت سے باہر نکلتے دیکھا گیا اور گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہونے تک ایک ایک لمحے کی فوٹیج چلائی جاتی رہی۔ہوسکتا ہے پاکستان میں جنرل (ر)پرویز مشرف کے کچھ حامی اور چاہنے والے بھی ہوں۔ ہر شخص کو ساتھ دینے والے کچھ نہ کچھ لوگ مل جاتے ہیں مگر جس طرح انہوں نے گرفتاری سے بچنے کیلئے فرار ہو نا پسند کیا‘ اسے دیکھنے کے بعدان کے حامیوں کے حوصلے بھی پست ہو جائیں گے۔دنیا میں کوئی شخص یا قوم اپنے لیڈر، سپہ سالار یا کسی اعلیٰ رتبے پر فائز رہنے والے شخص کو قانون سے بھاگنے والے بزدل کی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتی۔بھٹو صاحب نے ایک جھوٹے مقدمے میں، ججوں کے بد نیتی پر مبنی فیصلے کے باوجود قانون کا احترام کیا اور اپنی جان دے دی۔ وہ آج بھی ہیرو ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔پرویز مشرف اگر کسی کے ہیرو تھے تو آج راہ فرار اختیار کر کے انہوں نے اپنے آپ کو زیرو کر لیا۔اگر انہیں یہی کچھ کرنا تھا تو پاکستان میں واپس آنے کی کیا ضرور ت تھی؟جلا وطنی اتنی ذلت کا باعث نہیں ہوتی جتنی ذلت جنرل صاحب ،گرفتاری سے بھاگ کراٹھا رہے ہیں۔ اور اب ایک ایس ایم ایسTo give Pervez Musharraf some credit, at least he had an exit strategy this time around. Unlike Kargil.
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved