تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     06-02-2019

Legends of the Fall

پنجاب کے وزیرقانون راجہ بشارت کو پہلے ساہیوال ٹریجڈی پر بے گناہ انسانوں کے قتلِ عام کا دفاع اور اب راولپنڈی ہسپتال کے ڈاکٹر طارق نیازی کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے معطل کراتے ہوئے مجھے دو ہزار تین کے وہ عمران خان یاد آئے جو ق لیگ کے چوہدریوں کے خلاف پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں روز وہ فوٹو کاپیاں بانٹتے تھے جن میں یہ دکھایا گیا تھا کہ کیسے ان سب نے بینکوں سے بھاری قرضے معاف کرائے تھے۔ عمران خان انہی دنوں نئے نئے جنرل مشرف کو چھوڑ کر پارلیمنٹ پہنچے تھے۔ جنرل مشرف نے ایک چال چلی تھی جس کے مطابق انہوں نے ہر دوسرے سیاستدان کو وزیراعظم بننے کی گولی دے رکھی تھی۔ مجھے یاد ہے میں ان دنوں جس سیاستدان سے بھی ملتا وہ میرے کان میں یہ سرگوشی ضرور کرتا تھا کہ جنرل مشرف مجھے وزیراعظم بنا رہے ہیں۔ فلاں جنرل پیش کش لے کر میرے گھر آیا تھا‘ لیکن پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا ۔ میں نے دو تین کی بڑھکیں تو سن لیں پھر کہا: جان کی امان پائوں تو یہ بات مجھے اب تک دس لوگ بتا چکے ہیں کہ جنرل مشرف انہیں وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں‘ اگر وہ نواز شریف یا بینظیر بھٹو کا ساتھ چھوڑ دیں۔ وہ دراصل آپ لوگوں کی وفاداریاں خرید رہے ہیں‘ تاکہ آپ لوگ باہر نہ نکلیں اور اس امید پر گھر بیٹھے رہیں کہ بہت جلد جنرل مشرف آپ کو وزیراعظم بنا دے گا ۔ 
مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ جنرل مشرف دس لوگوں کو ایک ساتھ کیسے وزیراعظم بنائیں گے ؟ ان دنوں آپ کو یاد ہوگا عمران خان بھی امیدوار تھے‘فاروق لغاری ایم این اے کا الیکشن لڑ کر آگئے کہ مشرف انہیں وزیراعظم بنائے گا ‘ خورشید قصوری ‘ میاں اظہر‘ ہمایوں اختر‘ چوہدری نثار علی خان‘ اسحاق ڈار سب یہ دعوے کرتے تھے کہ انہیں وزیراعظم کی پیش کش ہے۔ عمران خان سے کہا گیا تھاکہ وہ چوہدریوں کے ساتھ بیٹھ کر اقتدار کی بندر بانٹ کر لیں ۔ عمران خان اس وقت ہمیں حیرانی سے بتاتے تھے کہ وہ کیسے ان چوہدریوں کے ساتھ اقتدار میں بیٹھ جائیں ‘ جن کی کرپشن وہ ایکسپوز کرتے رہے تھے۔ 
یوں عمران خان کی جنرل مشرف سے راہیں جدا ہونے کی وجہ چوہدری تھے‘ جس پر سب نے تالیاں بجائی تھیں ۔ آج وہی چوہدری عمران خان کے ساتھ ہیں اور پنجاب میں اقتدار انجوائے کررہے ہیں ۔ اب ان چوہدریوں نے دھیرے دھیرے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے ہیں ۔ کچھ عرصہ وہ نیچے لگے رہے‘ تاکہ کسی کو شک نہ گزرے کہ دوبارہ وہ پرانی کارروائیاں شروع کرنے لگے ہیں۔ اب جوں ہی پی ٹی آئی حکومت کا ہنی مون پیریڈ گزر گیا ہے تو چوہدری معاملات اپنے ہاتھ میں لینا شروع ہوگئے ہیں۔ پہلے انہوں نے اپنی مرضی کے پولیس اور ڈی ایم جی افسران ہر اہم علاقے میں لگوائے۔ بہاولپور میں اپنے قریبی ساتھی کی مرضی کا ریجنل پولیس افسر لگوا یا اور چوبیس گھنٹے پہلے وہاں پوسٹ ہونے والے پولیس افسر سہیل تاجک کو وہاں سے ہٹوا دیا ۔ اس طرح چوہدریوں نے ہر جگہ اپنے بندے فٹ کرا دیے‘ تاکہ ان کے وفادار ہر جگہ موجود رہیں اور پرانے دنوں کی طرح پنجاب کو اپنے قبضے میں کر کے پولیس‘ تھانے‘ کچہری کی سیاست کی جائے۔ 
اس دوران لگتا ہے پی ٹی آئی کہیں غائب ہوگئی ہے اور جن کے خلاف عمران خان بائیس سال تک جدوجہد کر رہے تھے وہی اقتدار میں آگئے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں اقتدار میں لانے والے اور کوئی نہیں عمران خان خود ہیں اور پنجاب میں بھی اعلیٰ عہدے انہوں نے جٹوں اور آرائیوںکو برادری کے کوٹے پر الاٹ کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان نے چوہدریوں کو گلے لگانا تھا اور پنجاب میں سب اقتدار ان کے حوالے کرنا تھا تو پھر پندرہ برس پہلے جب جنرل مشرف نے یہی پیشکش کی تھی تو اس میں کیا برائی تھی؟ اس وقت عمران خان کا رومانس اور آئیڈیلزم انہیں اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ چوہدریوں کو اپنے ساتھ ملا لیں یا ان کے ساتھ مل لیں تو آج کیسے وہی آئیڈیلزم کمپرومائز ہوگیا اور اب سب ٹرانسفر پوسٹنگ چوہدریوں کے کہنے پر ہورہی ہیں۔ 
وزیر اعظم عمران خان کو ووٹ اس لیے پنجاب میں پڑے تھے کہ یہاں کے لوگوں کو محسوس ہوتا تھا کہ ان کی پارٹی نے خیبر پختونخوا میں بڑی حد تک پولیس کو آزاد کر دیا تھا اور لوگوں کی زندگیاں کچھ بہتر ہوگئی تھیں۔ پنجاب میں برسوں سے سیاستدانوں نے بیوروکریسی کو اپنے ہاتھوں میں رکھ کر جس طرح لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی تھیں‘ اس سے یہ لوگ تنگ تھے اور ان کا خیال تھا کہ صرف عمران خان ہی وہ زنجیریں توڑ سکتے ہیں ۔ خود عمران خان بھی اپنی تقریروں میں تڑکا لگاتے تھے کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو نظام بدل دیں گے۔ اب پتہ چلا ہے کہ ان چوہدریوں‘ جٹوں اور آرائیوں نے عمران خان کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ وہی عمران خان اب کسی اچھے اور نیک نام افسر کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور وہ سب لوگ جنہوں نے کچھ سٹینڈ لینے کی کوشش کی تھی انہیں عبرتناک مثال بنا دیا گیا ہے۔ عمران خان کی زندگی کا مقصد صرف اپنے نام کے ساتھ وزیراعظم کا لقب لگوانا تھا اور پھر انہیں کسی چیز کی پروا نہیں رہی ۔ شاید کسی دن وہ سوچیں گے کہ جن کے خلاف وہ لڑتے رہے آخر پر انہیں ہی جوائن کر کے انہیں اقتدار واپس کر دیا اور پنجاب کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ 
وہی چوہدری‘ وہی راجہ بشارت اور وہی پرویز الٰہی جنہوں نے اب پنٖڈی ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر نیازی کو معطل کرنے کا لیٹر جاری کیا ۔ مجھے کل سے درجن بھر نیازی دوستوں کے واٹس ایپ مل چکے ہیں ‘جنہیں یقین نہیں آرہا کہ ایک نیازی ڈاکٹر کو راجہ بشارت نے معطل کرادیا ہے‘ جس کی عمران خان نے ہسپتال دورے پر تعریف کی تھی ۔ میرے ان نیازی بھائیوں کو پہلا بڑا جھٹکا لگا ہے کہ اس ملک میں سب کچھ ممکن ہے۔کچھ نہیں بدلے گا ۔ وہ مجھے کہہ رہے ہیں میں اس معاملے کو اٹھائوں۔ سوال یہ ہے کس کے سامنے اٹھائوں؟ پی ٹی آئی پنجاب حکومت کہتی ہے ان کا اس میں کوئی قصور نہیں‘ کیونکہ نواز لیگ کے چند ارکان نے پنجاب اسمبلی میں ایک تحریک پیش کی تھی کہ اس ایم ایس کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ اس نے ق لیگ کے وزیر کی بات نہیں مانی تھی ۔ اب ہاؤس کی کمیٹی نے سفارش کی کہ ایم ایس کو معطل کیا جائے۔ اب ق لیگ کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے خط لکھا دیا ہے اور وزیراعلیٰ نے معطل کر دیا ۔ 
مطلب یہ ہے کہ پنجاب میں افسران کے تبادلے نواز لیگ اور ق لیگ مل کر رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی صرف نواز لیگ اور ق لیگ کے ارکان کے احکامات پر عمل کررہی ہے۔ دراصل یہ بات نواز لیگ اور ق لیگ یا پی ٹی آئی کو بھی قابلِ قبول نہیں کہ افسران ان کے دور میں ان کاکوئی غلط کام کرنے سے انکاری ہوجائیں۔ ڈاکٹر نیازی کو اس لیے نشانِ عبرت بنایا گیا ہے تاکہ دوسرے افسران کو کان ہوجائیں ۔ اس سے پہلے بھی پی ٹی آئی حکومت یہ کام کرچکی ہے لیکن اس وقت زیادہ شور شرابہ نہ ہوا تھا‘ کیونکہ ایک تو حکومت نئی نئی تھی‘ لہٰذا کسی نے زیادہ توجہ نہ دی اور دوسرا برطرف ہونے والے افسران کے نام کے ساتھ نیازی نہ لگتا تھا ۔ اس لیے میرے نیازی دوست زیادہ ناراض ہیں کہ ان کے قبیلے کے ایک نیک نام ڈاکٹر نے سٹینڈ لے لیا تھا تو اسے کیوں سزا دی گئی ہے؟
دوسری طرف عمران خان بھی اس راستے پر گامزن ہیں جس پر کبھی شہباز شریف تھے۔ شہباز شریف ماڈل ٹائون پر مزاحمت کررہے تھے تو پی ٹی آئی نے ساہیوال قتل عام پر ان سے بھی بڑھ کر مزاحمت کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیروں نے جس طرح سانحہ ساہیوال پر سٹینڈ لیا اس پر دکھ ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک مرنے والے انسان نہیں تھے۔ بہرحال اپنے نام کے ساتھ عمران خان نے وزیراعظم تو لکھوا لیا‘ لیکن تاریخ انہیں کس طرح کے وزیراعظم سے یاد رکھے گی‘ وہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ ہم تو اتنا کہہ سکتے ہیںکہ جس عمران خان نے چار حلقے کھلوانے اور ایک عدالتی کمیشن بنوانے کے لیے 126 دن دھرنا دیا تھا‘ جن میں دس لوگ مارے گئے‘ سینکڑوں زحمی ہوئے تھے‘ اب انہی کے دور میں ساہیوال میں چار لوگ بے رحمانہ انداز میں ماردیے گئے ہیں اور وہی عمران خان ایک عدالتی کمیشن بنانے کے لیے تیار نہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved