تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     06-02-2019

سیاحت

یہ بات ماننا ہوگی کہ دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پالینے کے بعد ہم پاکستانیوں کی خواہشات بھی انگڑائیاں لیتی ہوئی جاگنے لگی ہیں۔اب ہم یہ خواب بھی دیکھ رہے ہیںکہ پاکستان کو دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پرکشش بنایا جائے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی طرح یہاں بھی چار دانگِ عالم سے طیارے اتریں اور اس کرّۂ ارض کے ہر گوشے سے لوگ ہماری میزبانی سے لطف اندوز ہوں۔ اگرچہ ملک میں امن و امان کی کیفیت ہرگز قابل رشک نہیں لیکن اتنی ٹھیک ہے کہ ہم اپنے دروازے دنیا کے لوگوں پر کھول دیں‘ جن پر کچھ ہی عرصہ پہلے چودھری نثار علی خان نے وزیرداخلہ کی حیثیت سے خود ہی تالا ڈال دیا تھاکیونکہ انہی دروازوں سے ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ دندناتے ہوئے ہمارے ملک میںچلے آتے تھے۔جب احسن اقبال نے شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزارت داخلہ سنبھالی تو انہوں نے ویزے کی پابندیاں نرم کرنے کی کوشش کی مگر یہ وہ دن تھے جب پاکستان کے اُفق پر مولانا خادم حسین رضوی منڈلا رہے تھے۔ اس دھندلکے میں احسن اقبال کا یہ اقدام بارآور ثابت نہ ہوسکا۔ اب جبکہ مولانا خادم حسین رضوی ڈھل چکے ہیں تو تحریک انصاف کی حکومت نے دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ویزے کی پابندیاں نرم کر دیں ہیں۔اس امید پر کہ نگر نگر کے سیاح پاکستان آئیں‘ وہ ہمیں دیکھیں‘ ہم انہیں دیکھیں اور عین ممکن ہے دونوں ہی کچھ نہ کچھ سیکھ جائیں۔ 
غیر ملکیوں کے لیے پاکستان آنے کے لیے ویزے کی شرائط نرم کرنا سیاحت کے فروغ کے لیے پہلا قدم ہے۔سیاح واقعی یہاں آنے لگیں‘ اس کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ صرف ویزے کی آسانی سے دلفریب مناظر اور تاریخی مقامات دیکھنے کے لیے سیاح کھنچے نہیں چلے آتے۔ جدید دنیا میں اب سیاحت ایک صنعت بن چکی ہے‘ اس کے لیے معاشرے کو اس قابل بنانا پڑتا ہے کہ وہ غیر ملکوں سے آئے لوگوں کو ان کی مرضی کے مطابق وقت گزارنے میں معاون ثابت ہو۔ اگر آسان ویزا اور قدرتی مناظر ہی سب کچھ ہوتے تو پاکستان انیس سو نوے کی دہائی میں ہی سیاحت کی فہرست میں اپنا مقام بنا لیتا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ اگر کوئی چاہتا تو بغیر ویزے کے بھی پاکستان چلا آتا تھا ‘لیکن اس وقت بھی ہمارے ہاں سیاحوں کی سالانہ تعداد سات آٹھ لاکھ سے نہیں بڑھی اور دوہزار سترہ میں جب پاکستان کا ویزا حاصل کرنا نسبتاً مشکل تھا تو یہ تعداد سترہ لاکھ رہی کیونکہ انٹرنیٹ کی بدولت دنیا نے پاکستان کو دریافت کرلیا تھا ۔ ان سیاحوں نے پاکستان آکرپینتیس کروڑ ڈالر خرچ کیے جو ہمارے جی ڈی پی کا صرف ڈھائی فیصد ہے۔ سیاحوں کی یہ تعداد اور ان کی خرچ کردہ رقم پاکستان جیسے ملک کے لیے کچھ بھی نہیں۔ ترکی کی مثال ہی لے لیجیے‘ وہاں ایک سال میں چار کروڑ لوگ صرف سیاحت کے لیے آئے اورہمارے برادر ملک نے ان سے بائیس ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ حاصل کیا یعنی ہماری سالانہ برآمدات کے برابر۔ پاکستان کے مقابلے میںترکی کے پاس مناظر کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں البتہ وہاں کے معاشرے میں سیاحوں کو اپنی مرضی سے وقت گزارنے کی اجازت ضرور مل جاتی ہے۔ اگر کوئی قونیہ میں مولانا روم کے مزار پر حاضری دینا چاہے تو اس کی مرضی‘ کسی کو نیلی مسجد میں نماز پڑھنی ہے تو خوب اور کسی کو تفریح گاہوں کا رخ کرنا ہے تو خوش آمدید ۔ ترکی معاشرے کی یہ وسعت اس کے مسلم مزاج کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ ہوچکی ہے کہ اقبال کے مردمومن کے پیمانے پر پورے اترنے والے رجب طیب اردگان بھی ہماری طرح سوچ سوچ کر پریشان نہیں ہوتے کیونکہ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ ہر سال معیشت میں آنے والے یہ بائیس ارب ڈالر لاکھوں لوگوں کے لیے روزگار پیدا کررہے ہیں۔ 
سیاحت کتنا بڑا کاروبار ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ فرانس میں ہر سال دنیا بھر سے ساڑھے آٹھ کروڑ سیاح آتے ہیں جہاں دکھانے کے لیے مصوری کے چند نمونے ہیں اور فولاد کا ڈھیر آئفل ٹاور۔ سپین میں آٹھ کروڑ لوگ آتے ہیں اور ان دونوں ملکوں میں ایک سو تیس ارب ڈالر اڑا کر چلے جاتے ہیں۔ امریکہ ہر سال سات کروڑ لوگوں کی میزبانی کرتا ہے اور اس کے عوض ڈھائی سو ارب ڈالر جھاڑ لیتا ہے۔ برطانیہ جانے والے آج بھی ہر سال اکاون ارب ڈالر کا خراج دے کرآتے ہیں ۔ اٹلی دیکھنے کے لیے جانے والے چوالیس ارب ڈالر لٹا کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہیںجہاں لطف اندوزی کا واحد ذریعہ ذرا سی آزادی ہے۔ اور اس ذرا سی آزادی کی سب سے بڑے خریدار ہمارے دوست چینی ہیں جو ہر سال ڈھائی سو ارب ڈالر سیرو سیاحت پر خرچ کرڈالتے ہیں ۔ ذرا تصور کریں کہ ہمارے چینی دوست اپنے سیاحتی اخراجات کا صرف دس فیصد ہمارے ملک میں خرچ کریں تو یہ پچیس ارب ڈالر بنتا ہے۔پاکستانی معیشت میں اگرہر سال پچیس ارب ڈالر آنے لگیں تو ہمارے کتنے دلدر دور ہوجائیں۔ ماضی کی طرح اگر متحدہ عرب امارات ‘ قطر اور سعودی عرب کے برادرانِ اسلام کو ہی وہ سہولیات دے دیں جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں یہاں ہر کسی کو دستیاب تھیں توچار پانچ ارب ڈالر آرام سے مل جایا کریں گے۔ 
مغرب کو چھوڑیے اپنے برادر اسلامی ملک متحدہ عرب امارات کو لیجیے جہاں موسم ہے نہ کوئی پہاڑ‘ خیابان ہے نہ کوئی گلزار‘ بس تھوڑی سی وہ آزادی ہے جو پاکستان میں نہیں۔ اس ملک کے حکمرانوں نے خوب سوچ سمجھ کر اپنے معاشرے کو اس طرح بدلا کہ آج دنیا بھر کے لوگ یہاں خو ش وقتی کے لیے کھنچے چلے آتے ہیں۔ پچھلے سال ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے اس بے آب و گیاہ صحرائی ملک میں قدم رنجہ فرمایا اور اکیس ارب ڈالر دے کر چلے گئے۔ گویا ہر شخص جو یہاں آیا اپنی جیب سے پندرہ سوڈالر دے کر گیا۔ جبکہ ہمارے ملک میں باہر سے جو بھی آیا وہ صرف دو سو ڈالر خرچ کرکے گیا۔ وجہ وہی ہماری خود ساختہ اخلاقیات جو ہر کسی سے جینے کا حق چھین لینے کوبے چین رہتی ہے۔ یہاں آنے والا اگر خرچ کرے بھی تو کہاں؟ ہر سڑک کے ہر موڑپر کھڑے گداگروں کو دینے کے لیے تو کوئی یہاں آنے سے رہا۔ جو آئے گا اس کی خواہش ہو گئی کہ ڈھلتے ہوئے سورج کی روشنی میںاپنے دوستوں کے ساتھ دریائے سندھ اور دریائے کابل کے ملاپ کا منظر دیکھے۔ کوئی چاہے گا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دریاکے کنارے بیٹھ کر سرائیکی گیت سنے اور اس کیف آور فضا کو قانون کا کوئی رکھوالا برباد نہ کردے۔آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں لسڈنہ کے خوبصورت پہاڑ ی ریسٹ ہاؤس کے لان میں بیٹھ کر اگر کوئی کسی کے ساتھ بیٹھ کر آسمان پر چمکتے تاروں کا حساب کرنا چاہے تو کوئی اس میں دخل نہ دے۔ کسی نے کراچی کے ساحل سے ذرا ہٹ کر چھوٹی سی کشتی میں اپنی محفل سجانی ہوتو کوئی اسے نہ روکے۔
معاشیات کا اصول ہے کہ دنیا بنی بنائی منڈی میں آتی ہے۔ جمے ہوئے بازار میں باہر سے بھی لوگ چلے آتے ہیں۔ کسی چٹیل میدان میں بازار کا جھانسہ دے کر آپ کسی کو نہیں لا سکتے۔ اگر حکومت کو پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینا ہے تو پھر اسے پہلے اپنے لوگوں کو وہ کراچی دینا ہوگا جہاں زندگی کی سبھی رنگینیاں ہوا کرتی تھیں‘ وہی لاہور دینا ہوگا جو کبھی ہوا کرتا تھا‘ وہی رواداری اور برداشت پیدا کرنا ہوگی جو کبھی پاکستان کا خاصہ تھی۔ جب پاکستان کے اپنے لوگ اس آزادی سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے جو ترکی اور دبئی میں میسر ہے تو پھر دوسرے ملکوں سے بھی لوگ دوڑے چلے آئیں گے۔ یہاں کے پہاڑ بھی قابل دید ہوجائیں گے‘ دریا بھی اور سمندر بھی۔ اگر ہم نے ہمت کرکے سوچ ہی لیا ہے کہ سیاحت کو پاکستانیوں کے روزگار کا ایک ذریعہ بنانا ہے تو پھر زیادہ سوچ بچار کی بجائے دبئی اور ترکی کے ماڈل اپنا لیں۔ سیاحت بھی چل نکلے گی اور معیشت بھی۔ ہو سکتا ہے باہر سے آنے والے کچھ ایسے خیالات بھی اپنے ساتھ لے آئیں ‘جو لایعنی تصورات میں گرفتار اس معاشرے کو فطری انداز میں پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کردیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved