بھارت میں عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں‘ مودی کی بوکھلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس بوکھلاہٹ کی ایک بڑی وجہ مودی سرکار کے خلاف عوام کابڑھتا ہوا غم وغصہ ہے۔ سروے رپورٹوں اور عوامی رجحانات کے تجزیے سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ مودی کا دوبارہ برسر اقتدار آنا آسان نہیں ہو گا۔ ناراضی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی اور خاص طور پر مودی نے عوام سے جو ''آسمانی وعدے ‘‘کئے تھے‘ وہ پورے نہیں ہوئے ۔ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی کسی بھی قیمت پر الیکشن جیتنا چاہتی ہے‘ اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے؟ چاہے اس کے لئے اسے عوام سے لبھانے والے دعوے کرنا پڑیں یا پھر ان سیاسی حریفوں کے خلاف محاذ کھول دینا پڑے‘ جن سے حکومت کو خطرہ ہے۔جب یو پی میں ایس پی اور بی ایس پی نے انتخابی اتحاد کیا اور یہ بات کہی جانے لگی کہ اب یو پی میں بی جے پی کو نقصان اٹھانا پڑے گا ‘تو اکھلیش یادو کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا۔ اس سے قبل جب ریاستی انتخابات کے دوران بی ایس پی اور کانگرس میں مفاہمت ہونے والی تھی تو اس وقت مایا وتی کی فائلیں کھولنے کی بازگشت سنائی دی تھی۔
دوسری طرف اپوزیشن کی جانب سے بی جے پی کے خلاف ‘جس بڑے اتحاد کی بات کی جا رہی تھی‘ وہ ابھی تک نہیں بن سکا ‘لیکن مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی جارحانہ انداز میں حکومت کے خلاف سامنے آگئی ہیں۔ انہوں نے کولکتہ میں اپوزیشن پارٹیوں کی ایک زبردست ریلی نکالی اوراپنی دھواں دھار تقریر میں کہا کہ ''مودی سرکار کی ایکسپائری ڈیٹ نکل گئی ہے‘‘۔ریلی میں شریک لیڈروں نے یہ پیش گوئی کی اب مودی سرکار کو جانا ہے۔ اس پر بی جے پی کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس سے قبل مودی حکومت نے کوشش کی تھی کہ وہ ممتا کو این ڈی اے میں شامل کر لے‘ تاکہ ناکامی سے بچ سکے۔دراصل ممتا بینر جی نے جو سیاست شر وع کی ہے‘ اس سے سیاسی حلقوںمیںچہ میگوئیاں ہونے لگی ہیں کہ وہ وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ بینر جی ایک جنگجو لیڈر ہیں۔ وہ جب کوئی مہم شروع کر لیتی ہیں ‘ تواسے سر کرنے تک‘ چین سے نہیں بیٹھتیں۔اسی لئے مودی کو ان سے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔
ممتا بینر جی کے خلاف مودی سرکار کی جارحانہ کارروائیوں کا ایک اور سبب بھی ہے۔ چونکہ شمالی ہند میں بی جے پی کو زبردست نقصان کا اندیشہ ہے‘ اس لئے وہ اپنے لیے مغربی بنگال میں زمین تلاش کر رہی ہے۔ بی جے پی کا صدر امیت شاہ ہو یا دوسرے لیڈر‘ سب سمجھنے لگے ہیں کہ اگر وہ کوشش کریں تو مغربی بنگال میں ان کی پارٹی اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔ اسی لئے مختلف حربوں سے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔کولکتہ کے پولیس کمیشنر راجیو کمار‘ ممتا کے قریبی ساتھی ہیں۔ ممتا نے ایک بیان میں ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دنیا کے چند بہترین پولیس افسروں میں سے ایک ہیں ۔ مودی کے خیال میں راجیو کمار‘ ممتا بینر جی کی دکھتی رگ ہیں‘ اس لئے حکومت نے اسی رگ پر چوٹ لگانے کا فیصلہ کر لیا ۔ شاردا فنڈ کیس کی تفتیش کے لئے سپریم کورٹ کے حکم پر جو ایس آئی ٹی بنی تھی‘ راجیو کمار اس کے سربراہ تھے۔ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بہت سے شواہد ہیں‘ جن سے ذمہ داروں کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے2016ء میں اس معاملے کی تفتیش کا حکم دیا تھا‘ لیکن سی بی آئی نے اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ اب اچانک ایکشن لے لیا۔ یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ ایک روز قبل ہی مودی نے مغربی بنگال میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شاردا کا ذکر کیا اور کہا تھا کہ کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔پھر کیا تھا ؟ حکومت کو لگا کہ لوہا گرم‘ اس پر چوٹ مار دینی چاہئے‘ لیکن اس ضرب سے ممتا کو کم ‘خود حکومت کو زیادہ چوٹ لگ گئی۔ ہوا یوں کہ سی بی آئی کے چالیس اہلکار اچانک کولکتہ پہنچ گئے۔انہوں نے راجیو کمار کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی‘ لیکن پولیس نے ان لوگوں کو روک دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں‘ بلکہ سی بی آئی کے کئی اہلکاروں کو حراست میں بھی لے لیا اور کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا ‘لیکن اس کارروائی سے پورے بھارت میں کھلبلی مچ گئی۔ بی جے پی اور مودی سرکار کی جانب سے جہاں اس ایکشن کی تائید کی گئی‘ وہیں اپوزیشن اور غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے مخالفت کی۔ بتایا جاتا ہے کہ سی بی آئی نے اس معاملے میں ضابطے کی خانہ پری بھی نہیں کی ۔ ضابطے کے مطابق ‘اگر سی بی آئی اہلکار‘ کسی ریاست میں جا کر کارروائی کرتے ہیں تو انہیں مذکورہ ریاست کی حکومت اور پولیس کو اعتمادمیں لینا پڑتا ہے‘ لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا۔
جس دن یہ کارروائی کی گئی‘ وہ سی بی آئی کے کارگزار ڈائریکٹر کا آخری دن تھا۔ حقیقی ڈائریکٹر کو عہدے کا چارج سنبھالنا تھا‘ اس لئے اس معاملے میںبہت سے شبہات پیدا ہو رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کیا جلد تھی کہ ایک دو روز انتظار بھی نہ کیا جا سکا؟کیا راجیو کمار بھارت سے بھاگ رہا تھا ؟یا پھر شاردا فنڈ بد عنوانی کا معاملہ ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا؟ سی بی آئی کے لئے اور خود بھارت کی مرکزی حکومت کے لئے یہ کتنی شرم ناک بات ہے کہ سی بی آئی اہلکاروں کو ایک ریاست کی پولیس گرفتار کر لے؟ اس سے سی بی آئی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ اس کارروائی کو مودی سرکار کا انتقام کہا جا رہا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے اس کیس میں بی جے پی کے کئی رہنمائوں کو ملزم بنایا گیا تھا‘ جن میں ٹی ایم سی کے سابق نائب صدر مکل رائے بھی شامل ہیں۔ وہ جب ٹی ایم سی میں تھے تو ان سے تفتیش کی جا رہی تھی‘ لیکن اب جب بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں تو انہیںفری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔
سی بی آئی کی اس کارروائی نے حزب ِاختلاف کو متحد ہونے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے۔ ممتا بینر جی کی ریلی میں جن لیڈروں نے شرکت کی تھی‘ بیشتر نے ان کی حمایت کی تھی۔یہ جنگ بی جے پی کے لئے جینے مرنے کی جنگ بن چکی ہے۔ بی جے پی شمال مشرقی ریاستوں میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے‘ جس کے تحت اس نے مغربی بنگال کو بھی اپنی جدو جہد کا مرکز بنا لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی بنگال سے کمیونسٹوں کے صفایا کے بعد اپوزیشن کی زمین خالی ہے۔ بایاں محاذ اب دوبارہ ابھر کر سیاسی منظر پر آنے سے رہا‘ اس لئے بی جے پی کو لگتا ہے کہ اس کے لئے وہاں زمین تلاش کرنا آسان ہے ‘لیکن ریاست کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بی جے پی خام خیالی میں مبتلا ہے۔ مغربی بنگال میں وہ جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ممتا کی گرفت مضبوط ہے‘ لیکن وہ اتنی جلدی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کانگرس کی کوئی خاص جگہ نہیں ہے۔ بایاں بازو کمزور ہو چکا ہے‘ اس لئے دایا ں بازو اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ بہر حال یہ جنگ اب مرکز اور ریاست کی جنگ سے بڑھ کر مودی اور ممتا کی جنگ بن چکی ہے۔ اس جنگ کا کیا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا تعین وقت ہی کرے گا؟