تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     07-02-2019

اگر میں ریاست ہوتا!

اگر میں ریاست ہوتا تو پاکستان کی تاریخ وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔
اگر میں ریاست ہوتا تو سب سے پہلے ایک دستور بناتا اور اس کے معاملات عوام کے حوالے کر دیتا۔ دستور وہ ہے جس کا وعدہ قائد اعظم نے دستور ساز اسمبلی کے خطاب میں کیا‘ اور جس کی فکری و عملی بنیادیں اپنی 11 اگست1947ء کی تقریر میں رکھ دیں۔ میرا احساس ہے کہ اس کے نتیجے میں میرا ماضی میرے حال سے ہم آہنگ ہو جاتا۔ ریاست کی نظریاتی ساخت کے بارے میں جو بحثیں آج جاری ہیں کب کی ختم ہو چکی ہوتیں۔
میں اگر ریاست ہوتا تو بنگلہ کو پاکستان کی قومی زبان قرار دے دیتا۔ ایک ریاست کی دو قومی زبانیں ہو سکتیں ہیں‘ اور یہ کوئی انہونی بات نہ ہوتی۔ بنگلہ پاکستان کی سب سے بڑی علاقائی وحدت کی زبان تھی۔ بنگالی تحریکِ پاکستان کے روحِ رواں تھے۔ پاکستان میں ان کی یہ حیثیت برقرار رہتی۔ میں مذہبی اقلیتوں کو بھی احساس دلاتا کہ پاکستان کی مسلم اکثریت ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرے گی جو متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت نے مسلم اقلیت کے ساتھ روا رکھا۔
اگر میں ریاست ہوتا تو ملک کی تاریخ میں 16 دسمبر 1971ء کا دن کبھی نہ آتا۔ حالات کبھی اس نہج تک نہ پہنچتے کہ مشرقی پاکستان میں مرکز گریز جذبات پیدا ہوتے۔ میں انتخابی نتائج تسلیم کرتے ہوئے اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کر دیتا۔ میں کبھی پنجاب یا مغربی پاکستان میں برتری کی کسی نفسیات کو پنپنے نہ دیتا۔ میں ان بنگالی راہنمائوں کے خیالات کو پیشِ نظر رکھتا جو وہ متحدہ پاکستان کی اسمبلیوں میں پیش کرتے رہے۔ میں وطن کے ساتھ ان کی محبت کا ہمیشہ احترام کرتا۔ احترام کیا کرتا پھر ' میں‘ بھی بنگالی ہی ہوتا اور بنگالی پاکستانی۔
اگر میں ریاست ہوتا تو ملک میں کبھی مارشل لا نہ آتا۔ قائد اعظم کے وہ فرامین آئین کا مقدمہ بنتے جن میں انہوں نے سول اور عسکری بیوروکریسی کے لیے راہنما اصول بتائے ہیں۔ اگر ان کو مان لیا جاتا تو مارشل لا کا امکان ہی ختم ہو جاتا۔ آج جمہوریت کی بات ہوتی ہے تو لوگ نہرو کا حوالہ دیتے ہیں۔ پھر دنیا میرا حوالہ دیتی۔ لوگ کہتے ''جمہوریت دیکھنی ہے تو پاکستان میں دیکھو‘‘۔
اگر میں ریاست ہوتا تو بلوچستان میں کبھی فوجی آپریشن نہ ہوتا۔ اپنے ہی شہریوں کے خلاف فوجی آپریشن کیسا؟ اپنوں سے تو بات ہوتی ہے۔ ان کی شکایات کا ازلہ ہوتا ہے۔ بھائیوں میں اختلاف ہو جائے تو کیا بندوق اٹھا لینی چاہیے؟ رہے فسادی تو میں ان کے خلاف قانون کی مدد لیتا۔ پاکستان کے قانون میں اتنی جان ہے کہ وہ ریاست کے خلاف اٹھنے والے قدم روک سکتا ہے۔ اگر کسی کے خلاف مقدمہ ضروری ہوتا تو یہ کھلی عدالت میں چلتا۔ 
اگر میں ریاست ہوتا تو پاک فوج کو کبھی متنازعہ نہ بنانے دیتا؟ کون بد بخت پاکستانی ہو گا جو میجر عبدالعزیز بھٹی جیسے جاں بازوں سے محبت کے علاوہ بھی کوئی رشتہ رکھ سکتا ہے؟ کون بے حس ہو گا جسے راشد منہاس جیسے جواں سال یاد نہ آتے ہوں؟ ان جیسوں سے محبت تو میرے لہو میں ہے لیکن جنرل یحییٰ خان؟ کیا میں انہیں بھی اس فہرست میں شامل کر سکتا ہوں‘ جن سے میں محبت کرتا ہوں؟ 
سچ یہ ہے کہ انہوں نے بڑا ظلم کیا جنہوں نے فوج کو متنازعہ بنایا۔ جنہوں نے کبھی فوج کو سیاسی جماعت بنا کر بنگالیوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ کبھی اسے سندھیوں کا سیاسی حریف بنانے کی کوشش کی۔ جنہوں نے کبھی بلوچستان میں فوج کے خلاف نفرت کے بیج بوئے۔ میں اگر ریاست ہوتا کبھی اس کی نوبت نہ آتی۔ فوج اور عوام کے مابین صرف ایک رشتہ ہو سکتا ہے اور وہ ہے محبت! میں اس رشتے کو کبھی پامال نہ ہونے دیتا۔ فوج اسی وقت متنازعہ بنتی ہے‘ جب سیاسی عمل میں شامل ہوتی ہے۔
اگر میں ریاست ہوتا تو میڈیا صوبوں اور مرکز کے درمیان موثر رابطے کا ذریعہ بنتا۔ صرف آزاد میڈیا ہی یہ کام کر سکتا ہے۔ میڈیا آزاد ہوتا تو مغربی پاکستان کے عوام کو معلوم ہوتا کہ ان کے بنگالی بھائیوں کا دکھ کیا ہے؟ دونوں کے مابین لا تعلقی کا رشتہ قائم نہ ہوتا۔ پھر مغربی پاکستان کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو وہاں تک نہ جاتی، محبت اور ہمدردی کی مہک جاتی۔ پھر فاصلے نہ پیدا ہوتے۔ بنگالیوں کا دکھ اگر پنجابیوں کا دکھ بن جاتا تو کون مائی کا لال انہیں الگ کر سکتا تھا؟
اگر میں ریاست ہوتا تو ملک میں مذہبی انتہا پسندی ہرگز نہ ہوتی۔ مذہب معاشرے میں ایک توانا قوت ہوتا جو فرد کو پاکیزہ بناتا اور ریاست کی بھی اصلاح کرتا۔ آج ریاست 'پیغامِ پاکستان‘ کی صورت میں پوری قوم کو متوجہ کر رہی ہے کہ جہاد ریاست کا کام ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ اپنی تنظیم بنائے ا ور جہاد کا عَلم اٹھا لے۔ میں ابتدا ہی میں اسے ریاست کی حکمتِ عملی کا حصہ بناتا جب 1948ء میں مولانا مودودی جیسے علما اس جانب متوجہ کر رہے تھے کہ جہاد ریاست کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ 'پیغامِ پاکستان‘ اعلان کر رہا ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی تکفیر علما کا کام نہیں۔ میں اسے بھی دستور کا حصہ بنا دیتا۔
اگر میں ریاست ہوتا تو پاکستان میں فرقہ واریت بھی نہ ہوتی۔ مسلکی تقسیم اور فرقہ بندی میں فرق ہے۔ نصوص کی تفہیم اور استنباطِ احکام میں ایک سے زیادہ آرا کا قائم ہونا فطری ہے۔ یہ ایک علمی سرگرمی ہے جس سے فکری وسعت پیدا ہوتی ہے۔ فرقہ واریت ایک مختلف سماجی عمل ہے۔ یہ مسلکی یا مذہبی گروہ بندی کا عنوان ہے جو مفادات سے جنم لیتی ہے۔ جب لوگ مسلک یا مذہبی شناخت کو اپنے دنیاوی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں تو فرقہ واریت جنم لیتی ہے جو معاشرے کو برباد کر دیتی ہے۔ ریاست بھی کبھی انہیں اپنے تئیں قومی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس سے سماجی فساد جنم لیتا ہے۔
میں اگر ریاست ہوتا تو دعوے سے کہتا ہوں کہ پاکستان میں پی ٹی ایم نام کی کوئی تنظیم نہ ہوتی۔ اگر ہوتی بھی تو ریاست کے ساتھ کسی تصادم کا کوئی امکان نہ ہوتا۔ اگر کوئی پاکستان کے آئین کو مانتا ہو اور مطالبات کے لیے عدم تشدد کو بطور حکمتِ عملی اختیار کرتا ہو تو اس سے تصادم کیوں؟ میرا دل تو اتنا بڑا ہے کہ اس میں ہر اس شہری کے لیے جگہ ہے جو میرے آئین کا احترام کرتا ہے۔ اگر کوئی نوجوانی کے جوش میں سخت بات کہہ دیتا تو میں پھر بھی اس کو اپنے قریب رکھتا۔ بچے غلطیاں کریں تو بڑے انہیں سمجھاتے ہیں۔ بات بات پر لاٹھی نہیں اٹھا لیتے۔ رہا حدود سے تجاوز تو میں اسے انفرادی مسئلے کے طور پر دیکھتا اور قانون کی مدد لیتا۔ 
میں ریاست کی قوت سے واقف ہوتا اور اس بات سے بھی کہ یہ قوت استعمال نہیں ہونی چاہیے، اس کا رعب قائم رہنا چاہیے۔ ریاست کے خلاف جی ایم سید سے زیادہ سخت بات شاید ہی کسی نے کہی ہو۔ ریاست نے ان کے خلاف طاقت نہیں، حکمت سے کام لیا۔ آج سید صاحب کی فکر قصہ پارینہ ہے۔ یہ پھر زندہ ہو جائے گی‘ اگر ریاست گل دستے کے بجائے بندوق اٹھا لے۔
اگر میں ریاست ہوتا تو پاکستان میں غدار نہ ہوتے۔ ریاست کی پالیسیوں سے اختلاف ہر شہری کا آئینی اور اخلاقی حق تسلیم کیا جاتا۔ اختلاف کی بنیاد پر کسی کو غدار کہنا جرم ہوتا۔ قومی مفاد کی وہی تعبیر قابل قبول ہوتی جسے عقلِ عام تسلیم کرتی ہے۔ اگر کوئی پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرتے پایا جاتا تو پاکستان کی عدالتیں، اس سے اچھی طرح نمٹ لیتیں۔ یوں معاشرے میں کوئی غدار نہ ہوتا۔
اگر میں ریاست ہوتا تو پختون، پنجابی، بلوچی، سندھی‘ کشمیری، یہ سب تہذیبی شناختیں تو ہوتیں، سیاسی عصبیت کا عنوان نہ ہوتیں۔ سب کی نمائندگی قومی سیاسی جماعتیں کرتیں جن کو میں مضبوط بناتا۔ یہ جماعتیں ہی مضبوط وفاق کی علامت ہوتی ہیں۔
اگر میں ریاست ہوتا تو...! اس جملے میں 'میں‘ سے مراد 'آپ‘ ہیں۔ ہم سب جو پاکستان کے عوام ہیں۔ اور ہاں! اس جملے میں سب سے اہم 'اگر‘ ہے۔ کاش یہ 'اگر‘ جملے کا حصہ نہ ہوتا۔ یہ 'اگر‘ معلوم نہیں کب تک ہمارے قومی وجود سے لپٹا رہے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved