تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-02-2019

خطرہ باہر سے نہیں، اندر سے ہے!

بابا گوربچن سنگھ اپنی لندن کی یادداشتیں دہراتے ہوئے ایک قصہ سنا رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے سامعین سے چار پانچ بار پوچھا: بھلا لدھیانے میں کبھی ایسا ہوتا ہے؟ سب سامعین نے ایک زبان ہو کر جواب دیا: ہرگز نہیں۔ آخر میں قصہ سناتے ہوئے بابا گوربچن سنگھ ایک مرحلے پر آ کر رک گئے۔ متجسس سامعین میں سے ایک شخص نے پوچھا: بابا جی! آگے کیا ہوا؟ بابا گوربچن سنگھ نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا: کاکا! آگے وہی ہوا جو لدھیانے میں ہوتا ہے۔
ادھر یہ عالم ہے کہ اگر کسی سے بھی کسی نئے وقوع پذیر ہونے والے واقعے کے بارے میں سوال کریں کہ بھلا ایسا ''پرانے پاکستان‘‘ میں کبھی ہوا تھا؟ تو جواب ملتا ہے: بالکل‘ یہی کچھ پرانے پاکستان میں ہوتا تھا جو اب نئے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ تو بھلا پھر اس نئے اور پرانے پاکستان میں کیا فرق ہے؟ گزشتہ سے پیوستہ روز برادر عزیز رئوف کلاسرا نے بے نظیر بھٹو ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ طارق مسعود نیازی بارے کالم لکھتے ہوئے بتایا کہ اس ایماندار اور اپ رائٹ ڈاکٹر کی معطلی پر تمام نیازی حیران، ششدر اور ناراض ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ڈاکٹر طارق مسعود نیازی کی معطلی پر حیران، ششدر، پریشان اور ناراض ہونے والوں کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور یہ صرف نیازیوں پر موقوف نہیں، ہر اس پاکستانی پر بیت رہی ہے جو نئے پاکستان میں میرٹ، ایمانداری، ایک نمبری اور عدل و انصاف کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔ یہ عاجز نیازیوں سے کوسوں دور ہے لیکن اس غم اور افسوس میں شاید نیازیوں سے زیادہ مبتلا ہے۔
میں یہ واقعہ پہلے بھی اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں‘ مگر واقعہ اتنا ہمہ جہت ہے کہ کسی واقعے پر پھر یاد آ جاتا ہے۔ خانیوال میں میرے مرحوم ہم زلف کی موٹرسائیکل گھر سے چوری ہو گئی۔ پرانا پاکستان تھا لہٰذا ایف آئی آر ہی درج نہیں ہو رہی تھی۔ بالکل ویسے ہی جیسے سانحہ ساہیوال کی ایف آئی آر نئے پاکستان میں درج نہیں ہو رہی تھی۔ دو دن کی سعیٔ لا حاصل کے بعد مرحوم جاوید بھائی نے مجھے بتایا کہ تھانے والے اس چوری کی رپٹ ہی درج نہیں کر رہے۔ سو میں خود خانیوال جا پہنچا۔ اب تھانیدار نے جونہی مجھے پہچانا‘ تو اسے احساس ہوا کہ کہیں کالم نہ لکھ دیا جائے‘ سو اس نے میری صحافتی خدمات کے اعتراف کے طور پر ازراہِ محبت محرر کو پرچہ درج کے احکامات بالکل اسی طرح فرما دیئے جس طرح آٹھ گھنٹے کے دھرنے کے بعد نئے پاکستان والی حکومت نے سڑک کو روک کر بیٹھے ہوئے شرفا سے اظہار یکجہتی کے طور پر رضاکارانہ طور پر سانحہ ساہیوال کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ پرچہ درج کرنے کے معاملے میں پرانے پاکستان اور نئے پاکستان میں حالات ایک جیسے ہی تھے‘ قطع نظر اس کے کہ پرچہ موٹرسائیکل کی چوری کا ہو‘ یا چار بے گناہوں کے قتل کا۔ قصہ مختصر، تھانیدار نے موقعہ ملاحظہ کی غرض سے ایک اے ایس آئی کو میرے ہمراہ ''موقعہ واردات‘‘ پر‘ یعنی چوری والی جگہ پر بھیج دیا۔ نکے تھانیدار نے گھر کے اندر آ کر پوچھا: موٹرسائیکل کی چوری کا آپ کو کب پتا چلا؟ مرحوم جاوید بھائی نے بتایا کہ وہ مسجد سے فجر کی نماز پڑھ کر واپس آئے‘ تو دیکھا موٹرسائیکل موجود نہیں تھی۔ نکے تھانیدار نے نہایت ہی فلسفیانہ انداز میں پوچھا: مسجد جانے سے پہلے موٹرسائیکل کو دیکھا تھا؟ جاوید بھائی نے جواب دیا: میں نے مسجد جانے سے قبل موٹرسائیکل کی موجودگی کو چیک نہیں کیا تھا۔ نکے تھانیدار نے اپنے منہ سے افسوس ظاہر کرنے والی مخصوص چچ چچ چچ کی آواز نکالی اور بڑے غمگین انداز میں کہا: آپ کو مسجد جانے سے پہلے ایک بار موٹرسائیکل کو ضرور چیک کرنا چاہئے تھا۔ پھر دوسرا بڑا اہم سوال کیا: آپ نے موٹرسائیکل کہاں کھڑی کی تھی؟ جاوید بھائی نے انگلی سے سامنے برآمدے کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ موٹرسائیکل اس برآمدے میں کھڑی تھی۔ نکے تھانیدار نے منہ سے پھر وہی چچ چچ چچ والی آواز نکالی اور کہا: آپ کو موٹرسائیکل برآمدے کے بجائے کمرے میں کھڑی کرنی چاہئے تھی‘ بڑی غلطی کی کہ برآمدے میں کھڑی کی۔ پھر تیسرا اہم سوال داغا کہ آپ نے موٹرسائیکل کو کونسا تالا لگایا تھا۔ بھائی نے کہا کہ ہینڈل لاک لگایا تھا۔ تیسری بار اس نے منہ سے وہی افسوس بھری آواز نکالی اور کہا: لئو جی! ہینڈل لاک کا اب بھلا کوئی زمانہ ہے؟ اس نے ایک ہاتھ کی بند مٹھی کو آگے اور دوسری کو پیچھے جھٹکا دے کر گھماتے ہوئے کہا: ہینڈل لاک تو یوں کھل جاتا ہے۔ آپ نے بڑی غلطی کی۔ آپ کو رات کو ''جنجیری لاک‘‘ (زنجیری لاک) لگانا چاہئے تھا۔ پھر پوچھنے لگا: آپ رات دروازے کو لاک کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں! ہم دروازے کو اندر سے کنڈی لگا لیتے ہیں۔ نکے تھانیدار کا ملال اس حد تک بڑھ گیا کہ اس نے کافی دیر تک منہ سے چچ چچ چچ کی آواز نکالی اور درد بھرے لہجے میں کہا: بھائی جی! زمانہ بڑا خراب ہے۔ آپ نے بڑی غلطی کی کہ دروازے کو اندر سے تالا نہیں لگایا۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ میں نے کہا: استاد جی! ہم نے موٹرسائیکل نماز پڑھانے سے پہلے چیک نہیں کی۔ دوسری غلطی یہ کی کہ موٹرسائیکل کو کمرے کے بجائے برآمدے میں کھڑا کیا۔ تیسری عظیم غلطی یہ کی کہ اسے ''جنجیری تالا‘‘ نہیں لگایا اور چوتھی ناقابل معافی غلطی یہ کی کہ گھر کے دروازے کو اندر سے لاک کرنے کے بجائے محض کنڈی لگائی۔ ہم نے تو یہ چار غلطیاں کر لیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ چور بالکل بے گناہ اور بے قصور ہے جس نے موٹرسائیکل چوری کی؟
سوال یہ ہے کہ راجہ بشارت کی دھمکی بھری کال کو لیک کرنے کے جرم میں پیڈا ایکٹ کے تحت معطل ہونے والے ایم ایس ڈاکٹر طارق مسعود نیازی نے تو بہت عظیم جرم کیا تھا اور اس کی سزا پائی‘ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ دھمکی آمیز کال کرنے والا اور ایک سرکاری افسر کو برا بھلا کہنے والا راجہ بشارت موٹرسائیکل چوری کرنے والے چور کی مانند بالکل بے گناہ، بے قصور، معصوم اور پاک صاف ہے؟
صورتحال یہ ہے کہ عثمان بزدار کے انتظامی طور پر کمزور ہونے کا تاثر بڑھتا جا رہا ہے‘ اور عملی طور پر اس خالی جگہ کو پُر کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ تین چار لوگ مسلسل اپنا لچ تل رہے ہیں‘ بلکہ پارٹی کے اندر سے ان کی جگہ لینے کے لیے کم از کم دو لوگ پوری شدومد کے ساتھ کوششوں میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف یہ عالم ہے کہ عمران خان اپنے اس ''وسیم اکرم‘‘ کی کپتانی برقرار رکھنے کے لیے ہر چوتھے دن اعلان کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انہیں عثمان بزدار کے لیے ہر چوتھے دن یہ اعلان کرنا پڑتا ہے؟ اگر عثمان بزدار Competent وزیراعلیٰ ہوتے تو عمران خان کو ان کے لیے ہر چوتھے دن لوگوں کو بتانا نہ پڑتا کہ وہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر رہیں گے۔ ہمارے ہاں ایک بہت پرانی روایت ہے کہ جس چیز کی زیادہ تردید کی جائے‘ اسی پر زیادہ شکوک پیدا ہوتے ہیں اور جس چیز سے زیادہ انکار کیا جائے وہی ہو کر رہتی ہے۔ یہی حال اس وقت پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا ہے۔
ہمارے ایک بہت باخبر دوست نے بتایا کہ پی ٹی آئی کو فی الوقت خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے۔ سدا کے عادی ملزم اس وقت پی ٹی آئی کے نمائندے ہیں۔ عمران خان بڑے زوروشور سے کہتے تھے کہ ترقیاتی فنڈ ایم پی اے اور ایم این اے وغیرہ کے لیے کھانے پینے کی سہولت کا ذریعہ ہے اور ہم برسر اقتدار آکر یہ فنڈ ختم کر دیں گے۔ اب وہی عمران خان اپنے فنڈ ہضم کرنے کے ماہر منتخب نمائندوں کے دبائو میں آ کر ان لوگوں کو فنڈ جاری کرنے والے ہیں۔ سرکاری افسروں کی میرٹ پر پوسٹنگ اور دبائو پر ٹرانسفر نہ کرنے کے دعویدار وزیر اعظم کی ناک کے نیچے راولپنڈی میں ڈاکٹر طارق مسعود نیازی کو معطل کر دیا گیا ہے اور سانحہ ماڈل ٹائون پر نواز شریف اور شہباز شریف سے استعفیٰ مانگنے والے عمران خان صاحب سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن بنانے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ حکومت کو خطرہ باہر سے نہیں، اندر سے ہے۔ اپنے لوگوں سے ہے اور اپنے اعمال سے ہے۔
عجب صورتحال ہے کہ وزیراعظم صاحب کو ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ وہ وزیر اعظم ہیں اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ہر چوتھے دن وزیر اعظم یہ بتاتے ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved