آج ملکی و عالمی سیاست میں بڑھکوں، دھمکیوں اور ہلڑ بازی کا شدت اختیار کرتا رجحان بے سبب نہیں ہے۔ جب بھی کوئی معاشرتی نظام تنزلی اور متروکیت کا شکار ہوتا ہے‘ تو اس کے نمائندے ایسی ہی بد زبانی اور غنڈہ گردی پر اتر آتے ہیں۔ مروجہ سیاست میں برپا یہ طوفانِ بد تمیزی بنیادی طور پر عوام کے خلاف جاری معاشی جارحیت سے توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔ بوسیدہ سماجی و مادی انفراسٹرکچر تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔ ترقیاتی کام کم و بیش بند ہو چکے ہیں۔ اقتصادی بحران گمبھیر ہے۔ بجلی، گیس اور تیل سمیت بنیادی اشیائے صرف کی ہولناک مہنگائی جاری ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی تیزی طراری عوامی بے چینی اور غم و غصے کو زائل کرنے کا ہتھکنڈا ہے۔ نظام کا بحران کسی حل سے عاری ہے۔ متبادل اِس سیاست میں کسی کے پاس ہے نہیں۔ اسی حکمران طبقے کی شخصیات کو کبھی ہیرو اور کبھی ولن بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی نجی زندگیوں کے بارے میں گفتگو اور نازک معاملات پر ایسے حملے جاری ہیں کہ حکمرانوں کی پہلے سے پست ثقافت اور اخلاقیات بھی مزید پست ہو رہی ہیں۔ ایک تعفن پھیل رہا ہے جس میں ہر ذی شعور انسان کا دم گھٹتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے یہ ہتھکنڈے کب تک چلیں گے؟ قیمتوں میں کون سا اضافہ مقداری تبدیلی کو ایک معیاری جست میں بدل کے عام لوگوں کے غیظ و غضب کے آتش فشاں کو بیدار کر دے گا؟ یہ ایک نہ ایک دن ہو گا تو ضرور۔
اکیسویں صدی میں حکمرانوں کی منافقت، تعصبات، جہالت اور توہم پرستی جیسے معاملات کھلے عام اس معاشرے کی تضحیک کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ لیکن اِس نظام کے رکھوالوں کا یہ نامناسب رویہ اگر پاکستان میں جاری ہے تو عالمی سطح پر بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔ خصوصاً مغربی سامراجی یہی طریقہ واردات اور حرکات ایک بڑے پیمانے پہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی سرمایہ داری کا معاشی بحران سنگین ہے‘ تو عالمی سرمایہ داری بھی بھیانک بحران میں گھری ہے۔ امریکہ میں ''معاشی ترقی‘‘ اور ''بحالی‘‘ نے تضادات کو شدید تر ہی کیا ہے۔ امریکی ریاست اور ٹرمپ انتظامیہ داخلی تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ یورپ اس وقت ایک نئی معاشی گراوٹ کے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ پیرس میں ہر ہفتے جنگ کا سماں ہوتا ہے۔ لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ کے بیشتر خطوں میں غربت اور محرومی نے انسانی زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے۔ چین کی معاشی نمو، جو تین دہائیوں کی کم ترین سطح تک جا گری ہے، اس کی ترقی اور استحکام کے دعووں کو بے نقاب کر رہی ہے۔ افغانستان سے لے کے مشرقِ وسطیٰ تک پورے پورے ملکوں کو سامراجی جارحیتوں اور پراکسی جنگوں نے ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن سامراجیت اب پرانی بربادیوں پر نئی بربادیاں اور خونریزیاں مسلط کرنے کے درپے ہے۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے وینزویلا میں امریکی سامراج اور اس کے یورپی حواریوں کی مداخلت شدت پکڑ گئی ہے۔ ٹرمپ اب براہِ راست فوجی مداخلت کی دھمکیوں پہ اتر آئے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مختلف ممالک میں سامراجی مداخلتوں اور قتل و غارت گری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ نظر آتا ہے۔ لیکن پچھلی چند دہائیوں میں یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ سامراجی اس قدر بد حواس اور پاگل ہو چکے ہیں کہ تاریخ سے کچھ سیکھنے کی اہلیت ہی کھو بیٹھے ہیں۔ چالیس سال قبل افغان ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے بربادیوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ آج یہی بربادیاں اور انتشار‘ افغانستان میں امریکی سامراج کا منہ چڑا رہے ہیں۔ تاریخ کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی قوت کو ایک برباد ملک سے بھاگنے کا راستہ نہیں مل پا رہا۔ لیکن اِن پراکسی جنگوں اور جارحیتوں میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف عام انسانوں کی نہ جانے کتنی نسلیں برباد ہو چکی ہیں۔ عراق میں 2003ء کی جارحیت کھلے جھوٹ اور فریب پر مبنی تھی۔ وہاں ملنے والے ''وسیع انسانی بربادی کے ہتھیاروں‘‘ کی تعداد صفر نکلی۔ لیکن جھوٹے جواز بنا کر دجلہ و فراط کی ہزاروں سال قدیم تہذیب کو تاراج کر دیا گیا۔ عراق اور شام میں امریکی شکست اس لئے بھی زیادہ ذلت آمیز ہے کہ وہاں ایران کا اثر و رسوخ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اب اپنے نظام کے بحران اور پے در پے شکستوں سے پاگل ہو چکے یہ سامراجی گدھ وینزویلا کو نوچنے کے درپے ہیں۔ یہاں سارا کھلواڑ حسب روایت جمہوریت کے نام پہ جاری ہے۔
وینزویلا میں 1999ء میں آں جہانی ہوگو شاویز کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک بیس انتخابات ہو چکے ہیں۔ انہیں سابق امریکی صدر جمی کارٹر سمیت بیشتر مغربی مبصرین بالکل شفاف قرار دیتے آئے ہیں۔ لیکن سامراجی جوازوں کو حقائق اور سچائی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ مائیک پومپیو، جان بولٹن اور ایلیٹ ابراہم نامی تین امریکی جلاد بضد ہیں کہ وینزویلا میں ہر حال میں سوشلسٹ پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے‘ چاہے اِس کے لئے سارے ملک کو ہی برباد کیوں نہ کرنا پڑے۔ اِس وقت امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو‘ سی آئی اے کا سابقہ سربراہ ہے‘ جس نے ایران کے ساتھ طے پا چکے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کی اشتعال انگیزی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اسرائیلی حکومت اور مشرقِ وسطیٰ کی بادشاہتوں کو امریکی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ جان بولٹن، جو اس وقت ٹرمپ کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہے، نے عراق پر 2003ء کا حملہ کروانے میںکلیدی کردار ادا کیا تھا اور اب ایران پر حملے کا خواہاں ہے۔ اسے بغداد کا جلاد بھی کہا جاتا ہے۔ ایلیٹ ابراہم ماضی میں جارج بش کا مشرقِ وسطیٰ کا مشیر تھا۔ اسے اب ٹرمپ نے وینزویلا کے لئے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ موصوف نے ریگن حکومت کے دوران نکاراگوا اور ایل سلواڈور میں سامراجی جارحیت کو منظم کیا تھا۔ 1991ء میں اسے جنگی جرائم کے الزامات میں سزا ہوئی تھی‘ جسے بعد میں جارج بش نے صدارتی اختیارات کے تحت معاف کر دیا۔ قصابوں کی یہ ٹیم وینزویلا کے حصے بخرے کرنے پہ بضد ہے۔ لیکن وینزویلا کوئی عراق، شام یا افغانستان نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں لاکھوں لوگوں نے دارالحکومت کاراکاس کی سڑکوں پہ صدر مادورو کی حمایت میں مظاہرے کیے اور سامراجی مداخلت کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ وینزویلا پہ براہِ راست جارحیت پورے لاطینی امریکہ میں سامراج مخالف جذبات کو بھڑکا کر ایک خونیں بغاوت میں تبدیل کر سکتی ہے۔ سامراجیوں کو بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘ لیکن خونریزی جس سطح پہ ہو گی اس کا سوچ کے بھی دل دہل جاتا ہے۔ یہ امریکی اور یورپی سامراجی (بالخصوص سپین، کیونکہ وینزویلا اس کی کالونی رہا ہے) پچھلے طویل عرصے وینزویلا کی معیشت کو سبوتاژ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں‘ جس سے ملک شدید افراطِ زر اور اقتصادی بحران کی زد میں ہے۔ دائیں بازو کی کٹھ پتلی اپوزیشن، جو وینزویلا کے استحصالی طبقات اور سامراجیوں کی نمائندگی کرتی ہے، کے ذریعے بھی مسلسل انتشار پھیلانے کے لئے مداخلت کی جاتی رہی ہے۔ اب وہ اِس نتیجے پر پہنچے ہیں براہِ راست مداخلت کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا وقت آ گیا ہے۔ اس مداخلت کے لئے ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال، جو آنے والے دنوں میں سنگین ہو سکتی ہے، کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس غلیظ کھیل میں ہراول کردار ادا کرنے والوں میں کینیڈا کا وزیر اعظم جسٹن ٹریڈو بھی شامل ہے جو 'انسان دوست‘ ہونے کا ناٹک کرتا ہے۔
جان بولٹن وغیرہ کھل کے کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑے تیل کے ذخائر رکھنے والے اس ملک کی ''ترقی‘‘ صرف سامراجی اجارہ داریوں کی مداخلت سے ممکن ہے۔ وینزویلا میں سونے اور دوسری معدنیات کے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں۔ زمین بھی بہت زرخیز ہے۔ یہ سامراجی طاقتیں سارے وسائل لوٹ لینے کو بیتاب ہیں‘ لیکن اگر حملہ ہوا تو یہ جنگ طویل ہو گی‘ جو خطے کے دوسرے ممالک میں بھی پھیل سکتی ہے اور وینزویلا سامراجیوں کے لئے لاطینی امریکہ کا ویتنام بن سکتا ہے۔ خود امریکہ میں اس وقت 30 سال سے کم عمر کے 62 فیصد نوجوان حالات سے بیزار ہیں‘ اور سوشلزم کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں؛ چنانچہ غیر معمولی حالات خود امریکہ کے اندر نوجوانوں اور محنت کشوں کی بغاوت کو بھڑکا سکتے ہیں۔