چشم فلک نے ایک عجب منظر دیکھا ‘جس کی بھی نظر اٹھی‘ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ کابل کی فضائوں میں آج کس قسم کے نعرے گونج رہے ہیں۔ آج کابل کے در و دیوار کو کیا ہو گیا ہے؟ افغانستان کی تاریخ کس سمت چل پڑی ہے‘ کیونکہ آج افغانستان کی مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی سات دہائیوں سے کشمیر کی بیٹیوں اور بچوں کے ساتھ جاری ظلم و بر بریت ‘وحشت اور سفاکیت پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کابل کی سڑکوں پر سر اپا احتجاج بنیں‘ بھارتی فوج اور نریندر مودی کی بر بریت کا ماتم کر تی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ کابل کی سڑکوں پر افغانستان کی بیٹیوں کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پلے کارڈ جن پر بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں سے چھلنی کشمیر کے معصوم بچوں کی بے نور آنکھیں ہر ماں اور باپ کا کلیجہ چیر کر رکھ رہی تھیں۔ افغانستان کی مائوں کے ہاتھوں میں تھامے ہوئے بینرز جن پر مقبوضہ کشمیر کی مائیں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اپنی جوان بیٹیوں کی لوٹی ہوئی عزتوں کا ماتم کر رہی تھیں۔ یہ دل سوز منا ظر ہر درد مند انسان کو خون کے آنسو رلا رہے تھے۔ بھارتی سفارت خانہ اور اس کی جگہ جگہ قائم خفیہ ایجنسیوں کے مختلف بھیس اپنائے ہوئے کابل میں دفاتر اور ان سے فیض یاب ہونے والے ان کے ایجنٹوں اور تنخواہ داروں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کابل کی مائیں بھی ایک دن بھارتی فرعونیت کو اپنے پائوں تلے کچلنے کیلئے سڑکوں پر چیختے چلاتے ہوئے اس کے بھیانک چہرے کو دنیا کے سامنے ننگا کر دیں گئیں۔ کابل کی سڑکوں پر مارچ کرتی ہوئی افغانستان کی مائوں کے قدموں کی دھمک سے اٹھنے والی دھول نے نریندر مودی اور جنرل بپن راوت کے چہروں کو راون سے بھی مکروہ اور قابل نفرت بنا کر رکھ دیا تھا اور لوگ تھے کہ ان پر لعن طعن کر رہے تھے۔
پانچ فروری2019ء کا دن کابل ہی نہیں‘ بلکہ اٹلی‘ فرانس ‘ امریکا‘ بلجیئم‘ کینیڈا‘ سویڈن‘ ناروے‘ برطانیہ‘ سری لنکا‘ ایران سمیت دنیا بھر کا ہر ضمیر‘ زبان ‘ نسل‘ مذہب کی تمیز کئے بغیر بھارتی فوج کے بھیانک چہرے پر تھوکنے کیلئے اپنے اپنے ملک کی سڑکوں پر امڈتا چلا آ رہا تھا ۔ تہران میں پاکستانی سفارت خانے کی معاونت اور کوششوں سے ایکو کلچرل انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام کشمیر پر ایک تین روزہ تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا‘ جس میں گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیریوں کی حق خود ارادیت کیلئے کی جانے والی جدو جہد اور بھارتی فوج کے مظالم کو اجا گر کیا گیا۔ ایران میں پاکستانی سفیر رفعت مسعود اور ایکو کلچرل انسٹیٹیوٹ کے صدر محمد مہدی مظاہری اس تصویری نمائش کیلئے کی جانے والی کوششوں میں پیش پیش تھے۔ اس تصویری نمائش کے شرکاء میں مختلف ممالک کے سفارت کار‘ سکالرز اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے شرکت کی اس تصویری نمائش میں کشمیری بچوں کی بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں سے چھلنی بے نور آنکھیں دیکھتے ہوئے شرکاء اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کوضبط نہ کر سکے اور سب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
لندن میں برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ 10 ڈائوننگ سٹریٹ کے باہر ایک جم غفیر جمع تھا‘ جس میں دنیا بھر کے ہر ملک کی نمائندگی کرنے والے لوگ موجودتھے‘ جہاں تک نظر جاتی تھی‘ انسانی سروں کی قطار بھارت کی کالی اور سیاہ جمہوریت کا ماتم کرتی دکھائی دے رہی تھی۔ غرض پانچ فروری کا دن بھارت کا یوم حساب اور دنیا کے ہر کونے سے اس کے گلے کا پھندہ بن کر اس کی جانب لپک رہا تھااور یہ سب آج اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ اس وقت پاکستان میں نہ تو مولانا فضل الرحمان جیسا کوئی کشمیر کمیٹی کا چیئر مین ہے اور نہ ہی آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسا کوئی بھارت نواز حکمران۔ آج پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی شکل میں ایک ایسے حکمران کی بدولت دنیا بھر میں سرکاری سطح پر پانچ فروری کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے طور پرمنایا جا رہا تھا‘ جس کیلئے دنیا بھر کے سفارتی نمائندوں کو بھارتی مظالم اور کشمیریوں پر کئے گئے سات دہائیوں کے مظالم کو اجاگر کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
آج پاکستان سے آئے ہوئے کسی بھی سفارت کار کو یہ ڈر نہیں تھا کہ مودی کے خوف اور محبت میں سرشار کوئی حاکم کشمیر کا نام لینے پر اس کی کھچائی کرے گا۔آج کسی کو اپنی تبدیلی کا خوف نہیں تھا ۔آج سب پاکستانی بن کر اپنے فریضہ ادا کر رہے تھے۔ سب کو پاکستانی بن کر دکھا نا تھا۔ آج سب نے کشمیریوں سے عہد وفا نبھانا تھا۔ آج سب نے اس خون کی لاج رکھنی تھی ‘جو درگاہ حضرت بلؒ میں بہایا جا رہا ہے۔ آج سب نے ان مائوں کے دودھ کی لاج رکھنی تھی‘ جنہوں نے اپنے لعل 1948ء سے اب تک لائن آف کنٹرول پر بہانے میں ذرا سا بھی دریغ نہیں کیا۔ آج ان شہیدوں کے خون کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع تھا‘ جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کیلئے اس کے ایک ایک ذرے کی حفاظت کیلئے بھارتی فوج اور اس کی تحریک طالبان پاکستان کے ذبح خانوں کا رخ کرتے ہوئے پیچھے کی جانب مڑنا گناہ سمجھا تھا۔ آج مقبوضہ کشمیر کی وادیوں‘ ندی نالوں اور دریائوں میں بہائی گئی ‘ان ایک لاکھ کے قریب کشمیری مسلمانوں کی شہا دتوں کو یاد کرنے کا دن تھا‘ جنہوں نے آزادی کیلئے بھارتی فوج کے ہاتھوں اپنی کھالیں کھنچوانے سے بھی اجتناب نہ کیا۔غزوہ بدر کیا تھا؟غزوہ احد کیا تھا؟ سب کا درس ایک ہی ہے۔ سب کی آواز ایک ہی ہے کہ اپنی جان سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنے پیاروںکی شکلیں سامنے ہوتی ہیں‘ جن کی گود میں بیٹھ کر میٹھی میٹھی نیند اور سرور ملتا ہے‘ وہ مائیں نظر آ رہی ہوتی ہیں‘ وہ بچے وہ جگر کے ٹکڑے جو توتلی زبان میں دلوں کے اندر گھر کر لیتے ہیں‘ وہ کلکاریاں مارتے ہوئے اپنے نرم ملائم بازو لئے سپاہی اور افسر کی جانب لپک رہے ہوتے ہیں ‘لیکن جذبہ شہا دت اور کلمہ حق ان سب پرغالب آ کر اپنے جسم کو آگ اور بارود کے حوالے کر دیتا ہے ۔یہی تو وہ عشق ہے ‘جو بے خوف نمرود کی آگ میں بے دھڑک چھلانگ لگادیتا ہے۔
آج بھارت کے طول و عرض میں بسنے والا ہر انسان چاہے‘ وہ مسلم ہے یا دلت ‘ عیسائی ہے یا پارسی‘ بدھ مت ہے یا کمیونسٹ‘ ہندو ہے یا سکھ‘ بھارتی فوج کے زیر قبضہ کشمیر میں اس کی چنگیزیت کے خلاف سر اپا احتجاج ہے۔ اس کیلئے بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا سے وابستہ لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں کسی بھی جگہ جاتے ہوئے بھارتی پاسپورٹ دیکھتے ہی سب کی آنکھوں کے سامنے بھارتی فوج کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی پیلٹ گنیں اور معصوم کشمیری بچوں کی چھلنی آنکھوں کا سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم احتجاج کرتے ہوئے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر تھامے ہوئے ننھے ننھے بچوں کی بینائی چھیننے والے بھارت جیسے سفاک ملک سے تعلق رکھتے ہو؟ تمہارے ہاتھوں میں اس ملک کا پاسپورٹ ہے‘ جس کی فوج نے وادی کشمیر میں جینے کا حق مانگنے والے ہر گھر میں بے نور آنکھ اور اجڑی ہوئی مانگ کا تحفہ دے رکھا ہے۔تم انسانیت کے نام پر ایک کلنک کاٹیکہ ہو؟ تم نے اپنے جسموں پر کسی فوج کی وردی نہیں‘ بلکہ بھیڑیئے کی کھال پہنی ہوئی ہے ‘جو مائوں کے نوزائیدہ بچوں کو چیر پھاڑ کا خوش ہوتا ہے۔
بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا سے وابستہ لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں کسی بھی جگہ جاتے ہوئے بھارتی پاسپورٹ دیکھتے ہی سب کی آنکھوں کے سامنے بھارتی فوج کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی پیلٹ گنیں اور معصوم کشمیری بچوں کی چھلنی آنکھوں کا سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم احتجاج کرتے ہوئے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر تھامے ہوئے ننھے ننھے بچوں کی بینائی چھیننے والے بھارت جیسے سفاک ملک سے تعلق رکھتے ہو؟