اخبار پڑھنا شروع کیا تو ڈسٹرکٹ انجمن بہبودیٔ مریضاں سے تعا رف ہوا۔
اچھے زمانے کے غیر سیاسی ڈپٹی کمشنر پورے ضلعے کے مخدوم ہوا کرتے تھے‘ مگر خادم بھی۔ تب ڈپٹی کمشنر کا کرپٹ ہونا بہت بڑی خبر تھی۔ نا اہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ڈی سی صاحب کے سر پر قانون نے 15/16 ٹوپیاں اور ہیٹ سجا رکھے تھے۔ جھوٹا پرچہ درج ہو جائے تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 494 کے تحت ڈپٹی کمشنر مظلوم کی داد رسی کرتا۔ تب وہ ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کا ہیٹ پہن لیتا‘ اور مقدمہ واپس لینے کا اختیار استعمال کر لیتا۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال براہ راست ڈپٹی کمشنر کے نیچے تھا۔ اسی لیے فرضی میڈیکو لیگل رپورٹ جاری کرنا سی ایم او سمیت کسی کے بس میں نہ تھا۔ ضلع راولپنڈی میں بیماروں کی عزت اور دل جوئی کے لیے بے لوث معززین رزقِ حلال سے انجمن بہبودیٔ مریضاں چلاتے تھے۔ ینگ لائر کی حیثیت سے پہلی بار میں ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹی کا رکن نامزد ہوا‘ جس کے 32 ارکان میں ضلع کے ہر شعبے کی نمائندگی موجود تھی۔ حتیٰ کہ ڈسٹرکٹ مولوی یا خطیب اور قصائیوں کی انجمن کی بھی۔ پھر موسم بدلا، رُت گدرائی، اہلِ کرپشن بے باک ہوئے۔ سرکاری ہسپتالوں کی فصلِ بہار اُجڑ گئی اور غریب مریضوں کے گریباں چاک ہوتے ہوتے تار تار ہوئے۔ بہت سی جگہوں پہ بے آسرا مریض خواتین کی عصمتیں بھی۔
یہ وہ دور تھا جب ووٹ کو عزت دینے کے نام پر جمہوریت کا ایجنڈا بدل گیا۔ نیا آرڈر آف دی ڈے یوں جاری ہوا کہ نوٹ دو اور ووٹ لو۔ اور ووٹ لو اور لُوٹ لو۔ سرکاری مال میں سے کچھ لگائو باقی کھا جائو۔ لُٹو تے پُھٹو۔ ایک بھائی تھانیدار دوسرا تحصیل دار اور تیسرا رکن اسمبلی بن گیا۔ گورننس ''اُس بازار‘‘ کی جنس بن گئی‘ جہاں عصمت کے سوا کچھ اور نہیں بِکتا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے پشاور میں لیڈی ریڈنگ‘ پنڈی میں ہولی فیملی‘ لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال، سر گنگا رام ہسپتال، میو ہسپتال، لیڈی ولنگڈن ہسپتال، لیڈی ایچیسن ہسپتال، وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور اور مشن ہسپتال کوئٹہ جیسے لینڈ مارک طبی ادارے غیر مسلموں نے بنائے۔ مگر سرکاری زمین کے کسی نالے پہ قبضہ کر کے، کھیل کے میدان میں چائنہ کٹنگ کر کے‘ کسی کی پارکنگ لاٹ پر دھاوا بول کر‘ کہیں گرین ایریا پر ملہڑ مار کر یا خُدا کی بستی میں مَسل کے زور پر نہیں بلکہ قانون قاعدے اور ضابطے کے مطابق زمین حاصل کر کے خلقِ خُدا کی خدمت کی گئی۔ آج کوئی شہر، قصبہ، گلی، محلہ، سڑک، پارکنگ، پارک یا پبلک یوٹیلٹی ایسی باقی نہیں بچی‘ جہاں کسی self proclaimed انسان دوست اور مقدس نجات دہندہ نے قبضہ کر کے آستانہ نہ بنا لیا ہو‘ وہ بھی خاندانی، جَدی پُشتی۔ جاگیردار پاکستان سے رخصت ہو گئے۔ اب خیر سے اُن کی جگہ لینڈ مافیا نے لے لی ہے۔ صرف وفاقی دارالحکومت میں 90 فیصد ایکوائر شدہ زمین پر نا جائز تعمیرات قائم ہیں۔ پوری ریاست زور لگا کر جو زمین خالی کراتی ہے آج کل وہ بہت بڑی خوش خبری ہے۔
ایسی ہی ایک خوش خبری سندھی زبان میں سابق اپوزیشن لیڈر نے قوم کو سنائی۔ میٹر چارج کیے بغیر لندن، پیرس، نیو یارک، ایمسٹر ڈیم اور کوالا لمپور کی غریبوں کو سیر کراتے ہوئے بتایا: یہ سب کچھ اب مہران میں شفٹ ہو چکا ہے۔ اس سے بھی بہت دن پہلے شریف برادران نے پنجاب کو پیرس بنایا تھا۔ لاہور کو لندن اور پاکستان کو ایشین ٹائیگر میں تبدیل کر دیا۔ پیرس کے ہسپتال کیسے ہوتے ہیں۔ مجھے پتا نہیں۔ ہاں البتہ 3 سال پہلے اپنے خرچ پر لندن کے کوئین میری ہسپتال سے کچھ ٹیسٹ کروائے تھے۔ اس لیے لندن کے ہسپتالوں پر فیئر کمنٹ کر سکتا ہوں۔ کیا آلِ شریف والے بھی پیرس المعروف پنجاب، لندن المشہور لاہور اور ایشین ٹائیگر کے ہسپتالوں پر ایسا ہی تبصرہ کرنا پسند کریں گے؟ یقینا نہیں۔ اس کی وجہ سادہ ہے۔ یہی کہ رزقِ حلال کے ڈھیروں نے ان کی پسند کے ہسپتال U.K والے لندن میں کھول رکھے ہیں‘ جہاں ان جیسے ''با عزت‘‘ لیڈروں نے قومی خزانے کے ڈالروں پر اپنی من پسند بیماریاں‘ اپنی دل پسند رپورٹیں حاصل کرنے کے لیے علاج گاہیں بنا رکھی ہیں۔ یہ علاج گاہیں گھسٹاپُو کے ہیڈ کوارٹر جیسی ہیں۔ عام انسان تو کیا‘ عام مریض بلکہ عام ڈاکٹر کا بھی یہاں داخلہ بند ہے۔ یادش بخیر! نواز شریف نے تیسری بار وزیر اعظم کے طور پر آپ کے پیسے سے ایسے ہی گھسٹاپُو ہیڈ کوارٹر میں لیٹ کر تصویریں بنوائیں۔ رہے عام پاکستانی تو ان کی بیماری کو عزت دینے کے لیے دوائی کے بغیر ڈسپنسریاں‘ ڈاکٹر کے بغیر B.H.U اور T.H.Q سہولتوں، فنڈز اور ڈسپلن کے بغیر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال حاضر ہیں‘ جہاں زچہ و بچہ‘ دونوں کو با عزت طریقے سے برآمدے، فرش اور رکشے میں اعزازِ ولادت حاصل کرنے کی مکمل سہولت موجود ہے۔ بیمار اور بیماری کو جو عزت ان کے دورِ حکمرانی والی محنت سے مل رہی ہے‘ وہ کوئی مائی کا لعل فرانس والے پیرس، برطانیہ والے لندن اور ملائیشیا والے کوالا لمپور میں ڈھونڈ کر دکھا دے۔
اگلے روز ایک فورم میں گفتگو کرتے ہوئے لائٹر نوٹ پر کہا: کیا یہ کمال نہیں کہ ایک ہی گھر میں 4/5/6 نسلوں تک سارا علم، ساری برکتیں اور کہیں کہیں ساری پھونکیں جمع ہو جاتی ہیں۔ وہ جسے مومن کی میراث کہا گیا، ایک ہی گھرانے کی ملکیت بن جاتی ہے‘ بلکہ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے اثاثے جیسا کمرشل وینچر۔ اب لگتا ہے، بیماریوں پر بھی امیروں کی اجارہ داری ہو گئی۔ بڑا بھائی گرفتار ہوتے ہی بیمار۔ چھوٹا بھائی 20 سال پہلے کمر کے جس دَرد کی وجہ سے ضمانت پہ رہا ہوا تھا‘ وہ دردِ لا دوا اپوزیشن میں بیٹھتے ہی پھر لَوٹ آیا ہے۔ قوم پچھلے 10 سال تک اِس شو باز کو سٹیج پر پھُدکتّے اور مائیک پر اُچھلتے دیکھتی رہی۔ دو پنج سالے دَرد بے چارہ دُم لپیٹ کر بیٹھا رہا۔ آزاد رپورٹروں پر بھیڑیے کی طرح جھپٹنے والا سمدھی ایل این جی کے زیرِ تفتیش مُلزم کے جہاز پر چڑھا تو سیڑھیاں دوڑ کر۔ جہاز نے قومی خزانے سے لندن تک کئی ملین خرچ کیے۔ سمدھی کو گھسٹاپُو ہسپتال میں اتارا۔ پھر بے چارہ ایسا بیمار ہوا کہ واپس آنے کا نام نہیں لے رہا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جاوید ہاشمی کیس میں سال 1997 سے واضح اصول طے کر رکھا ہے کہ کوئی عوامی عہدہ کسی عہدے دار کے کرتُوتوں کی وجہ سے خالی نہیں رکھا جا سکتا۔ عدالتی سند یافتہ صادق کا یہ امین سمدھی سینیٹ آف پاکستان کی رکنیت کا حلف اٹھانے بھی واپس نہیں آ رہا۔ 2 کزن ایک طرف سے اور 2 کزن دوسری طرف سے نا معلوم بیماریوں کی زَد میں آ کر راہیِ ملک لندن ہوئے۔ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 2 آرٹیکل 4، آرٹیکل 9 اور آرٹیکل 25 میں ایک ہی بنیادی حق مختلف طریقوں سے بار بار گارنٹی کیا گیا۔ سب شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ سب شہریوں سے مساوی اور ایک جیسا سلوک ہو گا۔ قانون اور ضابطوں کا یکساں تحفظ سب کے لیے، نا قابلِ تنسیخ حق ہے۔ مگر اِن رہبروں کو دیکھیے جو قومی وسائل کی راہزنی میں گرفتار ہیں۔ جیل کے اندر بیٹھ کر مرضی کا ہسپتال‘ مرضی کے ڈاکٹرز، مرضی کی گاڑی اور مرضی کے سٹاف کی چوائس کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہی اصولِ جمہوریت ہے اور جیل بھی۔ ووٹ کی طرح بیماری کو بھی عزت دو...
رہبر وہ ہے کہ جس کا نہ کوئی بھی ہو اُصول
جس کا عمل ہو شرحِ غلط نامۂ تضاد
رہبر وہ ہے کہ نام و نُمائش پہ جان دے
ہو زندہ باد جس کے لیے منزلِ مراد
ہر ہر نفس پہ جس کو ہو تحسیں کی احتیاج
جو ہر سخن پہ اپنے کہے آپ ''شاد باد‘‘
ظاہر میں جس کے گرد ہزاروں ہوں خیر خواہ
باطن میں ہو نہ جس پہ خود اُس کو بھی اعتماد