تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     08-02-2019

بزدار کا صدقہ اور سوالات کا جھٹکا

قارئین! آج سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کی گرفتاری کے حوالے سے ہی گفتگو بنتی ہے۔ نیب کا مؤقف ہے کہ ان سے اٹھارہ سوالات پوچھے گئے تھے‘ لیکن وہ صرف تین سوالات کا تسلی بخش جواب دے پائے۔ اس طرح پندرہ سوالات عبدالعلیم خان کے لیے کڑی آزمائش بن کر ان کے سامنے آن کھڑے ہوئے اور ان سوالات کا جھٹکا عبدالعلیم خان کو گرفتاری کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ وہ اب نیب کی حراست میں ہیں۔ انہیں بھی دیگر نیب اسیران کی طرح گرفتاری کے بعد ریمانڈ اور تفتیش کے مراحل سے گزرنا ہو گا‘ لیکن ان کی گرفتاری کے فوری بعد ''سیاسی پنڈت‘‘ اپنی اپنی منطق اور پیش گوئیاں جاری کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک ان کی گرفتاری کو کلیئرنس کا سنگِ میل‘ تو دوسرا اس گرفتاری کو احتسابی عمل کو متوازن کرنے کا نمونہ قرار دے رہا ہے۔ 
ہمارے ہاں جس طرح ہر دوسرا شخص ڈاکٹر یا حکیم ہے‘ اسی طرح سیاسی صورتحال پر تجزیہ اور تبصرہ کرنا بھی ہر کوئی اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ آپ کے دانت میں درد ہو... یا پیٹ میں... محفل میں جتنے لوگ اتنے ہی نسخے و ٹوٹکے دستیاب ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے نسخے کو آزمودہ اور اکسیر قرار دے کر اسے آزمانے پر اصرار کرتا ہے۔ اسی طرح عبدالعلیم خان کی گرفتاری پر تھڑوں سے لے کر ایوانوں تک‘ ہر شخص اپنا اپنا تبصرہ اور اپنا اپنا تجزیہ لیے ہوئے ہے‘ جبکہ دور کی کوڑی لانے والے اس گرفتاری کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا صدقہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عبدالعلیم خان کی گرفتاری کے ذریعے عثمان بزدار کے سر سے بلا ٹالی گئی ہے کیونکہ عبدالعلیم خان عثمان بزدار کے لیے مسلسل خطرہ اور متبادل آپشن تصور کیے جاتے تھے اور نیب کی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے وہ وزیر اعلیٰ نہ بن سکے۔ ویسے بھی حالیہ عام انتخابات سے قبل ہی عبدالعلیم خان عین متوقع وزیر اعلیٰ تھے۔ اِدھر انہیں نیب میں زیر التوا کیسز نے وزارتِ اعلیٰ کے قلمدان سے دور رکھا تھا‘ تو اُدھر وزیر اعظم نے طویل تجسس کے بعد قرعہ اور زائچہ عثمان بزدار کے نام نکال ڈالا۔ 
ابتدائی دنوں میں یہ بھی کہا جاتا رہا کہ عثمان بزدار کی تقرری عارضی انتظام ہے۔ عبدالعلیم خان کی نیب سے کلیئرنس کے بعد وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان بزدار سے لے کر عبدالعلیم خان کو سونپ دیا جائے گا‘ لیکن یہ خوش فہمی دیرپا ثابت نہ ہو سکی۔ عمران خان صاحب نے جلد ہی عثمان بزدار کو اپنا ویژن‘ اپنا نائب اور مستقبل وزیر اعلیٰ قرار دے کر وزراتِ اعلیٰ کی تبدیلی کے ہر امکان کو رَدّ کر دیا۔ وزیر اعظم کے اس دو ٹوک اعلان کے باوجود عبدالعلیم خان، عثمان بزدار کے لیے مستقبل خطرہ اور متبادل چوائس ہی بنے رہے‘ اور یہ تاثر انتہائی تقویت کا حامل رہا کہ پنجاب میں اکیلے عثمان بزدار ہی نہیں‘ گورنر پنجاب چوہدری سرور اور سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان بھی اپنے اپنے ''وزن‘‘ کے ساتھ انتظامی امور پر بدستور اثر انداز ہیں‘ جبکہ حکومتی حلیف سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی بھی ایک نا قابلِ تردید حقیقت کی صورت میں انتظامی امور پر اپنے سیاسی قد کاٹھ کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان عوامل کو عثمان بزدار کی ناقص کارکردگی کا عذر بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ 
اب عبدالعلیم خان کی گرفتاری کو عثمان بزدار کا صدقہ قرار دینے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ وزارتِ اعلیٰ کے مستقل اور مضبوط اُمیدوار اس ریس سے ''آؤٹ‘‘ ہو چکے ہیں... اب عثمان بزدار انتظامی امور پر اپنی وہ گرفت اور کمانڈ حاصل کر سکیں گے‘ جو بیوروکریسی میں گروپنگ اور دھڑے بندی کے باعث نہ کر سکے تھے۔ جیسا کہ ابھی ذکر کیا ہے‘ عثمان بزدار کو وزیر اعظم کا با اعتماد نائب اور ویژن تصور کیا جاتا ہے۔ عمران خان صاحب عوام کو ان کے خواص اور فوائد سے آگاہ کرتے رہتے ہیں بلکہ ان کے وہ ''فضائل و خصائل‘‘ بھی بیان کرتے ہیں جن سے عثمان بزدار خود بھی ناآشنا ہیں۔ پرکھنے اور دیکھنے والی آنکھ چاہیے... ہیرے کی قدر تو بس جوہری ہی جانتا ہے۔ اس ہیرے کے واحد مداح اور قدر دان تا حال وزیر اعظم صاحب ہی ہیں... خیر آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
یہ سب تو ہیں... امکانات و ممکنات... ویسے بھی سیاست میں کوئی شے حتمی اور مستقل نہیں ہوتی... اس میں نا خوب کا خوب ہونا... اور خوب کا نا خوب ہو جانا کوئی تعجب انگیز اَمر نہیں ہوتا۔ سب چلتا ہے... ماضی کے حریف‘ آج کے حلیف... اور آج کے حلیف‘ مستقبل کے حریف... یہی سیاست ہے... اور یہی منظرنامہ ہے ہماری سیاست اور ریاست کا۔ وزیر اعظم چند روز قبل صوبائی دارالحکومت دورے پر آئے تو انہوں نے جہاں بیوروکریسی میں ناگزیر تبدیلیوں اور نئی حکمتِ عملی کا اشارہ دیا‘ وہاں عثمان بزدار کو اپنی ٹیم میں تبدیلی کے اختیار کا سگنل بھی دے دیا تھا۔ 
اس تناظر میں وزیر اعلیٰ کے پاس ایک نادر موقع ہے‘ جسے گنوانا سب کچھ گنوانے کے مترادف ہو گا۔ وزیر اعظم صاحب نے انہیں جن اُمیدوں اور توقعات کے ساتھ میدان میں اُتارا تھا جب وہی پوری نہ ہو سکیں تو پھر عمران خان کب تک عوام کو بہلاتے رہیں گے؟ اختیارات کا ہونا... اور استعمال کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ان دونوں کا یکجا ہونا ہی کارکردگی اور گورننس کا پہلا مرحلہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان تا حال اپنے اس فیصلے پر قائم ہیں۔ ان کا اس پر قائم رہنا ہی وزیر اعلیٰ کے لیے غنیمت ہے اور نعمت سے کم نہیں ہے۔ جن افسران کو نون لیگ سے منسوب کر کے حکومت پرے کر چکی ہے... قابلیت اور مہارت کی بنیاد پر ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 
صرف اس بنیاد پر کسی افسر کو مسترد کر دینا کہ اس نے سابقہ ادوار میں سرکار کی نوکری کی ہے‘ نامناسب طرزِ فکر ہے۔ اس افسر نے تو سرکار کی نوکری کی... اور جب سرکار ہی (ن) لیگ کی ہو تو اس افسرکا کیا قصور؟ ماسوائے چند کیسز کے‘ اکثر افسران پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ قابلیت اور مہارت کا نمونہ ہیں۔ ویسے بھی یہ اصول صرف بیوروکریسی پر ہی لاگو کیوں ہوتا ہے؟ وزیر اعلیٰ سمیت بیشتر وفاقی اور صوبائی وزرا اور نامور اراکین اسمبلی کا ماضی میں تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ خاصے تو حالیہ عام انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کا حصہ بنے۔ قبل ازیں ان کی تمام وفاداریاں اور وابستگیاں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ تھیں۔ 
لمحۂ موجود ہی سب کچھ ہے... لمحہ لمحہ سمے گزر رہا ہے... وقت کا ہونا مہلت کی ضمانت ہرگز نہیں... وزیر اعلیٰ صاحب کو وزیر اعظم عمران خان کی توقعات اور اُمیدوں پر پورا اُترنے کے لیے ''غیبی‘‘ حصار سے باہر آنا ہو گا۔ کہیں یہ نہ ہو کہ وزیر اعلیٰ حصار سے باہر ہی نہ آئیں... اور وزیر اعظم اپنے موقف کو تبدیل کر لیں۔ اس حوالے سے اُن پر پہلے ہی خاصا اندرونی اور بیرونی دباؤ ہے۔ وزیر اعلیٰ سمیت دیگر اہم حکومتی شخصیات کی صبح، دوپہر، شام وکالت اور لابنگ کرنے والے برادرم منصور آفاق بھی مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے منسوب اپنی تمام اُمیدوں کو خاک میں ملتا دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے بھی وزیر اعلیٰ کو انتہائی قیمتی اور انمول مشورے دے کر دیکھ لیا‘ لیکن اُن کو صرف ایک ہی جواب کا سامنا رہا... انتظار فرمائیے... جبکہ وزیر اعلیٰ کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کی آنیاں جانیاں بھی پہلے والی نہیں رہیں... وہ بھی اب اکثر ایشوز پر بات کرنے سے کتراتے اور گھبرائے نظر آتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سے براہِ راست متعلق افسران خود پریشان ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو کس طرح بتایا اور سمجھایا جائے؟ وہ اپنی منطق اور سوچ کے آدمی ہیں۔ وہ مشورہ سنتے بہت دھیان سے ہیں‘ لیکن نظر انداز بھی ایسے کرتے ہیں کہ دوبارہ مشورہ دینے کا دل ہی نہیں کرتا۔ انہیں ہر مشورے کے جواب میں ''انتظار فرمائیے‘‘ کا ہی سامنا ہے... لیکن وقت کس کا انتظار کرتا ہے؟ اور وقت کا ہونا مہلت کی ضمانت ہرگز نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved