نواز ‘زرداری کو قریب لانے کی مزید کوشش نہیں کروں گا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نواز‘ زرداری کو قریب لانے کی مزید کوشش نہیں کروں گا‘‘ کیونکہ دونوں مفت خورے ہیں اور میری اس بھاگ دوڑ پر ایک دھیلے کی شکل نہیں دکھائی اور میری بیروزگاری کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا‘ جبکہ چکّر لگا لگا کر میرا تو رکشے کا کرایہ ہی اتنا ہو گیا ہے کہ ان دونوں کے لیے مُنہ سے '' دُعا‘‘ ہی نکلتی ہے ‘ کیونکہ اگر رکن اسمبلی ہوتا تو کھانے وانے کا انتظام بھی کہیں سے ہو ہی جاتا اور اگر نواز شریف اور زرداری کو قریب لے بھی آتا تو مجھے انہوں نے پھر بھی کچھ نہیں دینا تھا کہ دونوں پرلے درجے کے کنجوس مکھی چوس ہیں ؛حالانکہ مکھی چوسنے کے لیے نہیں ہوتی ‘بلکہ کھانے پر سے اُڑانے کے لیے ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جعلی مینڈیٹ سرکار کے جھوٹے وعدوں کا
آپریشن کرتے رہیں گے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جعلی مینڈیٹ سرکار کے جھوٹے وعدوں کا آپریشن کرتے رہیں گے‘‘ کیونکہ اگر حکومت ہمارا آپریشن کرنے سے باز نہیں آ رہی تو ہم کیوں خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہیں‘ جبکہ والد صاحب کے خلاف تو میجر آپریشن کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ‘کیونکہ سینکڑوں جعلی اکائونٹس بنوانا کوئی جرم نہیں ‘ کیونکہ اس سے بینکوں کی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر ساتھ ہی والد صاحب کی ترقی میں بھی کوئی اضافہ ہو رہا ہو تو اس میں حسد کرنے کی کیا ضرورت ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے‘ جبکہ والد صاحب نے عمر بھر کوشش ہی کی ہے‘ کیونکہ آدمی کو اُسی کام میں کوشش کرنی چاہئے ‘جو اُسے آتا ہو‘ جبکہ انہیں تو بس ایک ہی کام آتا ہے‘ جسے کرتے کرتے انہوں نے انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف کے ساتھ خانہ بدوشوں
جیسا سلوک کیا جا رہا ہے: راجہ ظفر الحق
مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما راجہ محمد ظفر الحق نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کے ساتھ خانہ بدوشوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے‘‘ کہ کبھی جیل سے نکال کر ہسپتال میں رکھا جا رہا ہے اور کبھی ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال میں؛ حالانکہ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ جیل جانا چاہتے ہیں ‘کیونکہ جہاں انہوں نے عمرعزیز کا باقی عرصہ گزارنا ہے‘ وہ اسی جگہ سے مانوس بھی ہوتے جا رہے ہیں‘ جبکہ جیل میں انہیں انواع اقسام کے ان کے پسندیدہ کھانے بھی دستیاب تھے ‘جو ان کے بقول؛ تمام کے تمام پرہیزی ہوتے ہیں‘ کیونکہ وہ خوب اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ پرہیز‘ علاج سے بہتر ہے۔ اس لیے علاج سے زیادہ پرہیز پر ہی زور دے رہے ہیں‘ کیونکہ ان کا متاثرہ دل اور گُردے وغیرہ پرہیزی کھانوں ہی کے متحمل ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ شاہی کباب‘ سموسوں اور مٹن کڑاہی کے بعد وہ مزید پرہیز کی خاطر نہاری‘ سری پائے اور روغن جوش وغیرہ کا بھی آرڈر دینے کا سوچ رہے ہیں اور جلد از جلد صحت یاب ہو سکیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عبدالعلیم خان کلین چٹ لے کر آئیں گے: فیاض الحسن چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''عبدالعلیم خان کلین چٹ لے کر آئیں گے‘‘ بلکہ اُنہیں پہلے ہی کلین چٹ ملنے والی تھی‘ مگر ہم نے لینے سے انکار کر دیا‘ کیونکہ اپوزیشن کے لیڈروں کے خلاف گرفتاریوں وغیرہ سے یہ ساری کارروائی یکطرفہ لگ رہی تھی اور حکومت کے ساتھ ساتھ کئی ادارے بھی بدنام ہو رہی تھے‘ لہٰذا صورتِ حال میں قدرے توازن پیدا کرنا بھی ضروری تھا‘ جبکہ ہم شروع سے توازن ہی قائم کر رہے ہیں‘ یعنی تقریریں کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کرنے پر زور دے رہے ہیں ‘جبکہ سکھائی میں بھی یہ توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ جو تھوڑا بہت سیکھتے ہیں‘ اسے یاد بھی نہیں رکھ سکتے؛ چنانچہ اب ہم نے یادداشت کی بہتری کے لیے بادام بھی کھانا شروع کر دئیے ہیں؛ حالانکہ بادام حلوے وغیرہ میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پر گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
جناب آصف عفان نے اپنے کالم ''خدا کی بستی‘‘ میں ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے ؎
ایسے رہا کرو کریں لوگ آرزو
ایسے چلن چلو زمانہ مثال دے
جودراصل اس طرح سے ہے ؎
ایسے رہا کرو کہ کریں لوگ آرزو
ایسے چلن چلو کہ زمانہ مثال دے
اور اب آخر میں رفعت ناہید کی تازہ غزل:
پھر مرے دریچے میں بارشوں کی سرگوشی
نرم نرم بُوندوں کی آہٹوں کی سرگوشی
کھول دوں میں دروازہ روز کون آتا ہے
رات کے اندھیرے میں پتوں کی سرگوشی
سُرخ سُرخ دھاگوں میں کاسنی ستارے ہیں
نیم باز آنکھوں میں رتجگوں کی سرگوشی
کون پیڑ کے پیچھے بانسری بجاتا ہے
راستے میں شبنم اور پائلوں کی سرگوشی
رت بدلنے والی ہے ہجرتوں کا موسم ہے
پھُول اور پودوں کے سلسلوں کی سرگوشی
مُنتظر ہے شہزادہ دوسرے جزیرے پر
جل پری کی آنکھوں میں آنسوئوں کی سرگوشی
دشت‘ چاند‘ تنہائی سب کے سب تماشائی
رقص میں ہے دیوانہ باقیوں کی سرگوشی
آج کا مقطع
میں خواب ِ سبز تھا دونوں کے درمیاں میں‘ ظفرؔ
کہ آسماں تھا سنہرا‘ زمین بھوری تھی