تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     08-02-2019

یکجہتی کشمیر کا عنوان اور مولانا فضل الرحمن

کشمیر کی آزادی اور اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی ایک ایسا عنوان ہے کہ جس کے ساتھ پوری پاکستانی قوم یک جہت ہے اور تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی یک سمت ہے۔ ہر سال پانچ فروری کو اہل کشمیر کے ساتھ پاکستان میں سرکاری سطح پر یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یکجہتی کا یہ اظہار اب اس قدر قوت پکڑ چکا ہے اور وسعت اختیار کر چکا ہے کہ یکم فروری سے اہل کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے پروگرام شروع ہو جاتے ہیں اور پانچ فروری کو تو پوری پاکستانی قوم بھرپور انداز سے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔ اس بار 2فروری کو مولانا فضل الرحمن نے خنجراب سے لیکر کراچی اور گوادر تک کی پاکستانی قیادت کو اسلام آباد میں اکٹھا بٹھا دیا۔ سب کا ایک عنوان تھا۔ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار پر مکمل اتفاق تھا۔ جناب آصف علی زرداری سابق صدر پاکستان ‘جو اپنی صحت کے اعتبار سے کمزور دکھائی دے رہے تھے‘ مگر اظہارِ یکجہتی کے لئے انہوں نے جو جملہ بولا وہ بھرپور جوان تھا۔ جملہ سن کر میری آنکھوں کے سامنے جواں سال آصف علی زرداری کی بڑی بڑی اور آخر پر اوپر کو اٹھی ہوئی مونچھیں‘ پرانی یادیں تازہ کرنے لگ گئیں۔ ویسے آصف کا معنی طوفان بھی ہے۔ جناب زرداری صاحب نے انڈیا کے ظالموں کے لئے طوفانی جملہ بولتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں میرے بچے شہید ہو رہے ہیں۔ انشاء اللہ مقبوضہ کشمیر ہماری زندگی میں آزاد ہو جائے گا۔ جی ہاں! جناب زرداری صاحب کا مذکورہ جملہ سن کر مجھے یوں لگا کہ اہل کشمیر پر ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج کے ظلم نے زرداری صاحب کو نئے سرے سے جوان کر دیا ہے۔ انہوں نے خود ہی بلاول کا ذکر کر دیا کہ اب وہ لیڈر بن کر سامنے آ چکا ہے ‘یعنی جوان لیڈر بیٹا بھی یکجہتی کے اظہار میں اپنے نانا اور ماں کے راستے پر یک جہت‘ یک سمت اور یک راست رہے گا۔ آصف علی زرداری صاحب نے یہ بھی کہا کہ کشمیر کے لئے ہم سب ایک ہیں۔ یہ جملہ جناب حامد میر کے ذہن میں ایک سمت کا نقش یوں گہرا کر گیا کہ اپنی باری پر گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگے: جناب عمران خان کا نیا پاکستان ابھی تک تو نہیں بن سکا ‘ مگر مولانا فضل الرحمن نے پرانا پاکستان آج یہاں کشمیر کے عنوان پر اکٹھا کر کے دکھا دیا ہے۔ اس پرانے پاکستان کی ایک جھلک میرے سامنے یوں ہے کہ ایم کیو ایم کے سربراہ وفاقی وزیر جناب خالد مقبول صدیقی اور جماعۃ الدعوۃ کے مولانا امیر حمزہ نا صرف اکٹھے بیٹھے ہیں‘ بلکہ باہم رازونیاز کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ جناب حامد میر صاحب کے اس جملے نے ساری مجلس کو کشتِ زعفران بنا دیا۔
مولانا فضل الرحمن حفظہ اللہ کی ابتدائی اور تعارفی گفتگو کے بعد کل جماعتی مجلس مشاورت کے شرکاء کی آراء کے اظہار کا آغاز ہوا تو محترم غلام محمد صفی کی گفتگو سے آغاز کیا گیا کہ آپ سید علی گیلانی کے نمائندہ اور حریت کانفرنس کے مرکزی رہنما ہیں۔ مقبوضہ وادی کے ایک اور ممتاز رہنما جناب پروفیسر یوسف نسیم نے وادی میں انڈین غاصب فوج کے ہاتھوں مظالم کی داستان بیان کی تو ہر آنکھ اشکبار اور نمناک ہو گئی۔ انہوں نے محترم مجید نظامی مرحوم‘ قاضی حسین احمد مرحوم اور جنرل حمید گل مرحوم کو یاد کیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ ہمیں ان جیسے یکجہتی والے لیڈران کی ضرورت ہے۔ پروفیسر نسیم صاحب سے میرا حرمت رسولؐ کے مقدس حوالے سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ ان کی اہلیہ محترمہ مہر النساء صاحبہ جب آزاد کشمیر اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر تھیں تو ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور حرمت رسول کے تحفظ میں قرارداد منظور ہوئی۔ تب سے دونوں میاں بیوی اور میرے درمیان بھائی اور بہن کا اسلامی رشتہ ہے‘ اور یہ رشتہ ہر کشمیری کے ساتھ ہے۔ میں ان کی خدمت میں عرض کروں گا کہ اے پی سی میں شامل افراد راجہ ظفر الحق چیئرمین مسلم لیگ ن‘ لیاقت بلوچ‘ ساجد نقوی‘ فضل الرحمن خلیل‘ خواجہ معین کوریجہ اور دیگر سارے لوگ جو یہاں موجود ہیں‘ آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان اور افواج پاکستان آپ کے ساتھ کھڑی ہیں۔ سب نے پانچ فروری کو یکجہتی کا بھرپور اظہار کر دیا ہے۔ پروفیسر حافظ محمد سعید ایک ایسی شخصیت ہیں کہ اہل کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا تذکرہ ہو تو ان کی جدوجہد پاکستان کے نگر نگر‘ بستی بستی اور گلی گلی میں دکھائی دیتی ہے اور ایسی ہی صورتحال مقبوضہ وادی میں بھی نظر آتی ہے۔ اہل کشمیر کے ساتھ ان کا یکجہتی کا اظہار بھارتی نیتائوں کو ہضم نہیں ہو پاتا؛ چنانچہ وہ بین الاقوامی پریشر بنوا کر پاکستان کی حکومت کو انڈرپریشر کرتے ہیں۔ یہ پریشر حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت پر آتا ہے۔ ایسے ہی ایک پریشر کے بعد حافظ صاحب نے کہا تھا کہ پاکستان کے تحفظ اور پریشر سے نکالنے کے لئے میں اپنی ایک جماعت نہیں اس جیسی بیسیوں جماعتیں قربان کر سکتا ہوں‘ مگر کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار سے پسپا نہیں ہو سکتا۔ میں سمجھتا ہوں‘ ایسی یکجہتی اور پاکستانیت کی مثال ملنا مشکل اور ناممکن ہے۔ 
سب مسلمان دن میں پانچ بار اور بار بار یک جہت ہوتے ہیں۔ یہ یکجہتی کعبہ کی سمت میں اپنے ایک رب کریم کی عبادت کے لئے ہوتی ہے۔ جب یک جہت مسلمان عبادت سے فارغ ہوتا ہے تو اختتام السلام علیکم و رحمۃ اللہ سے کرتا ہے۔ دائیں بائیں منہ کر کے مشرق و مغرب کے مسلمانوں کے لئے جان و مال کی سلامتی کا اظہار کرتا ہے۔ ہمارے حضور حضرت محمد کریمؐ نے ساڑھے چودہ سو سال قبل کعبہ کو مخاطب کر کے فرما دیا: اے کعبہ! تو بڑا شاندار ہے‘ تیری بڑی تعظیم و تکریم ہے ‘مگر ایک مسلمان کی جان اور آبرو کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے (صحیحۃ للالبانی) جی ہاں! یک جہت مسلمانوں کو ہمارے حضورؐ نے عقیدہ سمجھا دیا ہے کہ مسلمان کی حرمت کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ حرمت آج مقبوضہ وادی میں پامال ہے۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم محمد فاروق حیدر کے بعد آزاد جموں و کشمیر کے صدر جناب مسعود خان کہہ رہے تھے کہ 1947ء میں دو لاکھ 37ہزار کشمیریوں کو قتل کیا گیا۔ 5لاکھ کشمیریوں کو پاکستان میں دھکیلا گیا۔ ڈوگرہ دور میں زندہ لوگوں کی کھالیں کھینچی گئی تھیں تو آج مودی کے دور میں چھ ہزار کشمیریوں کو پیلٹ گنوں سے نابینا کر دیا گیا ہے۔ ایسے موذی دشمن جو آنکھوں کی بینائی ضائع کرتے ہیں۔ چھرّہ کان میں لگ جائے تو کان کا پردہ پھاڑ کر قوت سماعت ضائع کر دیتے ہیں ‘ایسے دشمنوں کے لئے حضورؐ کی دعا یوں ہوا کرتی تھی ''اے اللہ! مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے فائدہ پہنچاتے رہیے (دشمن سے محفوظ رکھیے) اس کے بعد اللہ کے ہاں درخواست کی ''وَانْصُرْنِی عَلٰی عَدُوِّیْ وَاَرِنِی مِنْہُ ثَأرِی‘‘ (اے اللہ) میرے دشمن کے خلاف میری مدد فرما اور مجھے اس سے بدلہ لے کر دکھلا (الادب المفرد للبخاری:650صحیح)
قارئین کرام! یہ حدیث پڑھئے اور بار بار پڑھیے‘ صدقے قربان جائوں حضرت محمد کریمؐ ختم المرسلین پر کہ جن کے بارے میں سورئہ نجم میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ ''آپؐ اپنی مرضی سے بولتے ہی نہیں جب تک کہ وحی نہیں ہو جاتی۔‘‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حضورؐ کے یہ الفاظ مودی جیسے ظالموں کے لئے نازل ہوئے ہیں اور اہل کشمیر کو کہا جا رہا ہے کہ وہ اللہ کے حضور ایسی دعائیں کرتے رہیں‘ مولا کریم ان مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ مظلوموں کے لئے اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ کی ایک اور حدیث ہے‘ فرمایا ''(قیامت کے دن) جہنم سے ایک (بہت بڑی) گردن ظاہر ہو گی‘ وہ گفتگو کرتے ہوئے کہے گی: آج مجھے تین قسم کے لوگوں پر مسلط کر دیا گیا ہے (1)ہر اس جابر پر جو حد سے نکل کر ظلم کرنے والا ہے (2)وہ (بت پرست) شخص کہ جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بنایا ہے (3)وہ شخص کہ جس نے کسی ایسے انسان کو قتل کر دیا کہ جس نے کسی کو قتل نہ کیا تھا۔ اب وہ گردن ایسے لوگوں کو لپیٹا مارے گی اور جہنم کی گہرائیوں میں چھپا ڈالے گی‘‘ (مسند احمد‘ مسند عبد بن حمید‘ مسند ابو یعلیٰ‘ طبرانی اوسط‘ صحیحہ 2699)
مزید فرمایا! وہ گردن ایسے لوگوں کو پانچ سو سال پہلے ہی لپیٹ کر جہنم کی طرف چل دے گی۔ جی ہاں! قیامت کے دن ظالموں کا یہ انجام ہے‘ جبکہ مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں کے لئے ایسا شاندار انعام ہے کہ حضورؐ نے فرمایا! ''جس مومن نے بھی مصیبت میں اپنے بھائی کے ساتھ یکجہتی اور تسلی کا اظہار کیا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت کی پوشاک (وردی) زیب تن کروائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ: صحیحہ 195) اللہ کے حضور دعا ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا جس جس مسلمان نے اظہار کیا اس کو مولا کریم کی طرف سے خصوصی عزت دار لباس سے معزز بنا دیا جائے۔ (آمین)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved