تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-02-2019

کیچڑ میں کنول

ہر بحران انسان کو کچھ نہ کچھ دے کر جاتا ہے۔ سوال صرف سوچ کا ہے۔ ہم کسی بھی چیز‘ انسان یا کیفیت کے بارے میں جیسا سوچتے ہیں‘ معاملہ ویسا ہی نکلتا ہے؛ اگر آپ نے طے کرلیا ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دینے ہیں‘ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت آپ کے معاملات کو درست نہیں کرسکتی۔ جیسے ہی آپ یہ سوچتے ہیں کہ اب کسی بھی بحرانی کیفیت یا مسئلے کو خاطر میں نہیں لانا اور اپنے طور پر بہت کچھ کرنے کی کوشش سے گریز نہیں کرنا‘ آپ کے معاملات کی درستی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ 
جب ہم کسی بھی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں‘ تب ایک لمحے کو تو ایسا لگتا ہے‘ جیسے دنیا ہی ختم ہوگئی ہے۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ کسی بھی مشکل لمحے کو اپنے سامنے پاکر انسان کو ایسا ہی محسوس ہوسکتا ہے‘ مگر خیر‘ یہ کیفیت چند لمحات کے لیے ہونی چاہیے۔ جیسے ہی حواس بحال ہوں انسان کو سوچنا چاہیے کہ کہیں سے جواب مل جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری دنیا یا زندگی نے جواب دے دیا ہے۔ دنیا میں ایسے ہزاروں یا لاکھوں نہیں‘ کروڑوں افراد ہیں‘ جنہوں نے شدید بحران کا سامنا کیا‘ ناکامی سے دوچار ہوئے‘ مگر ہمت نہ ہاری اور پورا زور لگاکر ایک بار پھر اپنے پیروں پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ تو کیا ان لوگوں میں سُرخاب کے پَر لگے ہوئے تھے؟ کیا یہ لوگ دنیا سے الگ اور انوکھے تھے؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس دنیا کا ہر انسان ہماری اور آپ ہی کی طرح کا انسان ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان میں اگر کچھ فرق پایا جاتا ہے‘ تو صرف سوچ کی بنیاد پر۔ سوچ کے بدلنے ہی سے انسان بدلتا ہے۔ آپ میں بھی کوئی تبدیلی اگر آئے گی ‘تو سوچنے کے فرق سے آئے گی۔ سوچنے کا فرق ہی آپ کو کسی بھی معاملے یا چیز کے روشن پہلو دیکھنے پر مائل کرسکتا ہے۔ 
دنیا بھر میں ایسی ہزاروں مثالیں بکھری ہوئی ہیں کہ کسی پر کوئی بڑی اُفتاد آن پڑی اور اُس نے بھرپور محنت اور عزیمت کے ساتھ اُس اُفتاد کا سامنا کیا۔ بحران کا سامنا ہونے پر اوّل اوّل تو یہ محسوس ہوا کہ دنیا ختم ہوچلی ہے‘ اب کچھ نہیں رہا ‘مگر پھر کچھ ہی دیر میں حواس بحال ہونے پر اندازہ ہوا کہ نقصان ضرور پہنچا ہے‘ مگر اتنا نہیں کہ سبھی کچھ داؤ پر لگ جائے۔ کسی بھی ناموافق صورتِ حال میں انسان کے لیے تمام امکانات ختم نہیں ہو جاتے۔ جہاں خرابی ہوتی ہے‘ وہیں کسی نہ کسی بہتری کی راہ بھی ہوتی ہے‘ جو تلاش کرنے سے نکلتی ہے۔ 
لی کا شِنگ مشرق ایشیا کا امیر ترین انسان ہے۔ اُسے 15 سال کی عمر میں مزدوری کرنا پڑی تھی۔ اُس کے گھرانے نے چین کے مرکزی علاقے سے نقلِ مکانی کرکے ہانگ کانگ میں سکونت اختیار کی تھی۔ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے امکانات کم و بیش معدوم تھے۔ کسی نہ کسی طور یہ گھرانہ اپنی بقاء کا سامان کرنے میں کامیاب رہا‘ مگر پھر ایک اُفتاد یہ بھی آن پڑی کہ لی کا شِنگ ابھی بہت چھوٹا تھا کہ اُس کے والد تپِ دِق کا شکار ہوکر چل بسے۔ اس کے بعد لی کا شِنگ کی حقیقی آزمائش شروع ہوئی۔ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے اُسے بھی محنت پر کمر بستہ ہونا پڑا۔ وہ پلاسٹک کے ایسے پھول بنایا کرتا تھا ‘جو امریکا برآمد کیے جاتے تھے۔ 
1950ء میں لی کا شِنگ نے اپنی کمپنی چیونگ کانگ انڈسٹریز شروع کی۔ پہلے پہل اس کمپنی نے پلاسٹک کے آئٹمز بنائے‘ پھر املاک کی خرید و فروخت بھی شروع کی۔ لی کا شِنگ نے متعدد ادارے قائم کیے۔ آج وہ بینک‘ سیلیولر فون‘ سیٹلائٹ ٹیلی ویژن‘ سیمنٹ‘ خوردہ فروشی‘ ہوٹلز‘ مواصلات‘ فضائی سفر‘ بجلی‘ فولاد‘ شپنگ‘ کُول ایپز اور دیگر بہت سے شعبوں میں اپنا تجربہ آزما رہے ہیں۔ 
لی کا شِنگ کی کہانی ہمیں سِکھاتی ہے کہ کسی بھی صورتِ حال میں ہمت ہار کر ایک طرف بیٹھ رہنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ محنت کرنی چاہیے‘ تاکہ معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار ہو۔ ایک لی کا شِنگ کے معاملات پر کیا موقوف ہے‘ ہر خطے میں ایسی بہت سی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں ‘جن سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہر انسان انسان آگ کے کئی دریا عبور کرکے کامیابی کے ساحل تک پہنچتا ہے۔ اُس کے پاس بیان کرنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ دنیا‘ اگر جاننا چاہتی ہو اور سُننے کے لیے تیار ہو تو ہر کامیاب انسان اپنی کہانی سُنانے کو تیار ہوسکتا ہے۔ بہت سے کامیاب انسان دل کی گہرائی سے چاہتے ہیں کہ کوئی اُن سے اُن کی کامیابیوں کے بارے میں پوچھے اور جدوجہد کے زمانے کے حوالے سے بھی بہت کچھ دریافت کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ کامیابی اُتنی دل کش نہیں ہوتی‘ جتنی اُس کے لیے کی جانے والی جدوجہد ہوا کرتی ہے۔ کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد جب اپنی جدوجہد بیان کرتے ہیں‘ تب اُس شعبے میں قدم رکھنے والے نوجوانوں کو یہ اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے کہ اُنہیں کون کون سی غلطیاں نہیں کرنی ہیں اور کہاں کہاں غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ 
نئی نسل کو یہ بات ہر حال میں ذہن نشین رکھنی ہے کہ کسی بھی مشکل گھڑی میں سبھی کچھ مشکل نہیں ہوتا ‘بلکہ کہیں کہیں آسانیوں کی طرف بھی راہ نکل رہی ہوتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اُس راہ کو پہچاننے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔ 
معاشی امور میں پیدا ہونے والی عالمگیر نوعیت کی مشکلات نے پاکستان کو بھی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی سطح پر بحرانی کیفیت ہے کہ شِدّت اختیار کرکے لوگوں کو خلجان میں مبتلا کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ معاملات زیادہ اس لیے الجھ رہے ہیں کہ معیشتی اُمور کو سمجھنے اور درست کرنے کے حوالے سے تیاری کرنے کا رجحان ملک میں عام نہیں۔ لوگ ''آٹو سسٹم‘‘ کے تحت جی رہے ہیں۔ معاملات کو درست کرنے کی شعوری کوشش کرنے پر اس امر کو ترجیح دی جاتی ہے کہ اُنہیں اپنے طور پر درست ہونے دیا جائے! بگاڑ کا عمل اپنے طور پر آگے بڑھتا ہے ‘مگر بناؤ کا عمل کسی بھی صورت اپنے طور پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کے لیے معاملات کی درستی کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور پھر اُس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم انوکھے نہیں کہ ہمیں قدرت کی طرف سے استثنا مل جائے اور کچھ کیے بغیر ہی بہت کچھ درست ہو جائے۔ 
پاکستان کی نئی نسل کو ایسا لٹریچر ضرور پڑھنا چاہیے‘ جس میں مختلف شعبوں کے کامیاب ترین انسانوں نے اپنی بھرپور جدوجہد کی کہانی بیان کی ہو اور دوسروں کو ڈھنگ سے جینے کی تحریک دینے کی کوشش کی ہو۔ دنیا بھر میں ایسا لٹریچر خوب پڑھا جاتا ہے اور نوجوان بھرپور جذبے اور ذہنی تیاری کے ساتھ اپنے اپنے شعبے میں قدم رکھتے ہیں۔ آج کے پاکستانی والدین اپنے بچوں کو مستقبل کے لیے ڈھنگ سے تیار کریں اور اُن کی ذہنی تیاری پر خاص توجہ دیں۔ بڑی اور بھرپور زندگی کے لیے نئی نسل کی ذہنی تیاری بھی بھرپور ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے والدین اور دیگر بزرگوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ وسیع مطالعہ اور مشاہدہ بھی ناگزیر ہے۔ یہ نکتہ نئی نسل کے ذہن نشین کرانا لازم ہے کہ کیچڑ ہی میں کنول کِھلتے ہیں‘ یعنی جب کوئی بحرانی کیفیت حد سے گزرتی ہے ‘تو انسان کو کچھ نیا کرنے‘ کامیاب ہونے کی تحریک بھی دیتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved