تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     19-04-2013

ایک تاریخ …ایک روایت

رات کا پہلا پہر تھا اور سچی بات یہ ہے کہ رات وہیں بیٹھ گئی تھی۔ اس کا دل آگے گزرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ راحت ملتا نیکر کے نغمے فضا میں بکھر رہے تھے اور لگتا تھا روشنیاں برقی قمقموں سے نہیں ، گیتوں سے نکل رہی تھیں ۔یہ راولپنڈی چھائونی میں پاکستان ملٹری اکائونٹس کا ہیڈکوارٹر تھا۔ وہی چھائونی جسے برطانوی حکومت نے 1851ء میں آباد کیا۔ 1919ء میں تیسری جنگِ افغانستان کا خاتمہ اسی راولپنڈی چھائونی میں ہوا اور ٹریٹی آف راولپنڈی کہلوایا۔ اس معاہدے کے بعد راولپنڈی چھائونی برطانوی ہند میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی۔ راحت ملتانی کر کے نغمے پاکستان ملٹری اکائونٹس کی قدیم روایت کی غمازی کررہے تھے۔ عساکرِپاکستان کے نمائندے بھی موجودتھے اور محکمۂ دفاع کے اصحابِ قضا وقدر بھی۔ ملٹری اکائونٹس کے محکمے کی خوبی ہی یہ رہی ہے کہ اس کے ہاں سب جمع ہوتے ہیں۔ ع تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے تاریخ کا کوئی عقیدہ ہوتا ہے نہ قومیت۔ وہ سب کچھ ریکارڈ پر لے آتی ہے۔ ہمارا بس چلے تو برصغیر کی تاریخ سے برطانوی عہد کو کھرچ کر ایک طرف رکھ دیں لیکن بدقسمتی سے، یا خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوسکتا۔ برطانوی استعمار نے جہاں ظلم کیے، وہاں اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ سانپ اور بچھو کے بھی فوائد ہیں۔ ورنہ خلاّقِ عالم انہیں پیدا ہی نہ فرماتا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، برطانوی عہد نہ ہوتا تو شاید ہمارا حال وہی ہوتا جوآج جنوبی افغانستان کا ہے۔ ہم انگریزوں کو مکار اور غاصب تو کہتے ہیں (اور بجا کہتے ہیں) لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ شدید محنت ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھی۔ مکاری سے ملک کا کچھ حصہ کچھ عرصہ کے لیے ہتھیایا جاسکتا ہے لیکن ایک پورے برصغیر پر دوسوسال تک حکومت نہیں کی جاسکتی۔ بنگال کی برسات میں اوسطاً ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک انگریز روزانہ ملیریا کی نذر ہوتا تھا لیکن ڈرکر واپس کوئی نہ بھاگا۔ ولیم ڈالرمپل نے، ’’لاسٹ مغل‘‘ میں لکھا ہے کہ دلی کا انگریز ریزیڈنٹ چارلس میٹکاف اور اس کے ماتحت صبح سات بجے اپنے دفتروںمیں پہنچ جاتے تھے اور شدید گرمی میں چند گھنٹے آرام کرنے کے لیے جب وہ اپنی بیرکوں کو جارہے ہوتے تو اس وقت لال قلعہ کے شاہی مکین اُٹھنے کی کوشش کررہے ہوتے۔ کلائیو روزانہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پشت پر ہوتا تھا اور ہمارے ہیرو، بنگال کے نواب، پالکیوں میں سفرکرتے تھے ۔ سکندر مرزا کے بیٹے کی تصنیف ’’فرام پلاسی ٹو پاکستان‘‘ پڑھی جائے تو آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ ایک طرف مسلمان حکمرانوں کے الّلے تلّلے، عیاشیاں، کھلنڈراپن،پنشن کے لیے دریوزہ گری، دوسری طرف برطانوی حکومت کا مستحکم مالیاتی نظام، قواعدوضوابط کی مکمل حکمرانی اور ملٹری اکائونٹنٹ جنرل اور آڈیٹر جنرل کی رائے اور رولنگ کو حرف آخر سمجھنا ! ہم میں سے بہت کم کو معلوم ہے کہ فنانس اور اکائونٹس کی آزادی کو سب سے پہلے حضرت عمر ؓ نے قائم کیا۔ صوبے کا افسرِ مالیات ، صوبے کے گورنر کا ماتحت نہیں ہوتا تھا بلکہ امیرالمومنین کو براہ راست رپورٹ کرتا تھا۔ حضرت علیؓ نے اپنے دور حکومت میں اسی سسٹم کو برقرار رکھا۔ وہ بھی اس معاملے میں اتنے ہی سخت گیر تھے کہ جب ایک گورنر نے سرکاری قرضہ واپس کرنے میں تاخیر کی اور صوبے کے افسر مالیات نے اس کی شکایت کی تو چوتھے خلیفہ ٔ راشد نے حمایت گورنر کی نہیں، بلکہ افسر مالیات کی کی اگرچہ گورنر کے ساتھ رشتہ داری بھی تھی! محکمہء مالیات کی یہ آزادی اہلِ مغرب نے اپنا لی اور ان کی معیشتیں مستحکم ہوگئیں۔ ارشاد حقانی نے ایک بار لکھا تھا کہ ترکی کے دورہ کے دوران ترک صدر نے ضیاء الحق سے کسی کھلاڑی یا فنکار کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ بیمار ہے اور میں اسے علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہتا ہوں لیکن میری وزارت خزانہ اجازت نہیں دے رہی۔ مردِ مومن مردِحق نے اپنی وزارت خزانہ سے پوچھے بغیر، وہیں سے اس کھلاڑی (یا فنکار) کے علاج کے احکام جاری کردیے! برطانوی عہد میں جو محکمے قائم ہوئے ، ان کی تفصیلات کا جائزہ لیں تو حیرت ہوتی ہے۔ آپ کسی چھوٹے سے چھوٹے ریلوے سٹیشن کا جائزہ لے لیجیے ، سٹیشن ماسٹر کے کمرے سے لے کر، باہر بچھی ہوئی پٹڑیوں تک ایک مربوط نظام ہے۔ اس قدر مضبوط کہ ہماری پینسٹھ سال کی کرپشن کے باوجود ریلوے آج بھی سانس لے رہی ہے۔ تاہم قدیم ترین محکمہ جو انگریزوں نے برصغیر میں قائم کیا وہ عسکری حسابات (ملٹری اکائونٹس) کا تھا۔ 1750ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم بنا تو فوج کی ادائیگیوں کے لیے ساتھ ہی ’’پے ماسٹر‘‘ کا دفتر بھی قائم کردیا گیا۔ 1788ء میں اسے ’’ملٹری آڈیٹر جنرل ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ 1831ء میں ملٹری آڈیٹر جنرل کی ماہانہ تنخواہ تین ہزار چارسو روپے تھی۔ 1857ء میں جنگ آزادی ناکام ہوگئی اور برطانوی حکومت نے براہِ راست ہندوستان کا چارج لے لیا۔ اُس وقت بنگال، مدراس اور بمبئی کے تین الگ الگ ملٹری اکائونٹنٹ جنرل تھے۔ 1864ء میں پورے برصغیر میں ایک ملٹری اکائونٹنٹ جنرل مقرر کیا گیا۔ 1914ء میں ملٹری اکائونٹنٹ جنرل کی تنخواہ اڑھائی ہزار روپے تھی ۔ کنٹرولر ملٹری اکائونٹس دوہزار دوسوروپے اور اکائونٹس افسر سولہ سو روپے لے رہا تھا۔ پاکستان بنا تو اس محکمے کی تنخواہیں دوسروں سے زیادہ تھیں جو بعد میں یکساں نظام میں ضم کردی گئیں۔ رائے بہادر وینگو ایار پہلا ہندوستانی تھا جو 1926ء میں کنٹرولر ملٹری اکائونٹس کے منصب پر فائز ہوا۔ تقسیم ہوئی تو یہ محکمہ اپنی ساری روایات اور کڑے معیار کے ساتھ وراثت میں پاکستان کو بھی ملا۔ شعیب احمد، جوایوب خانی دور میں وزیرخزانہ رہے، ملٹری اکائونٹس ہی سے تھے۔ سرتاج عزیز بھی مقابلے کا امتحان دے کر اسی محکمہ میں آئے اور یہیں سے اپنے تابناک کیریئر کا آغاز کیا۔ یہ الگ بات کہ ان کی خودنوشت میں اس کا ذکر برائے نام ہے۔ ان کی نامور بہن نثارعزیز بٹ نے اپنی خودنوشت ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ میں ملٹری اکائونٹس کا نسبتاً زیادہ ذکر کیا ہے ۔ الطاف گوہر کے بھائی تجمل حسین بھی (ان کا نام ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے دستگیری کی) اسی شعبے کے نامور افسر رہے۔ مجھے بالکل نہیں معلوم تھا کہ تجمل حسین صاحب نے اپنی خودنوشت لکھی ہے۔ کبھی کسی بک شاپ میں نظر نہیں آئی۔ کچھ عرصہ پہلے ایک مباحثے میں شرکت کے لیے پرتھ یونیورسٹی جانا ہوا تو قیام نامور پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ یاسمین کے ہاں تھا۔ کتابوں کے انبار میں تجمل صاحب کی آٹو بائیوگرافی ہاتھ آئی جو رات ہی کو پڑھ لی۔ پاکستان ملٹری اکائونٹس واحد سرکاری محکمہ ہے جس میں کڑے احتساب اور قواعدوضوابط کی شدید پابندی کے ساتھ ساتھ مشاعروں اور کھیلوں کی روایات بدستور زندہ ہیں۔ عبدالحمید عدم، نجم حسین سید، ابن الحسن سید اور اسلم خان مگسی اس شعبے سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات ہیں۔ ملک خادم حسین شعبے کے موجودہ مدارالمہام ہیں اور شعبے کی روایات کے امین! ضابطے کی بات ہوتو دبائو کے باوجود ڈٹ جاتے ہیں لیکن ’’غیر نصابی ‘‘ روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ جس تقریب کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں ہوا ہے، وہ اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ملک گیر سطح کی ان تقریبات میں مسلح افواج بھرپور معاونت کرتی ہیں اور یوں دوسو سال سے جوروایات چلی آرہی ہیں وہ بدستور زندہ ہیں اور خوش آئندہیں! جس زمانے میں جنرل عتیق الرحمن پنجاب کے گورنر تھے، حکومت پنجاب کے ملازمین نے ہڑتال کردی اور احتجاجی جلوس نکالے۔ شکایت یہ تھی کہ تنخواہ دیر سے ملتی ہے۔ جنرل صاحب نے آئو دیکھا نہ تائو، ملٹری اکائونٹنٹ جنرل کو ٹیلی فون کھڑکا دیا۔ کہنے لگے اتنا عرصہ فوج میں ملازمت کی ، کبھی تنخواہ کسی افسر کو تاخیر سے ملی نہ کسی جوان کو، پنجاب حکومت کے ملازمین کو کیوں تاخیر سے ملتی ہے ؟ ملٹری اکائونٹنٹ جنرل نے قہقہہ لگایا، گورنر صاحب ! ان کی تنخواہ سول کے شعبے سے ہے، ہمارے ہاں سے نہیں جاتی!یہ ایک حقیقت ہے کہ نظم وضبط اور کارکردگی کا جو معیار عسکری حسابات کے محکمے میں ہے، اگر حکومت پاکستان کے دیگر شعبوں میں بھی جاری وساری ہوجائے تو صورت حال خاصی مختلف ہو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved