کبھی کبھی انسان سوچتا ہے کہ زمین پر قیمتی چیزیں ؛اگر اس فراوانی سے نہ پائی جاتیں‘ تو انسان کیا کرتا‘ کہاں جاتا ۔ ہم کبھی بھی اس بات کو سمجھ نہیں سکیں گے کہ جو چیزیں دکان سے ہمیں سو ڈیڑھ سو روپے کلو کے حساب سے مل رہی ہیں ‘ ان کی اصل قیمت کیا ہے اور اگر وہ انسان کو بنانا پڑتیںتو کتنی لاگت آتی۔آپ پھلوں کی مثال لے لیں ۔ آپ مارکیٹ جاتے ہیں ۔ ڈیڑھ سو روپے کا چتری والا پکا ہو اکیلا لیتے ہیں ۔ جب آپ گھر آتے ہیں تو دو کیلے گلے ہوئے نکلتے ہیں ۔ آپ سوچتے ہیں کہ دکاندار نے دھوکہ دیا ؛حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے دکاندار کو دھوکا دیا۔ جس طرح کی مٹھاس والا چتری والا کیلا ہمیں پاکستان میں میسر ہے ‘ اس کی اصل قیمت لاکھوں روپے میں بھی کم ہے ۔ یہ زمین کی چیز ہے ہی نہیں ‘ لیکن پھر یہ چیزیں اتنی سستی کیوں ہیں ؟ ا س لیے کہ فراواں ہیں ۔ زمین سے اُگ رہی ہیں اور بے تحاشا رفتار کے ساتھ اُگتی ہی جا رہی ہیں ۔ ورنہ‘ انسان بنائے ذرا ایک کیلا لیبارٹری میں ‘آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔
آپ ایک پکا ہوا انار لیتے ہیں ۔ اس کو کاٹتے ہیں ۔ اندر سے ہیرے کی طرح ترشے ہوئے سرخ رنگ کے دانے نکلتے ہیں ۔ ایک انتہائی ذائقے دار مٹھاس‘ لیکن ساتھ ایک خاص ترشی بھی ۔ ہم نے ان چیزوں کو کتنا for grantedلیا ہوا ہے۔ ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اس چیز کی ویلیو کیا ہے ۔ یہ کس نے ڈیزائن کی۔ کس نے مینو فیکچر کی اور مارکیٹ تک پہنچائی ہے ۔
ہماری یہ زمین دوسرے سیاروں سے بہت زیادہ مختلف ہے ۔ یہاں جانداروں کو تخلیق کرنے سے پہلے اللہ نے ذاتی طور پر دو دن میں جانداروں کی ضرورت کی سب چیزیں رکھیں۔ خلاء میں جانے والے خصوصی طور پر اپنے ساتھ آکسیجن سلنڈر لے کر جاتے ہیں ۔ سانس لینے کے لیے کمر پہ بیس کلو وزن اٹھایا ہوتاہے ۔ اربوں سال پہلے زمین پہ ایک بہت بڑ اایونٹ ہو اتھا‘ جسے گریٹ آکسیڈیشن ایونٹ کہتے ہیں ۔ اس میں آکسیجن خصوصی طور پر زمین کی فضا میں پیدا کی گئی ‘تاکہ ہمارے جیسے جو جاندار بعد میں پیدا ہوں ‘ وہ سانس لے سکیں۔ یہی سانس ہے ‘ جس میں آکسیجن ہمارے دماغ کو توانائی فراہم کرتی ہے‘ تو ہم اپنے سارے کام کرنے اور سوچنے کے قابل ہوتے ہیں ۔
آپ مٹی کو دیکھ لیں ۔ یہ اس قدر قیمتی چیز ہے کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔ ہمیں یہ سستی اس لیے مل رہی ہے کہ یہ پورے سیارہ ٔ ارض پہ وافر مقدار میں موجود ہے ۔ اس مٹی میں life sustainکرنے کی صلاحیت ہے ۔ یہ اپنے اندر پارنی ذخیرہ کرتی ہے ۔ اس میں بیچ پھوٹ سکتاہے ۔ پھر اس سے پھوٹنے والا پودا آکسیجن پیدا کرتاہے ۔ اس آکسیجن کو زمین کی کششِ ثقل فرار نہیں ہونے دیتی ہے ۔
آپ کو یہ باتیں کتنی عجیب لگتی ہیں ۔ ہمیں اس مٹی کی کوئی قدر نہیں ۔ ہیروں کو ہم قیمتی سمجھتے ہیں ‘ کیونکہ یہ کم مقدار میں پائے جاتے ہیں اور دیکھنے میں خوبصورت ہیں؛ اگر مٹی کم مقدار میں پائی جاتی تو کھرب پتی افراد اربوں روپے کی تھوڑی سی مٹی خریدتے اور پودے صر ف کھرب پتیوں کے گھروں میں پائے جاتے ۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ جو انور رٹول آم ہے ‘یا لیچی‘ یہ اس دنیا کی چیزیں ہیں ؟
یہ خاص الخاص تحفے ہیں ‘ جو انسان کے لیے نازل کر کے اس زمین میں بکثرت رکھے گئے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ ذرا اس زمین کی گریوٹی سے باہر نکل کر دیکھیں‘ زندگی کس درجہ تکلیف دہ چیز ہے ۔ آپ ٹونٹی کھولتے ہیں ۔ اوپر ٹینکی سے پانی لوہے کے پائپ سے ٹونٹی تک آجاتاہے ۔ آپ دانت برش کرتے ہیں ۔ کلی کرتے ہیں اور اپنا منہ صاف کر لیتے ہیں ۔ خلا ء میں اس طرح تو نہیں ہوتا ۔ آپ کلی کریں‘ پانی نیچے جانے کی بجائے آپ کے منہ کے آگے ہی پڑا رہ جائے گا۔ آپ دانت بھی آرام سے صاف نہیں کر سکتے ۔ آپ اپنے منہ میں رہ جانے والا ٹوتھ پیسٹ اپنے ہاتھوں سے اکھٹا کر کے ایک بیگ میں جمع کریں گے ۔ یہاں آپ simplyمنہ سے تھوکتے ہیں اور نالیوں سے سب کچھ زمین میں جذب ہو جاتاہے ۔
زمین پر ہر چیز کی re cyclingکا ایک پورا نظام ہے ۔ پانی میں نشانیاں ہیں ۔ زمین کی کششِ ثقل اس پانی کو فرار نہیں ہونے دیتی۔ یہ سمندروں سے بخارات بن کے اڑتا ہے اور پھر بارش سے پینے والا صاف پانی بن کے ہمارے اوپر برستا ہے ۔ آپ کا کیا خیال یہ ہے کہ یہ سب کچھ اپنے آپ ہو رہا ہے ؟اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی نہیں ۔ کوئی منصوبہ ساز نہیں ؟ چالیس جگہوں پہ خدا کہتاہے کہ بارش میں نشانی ہے۔ بارش میں نشانی ہے ۔ اس سے زیادہ اور انسان کو کتنے اشارے دیے جائیں ۔ پھر بھی وہ سوچتا نہیں ۔ زمین کی اتنی کششِ ثقل ‘ جس میں ہم آرام سے اپنے قدم اٹھا کر چل سکتے ہیں ۔ ہم چاند کی طرح چھلانگیں نہیں لگاتے۔ نہ ہی ہم زمین سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ ہمارے لیے تو ہمارے رب نے کتنی آسانیاں پیدا کی ہیں ۔ ہمارے کانوں میں جسم کا توازن برقرار رکھنے والا نظام رکھا ۔ ذرا پوچھیں vertigoوالوں سے کہ کیسے وہ چکراتے پھرتے ہیں ۔
ہمارے جسموں میں امیون سسٹم رکھا۔ جراثیم اندر جاتے ہیں تو مارے جاتے ہیں ۔ ذرا پوچھیں کسی ایسے شخص سے ‘ جس نے گردہ یا جگر ٹرانسپلانٹ کرایا ہو۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ امیون سسٹم کیا چیز ہے اور کیوں ایک بلی سے لے کر خرگوش تک ایک ایک جاندار میں اللہ نے مفت نصب کر رکھا ہے ۔
زمین پہ قیمتی چیزیں اس قدر کثرت میں پائی جاتی ہیں کہ جس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب شدید سردی کا موسم آتاہے تو بالائی علاقوں میں منڈیاں بند ہو جاتی ہیں ۔ بکروں کی قلت واقع ہوتی ہے‘ تو قصائی بکریاں بھی ذبح کرنے لگتے ہیں ۔ نوجوان بکری کو پٹھ کہتے ہیں اور اس کا گوشت لذیذ ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی بندہ سوچتا ہے تو حیرت میں گم ہوجاتا ہے کہ ایک ایک بکری میں بچّہ دانی نصب ہے ‘ جس کی قیمت اربوں ڈالر میں بھی نہیں لگا ئی جا سکتی ۔ وہ بچّہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ ہم اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھا جاتے ہیں ۔ صرف اس لیے کہ وہ زمین پہ کثر ت سے پائی جاتی ہے ۔ یہ کثرت نہ ہوتی ‘ توایک بچہ پید اکرنے کی صلاحیت رکھنے والی بکری اربوں روپے میں فروخت ہوتی ۔
یہی صورتِ حال ہمارے جسموں میں خون کی نالیوں کی ہے ؛ اگر کسی کے دماغ میں خون کی شریان پھٹ جائے تو ڈاکٹر ٹانگ میں اتنی شریان نکال کر اسے دماغ میں لیک ہوجانے والی شریان کے ساتھ بدل دیتے ہیں ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ جن لوگوں میں اتنا بڑا آپریشن ہوتاہے ‘ وہ پھر پہلے جیسے کبھی بھی نہیں ہو سکتے ۔
زمین کے برقی مقنا طیسی میدان ‘ اوزون ‘ یہ سب وہ چیزیں ہیں ‘ جنہیں ہم for grantedلیتے ہیں ۔ ہم کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ سورج سے کتنی radiationہر وقت زمین پہ برس رہی ہوتی ہے اور اگر یہ مقناطیسی میدان نہ ہوتے تو انسان آج کس حال میں ہوتا ۔
سچ تو یہ ہے کہ خدا نے زمین میں ہر چیز رکھی اور پھر جانداروں کو پیدا کیا۔ ادھر انسان بیچارہ اس مغالطے میں ہے کہ میں اپنی محنت سے ہر چیز حاصل کر رہا ہوں ۔ چار دن کی یہ خوش فہمی ہے‘ پھر اندھیری رات!