تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-02-2019

بڑی طاقتوں کی چھوٹی لڑائیاں

رواں ماہ کے آغازپر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے فارسی زبان میں ایک ٹویٹ کیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہاکہ ایرانی حکومت کے 40 سالہ سفر کی ناکامی کا اعتراف کرنے والوں میں صدر حسن روحانی بھی شامل ہو گئے ہیں۔ پومپیو کا اشارہ ایرانی صدر حسن روحانی کے اس بیان کی طرف تھا‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 1979ء میں قائم ہونے والے ولایت فقہ کے نظام کے 40 سالہ دور میں‘ ایرانی انقلاب کے مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکے۔امریکی وزیر خارجہ نے فارسی ٹویٹ میں ایرانی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ '' اب آپ کا اپنا صدر حسن روحانی یہ تسلیم کر رہا ہے کہ چالیس سال سے ملک میں مسلط نظام ناکام ہوچکا ہے‘ جبکہ جیسا ہو رہا ہے‘ اس کی گنجائش باقی نہیں تھی ‘ یعنی تمہارا حاکم ایرانی قوم کے مفادات پر اپنے نظریات کو فوقیت دیتا ہے‘‘۔امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے یہ بیان ایرانی انقلاب کے 40 سال پورے ہونے کے موقع پر سامنے آیا۔ دوسری جانب سوشل میڈیاپر ایرانی انقلاب کے چالیس سال کی تکمیل پر تبصرے کیے جا رہے ہیںاور تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں‘ جن میں ایرانی حکومت کی وجہ سے عوام کو درپیش مشکلات‘ بحرانوں اور سرکاری اور قومی وسائل کا بیرون ملک فوجی مہم جوئی سمیت کئی تفصیلات شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو توقع ہے کہ ماضی کے برعکس ایران میں حکومت کے خلاف عوام کے احتجاج میں زیادہ شدت آئے گی۔ اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اپنے حلیف ممالک کے ساتھ ملک کر ایران پر معاشی دبائو بڑھانے کی مہم جاری رکھے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ایران کے جنوب مشرق میں واقع چاہ بہار میں کار بم دھماکے کے بعد ایرانی شہریوںکے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔ ایران کی تاریخ سے کون واقف نہیں؟کہا یہ جارہا تھاکہ شہر کے ایک پولیس سٹیشن کے باہر خودکش کار بم دھماکا ہواہے‘ تاہم ایران کے سکیورٹی اداروں کے بیانات میں تضاد پایاگیا۔مشتبہ حملوں کے بعد کریک ڈاؤن اور کارروائیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ کہا گیا کہ مذہبی انتہا پسند گروہ‘ ایک اور کارروائی کی تیاری کررہا ہے اور اس میں ایرانی معاشرے کے ایک خاص حصے کو نشانہ بنایا جائے گا۔ سال کے آخر میںچاہ بہار کے واقعے پر تمام نشانات اور علامتیں پائی گئیں۔اس طرح لگتا ہے کہ جبر وتشدد کی ایک اور لہر کی راہ ہموار کی جانے لگی ہے۔
ستمبر 2018ء میں ایران کے جنوب مغربی شہر ''اہواز‘‘ میں مسلح افراد نے ایک فوجی پریڈ پر حملہ کیا‘ جس کے نتیجے میں 25 افراد جاں بحق ہوگئے۔ان میں نصف سپاہ ِپاسدارانِ انقلاب ایران کے اہلکار تھے۔فوجی پریڈ اور پاسداران ِانقلاب پر حملے سے حکومت کو ایک اور کارروائی کا موقع ملااور بعد ازاںیہ تمام واقعہ ہی گمراہ کن لگنے لگا۔اس حملے کے بعد ''اہواز‘‘ اور ''صوبہ خوزستان‘‘ میں ایرانی عرب کمیونٹی کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا۔ واضح رہے کہ پاسداران ِانقلاب کے ارکان سفید کپڑوں میں کیمروں کے سامنے چھوٹے بچوں کو بچانے میں مصروف تھے۔حملہ آورسٹیج تک پہنچ گئے‘ جہاں بہت سے اعلیٰ عہدے دار پریڈ کو ملاحظہ کر رہے تھے‘ لیکن حملہ آوروں نے حیرت انگیز طور پر پاسداران ِانقلاب کے نچلے رینک کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔یہ حملہ‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زیر صدارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے چندہفتے قبل کیا گیا تھا ۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کیا کہ ''فوری اور فیصلہ کن ردعمل‘‘۔یہ آنے والے وقت میں سخت کریک ڈاؤن کا اشارہ سمجھا جانے لگا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ جواد ظریف نے حملے کے چند گھنٹے کے بعد ہی کیسے یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ ''دہشت گردوں کو ایک غیرملکی حکومت نے بھرتی کیا تھا؟ تربیت دی تھی؟ مسلح کیا تھا؟ اور رقم دی تھی‘‘۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بیان پہلے ہی سے تیار شدہ تھا اور اس کے لیے بس احتیاط سے کام لینا تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق؛ اس حملے کے بعد کم سے کم چھ سو کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔انہیں چھاپہ مار کارروائیاں کرکے اس انداز میں گرفتار کیا گیاکہ مقامی آبادی اور ملک بھر میں خوف وہراس کی فضا قائم ہو سکے۔کریک ڈاؤن کے بعد مقامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے پریشان کن رپورٹس دی تھیں کہ 22 افراد کو نومبر میں پھانسی چڑھادیا گیا ہے‘مگر ایرانی حکومت نے ہمیشہ کی طرح ان رپورٹس کو مسترد کردیا ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے شرق اوسط ‘ شمالی افریقہ کے لیے ریسرچ اور ایڈووکیسی ڈائریکٹر فلپ لوتھر کے مطابق ''اہواز‘‘ میں حملے کے وقت سے لگتا ہے کہ ایرانی حکام اس کو اہوازی عرب نسلی اقلیت کے ارکان کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال کررہے ہیں‘وہ سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنان کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں‘ تا کہ صوبہ خوزستان میں حکومت مخالفین کو چُپ کرایا جاسکے‘‘۔ جون 2017 ء میں ایسے ہی ایک مشتبہ حملے میں ایران کی پارلیمان اور ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کے مزارکو نشانہ بنایا گیا ۔ مسلح 6حملہ آوروں نے ایرانی دارالحکومت میں واقع دو انتہائی محفوظ مقامات پر حملہ کیا ۔ ان حملہ آوروں نے بارود سے بھری جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔حملے میں سترہ افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہوئے تھے۔ حملے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیاکہ یہ حملہ آور قلعہ نما دونوں جگہوں پر کیسے پہنچے؟ اور دراندازی میں کامیاب ہوئے ؟جبکہ حملے میں زخمی ایک شخص نے میڈیا کو بتایا کہ کوئی فرد سکیورٹی دروازوں سے گزرے بغیر ایک قلم بھی لے کر پارلیمان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ایرانیوں نے سوشل میڈیا پران حملوں میں داعش کے ہاتھ کارفرما ہونے کے حوالے سے بھی سوال اٹھائے‘ کیونکہ ان حملوں کے بعد ایرانی حکومت نے جبر وتشدد کی ایک نئی مہم برپا کردی تھی۔
ایرانی سکیورٹی فورسز نے ان حملوں کے بعد پہلے ایران کی ''کرد کمیونٹی‘‘ کے افراد کی پکڑ دھکڑ شروع کی۔ عراق کی سرحد کے قریب واقع صوبہ کرمان شاہ اور دوسرے شہروں میں کئی کرد شہریوں کو انتہا پسند گروپوں سے تعاون کے الزام میں گرفتار کیا ۔ان میں سے آٹھ افراد کو مئی 2018ء میں سزائے موت سنائی گئی ۔مزید برآں ایران نے شام اور عراق کے سرحدی علاقے میں بیلسٹک میزائلوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ ایرانی حکام نے دعویٰ کیا کہ ان میزائل حملوں میں داعش کے اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ایسا صرف اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے کیا گیا کہ ایران کو داعش نے اب تک حملوں میں نشانہ کیوں نہیں بنایا؟واضح رہے کہ اس کا ایک مقصد ایرانی حکومت کے سماجی سطح پر گرتے ہوئے مورال کو بھی بلند کرنا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved