تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     09-02-2019

دیانت اپنی جگہ لیکن لمبا مال زیادہ فائدہ مند

اَب تو نیب کے ہاتھ چڑھنا ایک اعزاز کی حیثیت رکھنے لگا ہے۔ جس کو بھی اہم عہدے پہ دیکھو نیب زدہ ہے۔ سابق صدر زرداری پہ کرپشن کے الزامات، میاں نواز شریف کرپشن کے کیس میں سزا بھگت رہے ہیں، شہباز شریف پہ بھی مختلف الزامات۔ رہ گئی پی ٹی آئی تو علیم خان کی گرفتاری سے وہ کسر بھی پوری ہو گئی۔
بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کرپشن پہ گرفتاری باعثِ شرمندگی نہیں رہی۔ کسی نیب زدہ کے چہرے پہ ندامت نام کی چیز کبھی دیکھی ہے؟ علیم خان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور پراپرٹی کے کاروبار میں خوب مال بنایا۔ ق لیگ میں رہے پھر پی ٹی آئی میں آ گئے اور عمران خان کے بڑے قریب سمجھے جانے لگے۔ عمران خان پہ خود کبھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا‘ لیکن یہ اَمر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اُن کے قریب جو لوگ بھی ہیں‘ وہ سارے کے سارے لمبے مال والے ہیں۔ گویا خان صاحب سے قربت کی بڑی شرط یہی ہے۔ سفر آپ نے ہیلی کاپٹر پہ کرنے ہوں تو ظاہر ہے آپ کو وہی اچھا لگے گا‘ جس کے پاس جہاز یا ہیلی کاپٹر ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب کے اپنے ہاتھ مکمل صاف ہیں لیکن جو ہیلی کاپٹر والے اُن کے زیادہ نزدیک ہیں‘ اُن کے بارے میں یہ تردّد شاید ہی کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنا مال کن وسیلوں سے بنایا۔
پاکستان کی سیاست اور حکمرانی اَب دولت کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ صرف پی ٹی آئی کی بات نہیں۔ کسی پارٹی میں بھی مقام حاصل کرنا ہو تو پیسے کی فراوانی ضروری شرط ہے۔ لاہور کے مخصوص علاقے کے کھوکھروں کی پریڈ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خوب کرائی۔ اُن پہ طرح طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں‘ لیکن نون لیگ میں اُن کی اہمیت اور میاں نواز شریف سے قربت کا راز یہی تھا کہ لمبے مال کے مالک تھے اور جہاں خرچنا ہوتا وہاں خرچتے۔ یہ گَپ عام ہے کہ جاتی امرا کے اخراجات اپنی جیب سے شاذ ہی ادا کیے جاتے۔ مہربان یہ فرض نبھاتے۔ جنابِ زرداری کی پیپلز پارٹی کا معاملہ بھی اتنا ہی سادہ ہے۔ کچھ حاصل کرنا ہو تو نذرانہ پیش کرنا ضروری ہے۔ مناسب نذرانے پہ کام ہو جاتا ہے۔ برصغیر کی پرانی روایت یہی رہی ہے۔ مغلوں کے درباروں میں بھی آگے نکلنا ہوتا تو نذرانہ پیش کرنا ضروری ہوتا۔ ہماری ایک جاننے والی پھر ٹھیک ہی کہتی تھی کہ یہ جو تم دو ہاتھ اور دو پاؤں لے کے آ جاتے ہو‘ اچھا نہیں لگتا‘ کچھ اور بھی لایا کرو۔ 
اِس تمام صورتحال میں دیانت نام کی خوبی ہاتھ میں لیے آدمی کیا کرے۔ دیانت نہ اُس کے کام کی نہ کسی اور کے۔ چکوال میں ہمارے ایک ممبر اسمبلی ہیں‘ جن کا مین پاور کا بڑا کاروبار ہے۔ جہاں مناسب مال لگانا ہو لگاتے ہیں۔ 2009ء میں چکوال میں ایک ضمنی الیکشن ہوا۔ نون لیگ کا ٹکٹ کس کو دیا جائے اِس بارے میاں نواز شریف خاصے فکرمند تھے۔ جاتی امرا میں اجلاس بلایا گیا اور وہاں امیدوار کا فیصلہ ہوا۔ میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ معاملات سنبھال لو گے۔ میں نے کہا: دو شرائط ہیں۔ ایک تو اُس مسخرے کو لگام دیں جو وقت بے وقت میاں محمد بخش کی شاعری سے آپ کو محظوظ رکھتا ہے۔ میاں نواز شریف کو کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ کیا فضول بات کر رہے ہو۔ لیکن اُنہوں نے فوراً کہا یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اُسے بے تُکے بیانات سے باز رکھوں۔ میں نے کہا: دوسری شرط یہ کہ کوئی وزیر مشیر الیکشن میں نہ آئے، ہم خود سنبھال لیں گے۔ اِس بات پہ میاں صاحب کے چہرے پہ ناگوار سا تاثر اُبھرا۔ لہٰذا میرے نہ چاہتے ہوئے بھی حمزہ شہباز کو کیمپین کیلئے چکوال بھیجا گیا۔ حمزہ نے یہاں اور کرتب کیا دکھانے تھے‘ لیکن دورانِ الیکشن اُن کا تعارف ہمارے مین پاور ایکسپورٹر سے ہو گیا اور جب اُنہوں نے ایکسپورٹر کی لمبے مال کے حوالے سے خوبی دیکھی تو اُس کے گرویدہ ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قربت ہو گئی اور 2013ء کے الیکشن میں اِنہی مین پاور ایکسپورٹر کو صوبائی ٹکٹ مل گیا۔ 
موسم جو بھی ہو لمبے مال والوں کی اہمیت رہتی ہے ۔ اِس الیکشن یعنی 2018ء کے الیکشن میں ایک دلچسپ صورتحال رُونما ہوئی۔ چکوال سے پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کیلئے ٹکٹ ہولڈر عدلیہ کے ہاتھوں نا اہل قرار پایا۔ مقامی پی ٹی آئی کیلئے یہ ہنگامی صورتحال تھی کہ اَب کیا کریں۔ مین پاور ایکسپورٹر ساتھ کے حلقے سے نون لیگ کا صوبائی ٹکٹ ہولڈر تھا۔ راتوں رات اُس نے نون لیگ چھوڑی اور پی ٹی آئی نے اُسے قومی اسمبلی کا امیدوار بنا دیا۔ چکوال میں خیال عام ہے کہ یہ کارنامہ محکمہ زراعت کی وجہ سے ہوا۔ ایک دفعہ محکمہ زراعت والوں سے پوچھا تو جواباً خوب قہقہہ لگا۔
یہ پرانے وَقتوں کی باتیں ہیں کہ سیاستدان زمین کے ٹکڑے بیچ کر الیکشن لڑتے تھے۔ آج کل اول تو ایسا کوئی کرتا نہیں اور کرے بھی تو پرلے درجے کا بیوقوف سمجھا جائے گا۔ جہانگیر ترین کی مشہوری کسی آئن سٹائن (Einstein) کے طور پہ تو نہیں تھی۔ اُن میں یقینا اور بھی خوبیاں ہوں گی‘ لیکن بڑی خوبی وہی ہیلی کاپٹر والی تھی۔ ہمارے پراپرٹی کے مہربان، اُن کا نام کیا لینا (ہمیشہ ذہن سے اُتر جاتا ہے) کی بھی خوبی یہی ہے کہ ہر اطراف اپنی مہربانیاں بکھیرتے ہیں۔ اُن کا ذاتی ہوائی جہاز بھی سٹریٹیجک (strategic) مِشنوں پہ رہتا ہے۔ ہمیں بھی ایک موقع ملا اُس میں سفر کرنے کا۔ سفر بہت آرام دہ رہا۔
یہ چیزیں اہم ہیں، باقی سب بیکار کی باتیں ہیں۔ کئی ایک ہمارے دوست کہتے ہیں کہ پارٹیوں کو اپنی تنظیم کرنی چاہیے۔ یہاں کوئی روسی یا چینی انقلاب آنے والا ہے کہ تنظیم کی ضرورت پڑے؟ یہاں تو وہی اچھا سمجھا جاتا ہے جس کے پاس مال ہو۔ اِس الیکشن میں تو پی ٹی آئی والے کھلے عام کہتے تھے کہ ٹکٹ کے لئے وہ اُمیدوار بنے جو تین چار کروڑ الیکشن میں خرچ کر سکے۔ اِس راستے سے جو ممبر بن کے آئے ہیں اُنہوں نے نیا پاکستان بنانا ہے۔ ہمارے دوست اعظم سواتی کو ہی لے لیں۔ جب جے یو آئی کے مولانا حضرات کی سنگت میں تھے‘ تب بھی اُن کی اہمیت تھی۔ پی ٹی آئی کی طرف آئے تو وہاں بھی اہم ٹھہرے۔ حاسد بیشک کہتے رہیں کہ امریکا میں اُن کے خلاف فلاں فلاں الزامات ہیں‘ اور وہاں وہ واپس جا نہیں سکتے۔ ایسی باتوں کا اَثر عمران خان صاحب نے کبھی نہیں لیا۔ یہ اور بات ہے کہ قسمت کسی کی کھوٹی ہو جائے جیسا کہ اعظم سواتی کے ساتھ ہوا۔ اُنہوں نے چھوٹی سی تکرار کی وجہ سے اپنے غریب ہمسایوں پہ کیا پرچہ کٹوایا‘ اور اُنہیں جیل بھجوایا کہ سپریم کورٹ میں اُن کی طلبی ہو گئی اور اُنہیں وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وزارت گئی لیکن یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی میں اُن کی اہمیت پہلے کی طرح برقرار ہے کیونکہ جو شرط پی ٹی آئی میں اہمیت رکھنے کیلئے ضروری ہے اُس پہ وہ پورے اُترتے ہیں۔
علیم خان کرپشن کے الزام پہ حراست میں لیے گئے تو اُن کا کیا بگڑا؟ وزار ت سے اُنہوں نے استعفیٰ دیا، جو گرفتاری کے بعد دینا ہی چاہیے تھا، اور کوئی راستہ نہ تھا، لیکن پی ٹی آئی والے اُن کے استعفے پہ ایسے تبصرے کر رہے ہیں جیسے اُنہوں نے رُستم زماں کا اعزاز جیتا ہو۔ نیب عدالت میں پیشی کے وقت کی فوٹوز دیکھ لیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فاتحِ شہر کہیں داخل ہو رہا ہے۔ 
ہمارے ہاں گرفتاریوں کا شعبدہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ زرداری اورشریفوں کی دولت کہیں سے واپس آ جائے گی تو اُس سے بڑا احمق کوئی نہیں۔ دولت جن مضبوط ہاتھوں میں ہوتی ہے وہیں رہتی ہے۔ ہماری مملکت کا یہی سُنہرا اصول ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved