ماسکو میں ہونے والے نیم خفیہ و ''نیم سرکاری‘‘ مذاکرات میں ''طالبان‘‘ نے افغانستان میں ایک نئے آئین کا مطالبہ پیش کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں اب ہر متحارب گروہ کی جانب سے ایسے مطالبات آنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس مطالبے کے معنی بنیادی طور پر افغانستان میں امریکی تشکیل کردہ ''جمہوری‘‘، ''آزادیٔ نسواں‘‘، ''انسانی حقوق‘‘ اور ''آزاد‘‘ سیٹ اپ کی نفی ہیں۔ افغانستان میں امریکی سامراج کی 41 سالہ مداخلت اور جارحیت (امریکی مداخلت 1978ء میں شروع ہو چکی تھی جبکہ روسی 1979ء میں افغانستان آئے تھے) کے بعد آج یہ خطہ اس سے کہیں زیادہ برباد ہے جب آزادی اور جمہوریت کے لیے سی آئی اے سپانسرڈ خانہ جنگی یہاں مسلط کی گئی تھی۔ اس مذہبی جنون پر مبنی ردِ انقلابی مداخلت کے ذریعے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک میں بھی رجعتیت، خونریزی، منشیات کا کاروبار اور قدامت پرستی کی سماجی گھٹن مسلط کی گئی۔ آج کئی نسلوں بعد بھی خطے کے عوام اس کالی رجعتیت کا شکار ہیں اورآگ اور خون کی ہولی جاری ہے۔ ایسے میں شدت اختیار کرتا ہوا اقتصادی بحران ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی سامراج کے ایک دھڑے کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ امریکی ڈالروں اور خون کے اس زیاں کو کم یا ختم کر سکے‘ جبکہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ جس کی دولت سے امریکی سینیٹروں اور جرنیلوں کی جیبیں گرم ہو رہی ہیں‘ ان جنگوں کو کم کرنے کے خلاف ایک متحرک اور سرگرم مہم چلا رہا ہے۔ یہ جنگ امریکی سامراج کے لیے اتنی بے قابو اور پُر انتشار ہو گئی ہے کہ واشنگٹن کے حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں تضادات تصادم بن کر پھٹنے لگے ہیں۔
2001ء میں جب امریکی سامراج نے بالواسطہ مداخلت سے براہ راست جارحیت کا لائحہ عمل اختیار کیا تو ظاہری طور پر طالبان کی حکومت کا خاتمہ فوری طور پر ہو گیا تھا۔ سامراجیوں نے اپنی کٹھ پتلیوںکے ذریعے ایک محدود حکومت قائم کی اور جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کے اجرا کے اعلانات کر ڈالے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج 18 سال بعد امریکی سامراج انہی طالبان کو دوبارہ اقتدار دینے یا کسی سمجھوتے کے ذریعے ایک الحاقی حاکمیت قائم کرنے کے لیے تیار ہے‘ جن کو شکست دینے کے دعوے دو دہائیاں پہلے کر دیے گئے تھے۔ اگر اس مفروضے کو مان بھی لیا جائے کہ یہ مذاکرات سنجیدہ ہیں اور افغان امن معاہدہ ایک حقیقت بن سکتا ہے‘ تو پھر بھی کم از کم یہ بات واضح ہے کہ امریکی دوبارہ2001ء سے پیشتر والی صورتحال میں افغانستان کو غرق کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے میں اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ ''انسانی حقوق‘‘، ''جمہوریت‘‘، ''آزادی‘‘ اور ''حقوق نسواں‘‘ وغیرہ کے نعرے در حقیقت سامراجیوں کے لیے کتنے بے معنی ہیں۔ طالبان کے نئے ''آئین‘‘ کے قوانین 1995ء کی طالبان حکومت سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔ ایسے میں یورپین تنظیمیں، مغربی اقدار اور پچھلے 18 سال کی بمباری اور ترقی کی داستان کس قدر بے نقاب ہو جاتی ہے!
ماسکو مذاکرات میں افغانستان میں امریکہ کے متعین کردہ پہلے صدر حامد کرزئی نے تو شرکت کی‘ لیکن حالیہ صدر اشرف غنی نے طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کو مسترد کیا ہے‘ اور ان کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا۔ لیکن اب یہ حقیقت کھل کر واضح ہو رہی ہے کہ سامراجی سنگینوں تلے جب کسی معاشرے پر مقامی گماشتہ حکمران مسلط کیے جاتے ہیں تو ان کی حیثیت ''تین میں‘ نہ تیرہ میں‘‘ سے زیادہ نہیں ہوا کرتی۔ سامراجی گماشتگی میں کبھی مذہبی جذبات ابھارے جاتے ہیں تو کبھی لبرل ازم، جمہوریت اور قومی سالمیت کے نام پر اس غلامی کو لبادے اوڑھائے جاتے ہیں۔ لیکن طالبان بھی اتنے متحد اور کوئی یکجا قوت نہیں ہیں۔ ان مختلف دھڑوں میں ٹکراؤ اور یگانگت کی کیفیت محض کالے دھن پر سودے بازی اور دولت و طاقت کے حصول پر مبنی ہے۔ اگر اشرف غنی یا اس سے پیشتر حامد کرزئی جیسی گماشتہ حکومتوں کو وسیع عوامی حمایت حاصل نہیں تھی تو طالبان بھی کوئی بہت مقبول قوت نہیں تھے۔ سامراج کی سپانسرڈ حکومتوں نے دھاندلی کے ذریعے ووٹ دکھلائے‘ تو طالبان اپنے جبر سے استوار کردہ خوف اور وحشت کی بنیاد پر اپنے تسلط اور حمایت کی رٹ لگاتے رہے۔ تحریکیوں کی عدم موجودگی میں عوام کے نام پر عوام کے حقوق اور ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کیے جاتے ہیں۔ ان کو معاشی، سماجی اور خونیں درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر سرکاری کابل حکومتیں سامراجی ایجنٹی پر مبنی ہیں تو طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہ بھی پراکسیاں ہیں۔ سامراجیوں کے لیے المیہ یہ ہے کہ جن دہشت گرد گروہوں سے وہ دو دہائیاں برسر پیکار رہے‘ وہ انہی کے کسی نہ کسی اتحادی کی سپانسرڈ پراکسی ہی تھیں۔
اس وقت افغانستان میں سب سے بڑی سرمایہ کار طاقت چین ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک اگر ایک ہولناک خانہ جنگی کا شکار ہو تو وہاں طاقتور اور بھاری مسلح پراکسیوں کے بغیر سرمایہ کاری کا وجود خطرے سے خالی نہیں رہ سکتا۔ اس طرح روس، بھارت، ایران، خلیجی ممالک اور خطے کے دوسرے ملکوں نے اپنے بہت سے مالی، سٹریٹیجک اور سیاسی مفادات افغانستان سے وابستہ کر رکھے ہیں۔ یہاں خطے کے ہر ملک کی مداخلت بھی ہے‘ اور سبھی امن بھی چاہتے ہیں تاکہ مالیاتی کشید جاری رہے۔ لیکن پھر اس مقابلے بازی میں مسلح تصادم اور دہشت گردی کا پھوٹنا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ موجودہ عہد میں جہاں براہ راست فوجی مداخلت بہت مہنگا سودا بن گئی ہے وہاں پھر پراکسیاں ہی بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پراکسیاں جو چاہے طالبان کی شکل میں ہوں یا کسی دوسرے مذہبی، قومی یا فرقہ وارانہ گروہ کی صورت میں یا اس جنگی کاروبار کے ایکٹر ہوں‘ اب بہت سیانی ہو گئی ہیں۔ سودے بازی تو خیر پہلے بھی ان کو آتی تھی‘ لیکن امریکی تربیت نے ان کے اس ہنر کو مزید نکھار دیا ہے۔ یہاں کے حکمران بیرونی طاقتوں کی افغانستان میں مداخلت کو قومی سالمیت اور ملکی مفادات سے جوڑتے ہیں۔ یہ ہے بھی حقیقت کہ کسی سرمایہ دارانہ معاشرے میں قومی مفادات اس ملک کے حکمران طبقے کے مفادات ہی ہوتے ہیں۔ چونکہ ملک کی دولت و وسائل اور محنت کے خزانے انہی کے قبضے میں ہوتے ہیں لہٰذا وہی ان کو اپنی منافع خوری اور دولت کے ارتکاز کے لیے لوٹتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مداخلت کرنے والے ہر ملک کا ذرائع ابلاغ افغانستان کے بارے میں اسی ریاستی بیانیہ کا خوب پرچار کرتا ہے۔
افغانستان ایک کثیرالقومی اور کثیر جغرافیائی ملک ہے۔ تاریخی طور پر یہ خطے میں سامراجی تناؤ کے تحت ایک بفر سٹیٹ کی حیثیت میں موجود رہا ہے۔ یہاں جڑت صرف طبقاتی بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔ 1978ء میں نور محمد تراکئی کی قیادت میں برپا ہونے والے ''ثور انقلاب‘‘ نے اسی نقطہ نظر سے افغانستان کے تباہ حال باسیوں کا مقدر بدلنے کی کوشش کی تھی۔ خطے میں اس کے اثرات سے انقلابات کی لہر ابھرنے کا خوف ہی ان کو جارحیت کی جانب لے گیا تھا۔ آج اس انقلاب کے 41 سال بعد موجودہ نظام افغانستان کو جو امکان فراہم کر رہا ہے‘ اس میں دوبارہ طالبان کی مذہبی جبر کی حاکمیت بھی شامل ہے۔ سامراج کی پیوند کردہ ''جمہوریت‘‘ اور ''آزادی‘‘ ہمارے سامنے برباد ہے۔ اس کے خالق اس کی گواہی دے رہے ہیں۔
افغانستان کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کا مقدر ماضی کی تاریکی میں ڈوبنا نہیں‘ نہ ہی سامراج کی جعلی اور غلامانہ جمہوریت کے نام پر اس سر زمین اور انسانی محنت کا استحصال کروانا یہاں کے عوام کا نصیب ہے۔ افغانستان میں آج تک انقلابِ ثور کی روایات کو کھل کر صفحہ ہستی سے مٹایا نہیں جا سکا۔ وہ نسل در نسل منتقل ہونے والی سوچ اور روایت میں موجود ہیں۔ لیکن انقلاب ثور کے بکھرنے میں بھی ایک اہم عنصر انقلاب کا ایک مخصوص ملک میں محدود ہو کر رہ جانا تھا۔ سوشلزم پر نیشنل ازم کا حاوی ہونا ناکامی کا بڑا عنصر بنا تھا۔ انہی اسباق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سامراجی اور مذہبی قوتوں کی مالیاتی لڑائی کے نیچے جو جوان نسل ابھری ہے‘ وہ اس نظام سے ہی تنگ ہے۔ انہی سامراجیوں اور ان کے گماشتوں نے افغانستان کو بہت عرصے تک نسل در نسل تاراج کیے رکھا ہے۔ اب افغانستان اور خطے کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا وقت آنے والا ہے۔ یہ ابھریں گے اور اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے ایک انقلابی تحریک میں آگے بڑھیں گے۔ 1979ء کے ثور انقلاب میں بہت سے ایسے تجربات ہیں جن کے اسباق ان کے لیے مشعل راہ بنیں گے۔