تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     10-02-2019

این ایف سی ایوارڈ اور قومی سیاست

کسی نے کیا خوب کہا ہے‘ اور سچ کہا ہے کہ (صوبائی) خود مختاری اصل میں مالی (Financial) خود مختاری ہوتی ہے کیونکہ سیاست وسائل کی تقسیم اور تفویض کا دوسرا نام ہے۔ اسی وجہ سے ہر ایسی ریاست میں‘ جہاں عمودی یا افقی سطح پر اختیارات اور وسائل کی تقسیم سیاسی نظام کی بنیاد ہو‘ لینے اور دینے کا جھگڑا رہتا ہے۔ اس جھگڑے کو ہی سیاست کہتے ہیں۔ ایک وفاقی ریاست میں یہ جھگڑا (یا دوسرے معنوں میں سیاست) مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات اور وسائل کی تقسیم‘ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ مسئلہ خصوصاً مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختیارات کی تقسیم پر بحث کے حوالے سے بہت نمایاں رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جو عوامل کارفرما تھے‘ ان میں ملک کے ان دونوں حصوں کے درمیان اختیارات اور وسائل کی تقسیم کے ایک تسلی بخش حل میں ناکامی کا بہت بڑا دخل ہے‘ تو مبالغہ نہ ہو گا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی یہ مسئلہ پاکستان کی سیاست کا نمبر ایک مسئلہ رہا ہے‘ کیونکہ آزادی کے بعد اگرچہ بھارت کی طرح پاکستان کو بھی ایک وفاقی ریاست قرار دے دیا گیا تھا‘ مگر یہ وفاقیت برائے نام تھی‘ کیونکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 جو 1956 تک پاکستان کا عبوری آئین رہا‘ کے تحت صوبوں کے مقابلے میں مرکز کو خصوصاً مالی شعبے میں، وسیع اختیارات حاصل تھے۔ آمدنی کے تمام بڑے بڑے ذرائع پر مرکز کو کنٹرول حاصل تھا‘ اور صوبے نہ صرف ترقیاتی مقاصد بلکہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے بھی مرکز کے محتاج تھے۔ مگر 1935 کے ایکٹ کے مقابلے میں 1956 اور پھر 1956 کے مقابلے میں 1973 کے آئین کے تحت مرکز سے صوبوں کو کچھ اختیارات منتقل کیے گئے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت ملک کی آمدنی اور وسائل میں صوبوں کے حصے میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک زمانے میں مختلف ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی کل آمدنی میں صوبوں کا 37.5 فیصد حصہ ہوتا تھا۔ اب یہ حصہ بڑھ کر 57.5 فیصد ہو چکا ہے اور اسلام آباد میں حال ہی میں منعقدہ 9ویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے اجلاس میں یہ فارمولا برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یعنی صوبوں کو اپنا حصہ بدستور ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی بنیاد پر ہی ملتا رہے گا۔ اس کی یقین دہانی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کچھ عرصہ سے یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی موجودہ حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کر کے صوبوں کے حصے کو کم کرنا چاہتی ہے تاکہ صوبہ کے پی کے میں فاٹا کے انضمام کے بعد اور ملکی سلامتی کو برقرار رکھنے کیلئے مزید فنڈز کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ تجویز یہ تھی کہ صوبے اپنے حصوں میں سے 7 فیصد ان مقاصد کیلئے کٹوتی پر راضی ہو جائیں۔ یہ تجویز نئی نہیں کیونکہ گزشتہ حکومت کے دور میں بھی جب سرتاج عزیز کمیٹی نے فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی سفارش کی تھی تو اس سارے عمل کی تکمیل اور ترقیاتی میدان میں فاٹا کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کیلئے درکار رقم کو اکٹھا کرنے کیلئے مرکز سے صوبوں کو ملنے والے حصے سے کٹوتی کی باتیں ہو رہی تھیں‘ لیکن صوبوں نے اُس وقت بھی اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
اسلام آباد میں این ایف سی ایوارڈ کے حالیہ اجلاس میں بھی صوبوں نے اپنے موقف کو قائم رکھا اور اس تجویز کو رد کر دیا۔ صوبوں کا اس ضمن میں موقف دو دلائل پر مبنی ہے۔ ایک یہ کہ عمودی سطح پر مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم اب بھی مرکز کے حق میں ہے‘ اور صوبوں کو ان کی ضروریات کے لیے ملنے والی رقم ناکافی ہے کیونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمہ داریوں میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے صوبوں کو مزید وسائل کی ضرورت ہے جبکہ مرکزی حکومت انہیں پہلے سے ملنے والے فنڈز‘ جنہیں صوبائی حکومتیں ناکافی سمجھتی ہیں‘ اور بھی کمی کرنا چاہتی ہے۔ فاٹا اور سکیورٹی کے نام پر فنڈز میں کٹوتی کی مخالفت میں صوبوں کی طرف سے جو دوسری دلیل پیش کی جاتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع قبائلی علاقے یعنی فاٹا ہمیشہ سے مرکزی حکومت کے زیر انتظام رہے ہیں‘ اور وہی اس کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کی ذمہ دار ہے۔ انضمام کے بعد یہ ذمہ داری صوبہ کے پی کے پر عائد ہوتی ہے جسے نبھانے کیلئے مرکز صوبہ کے پی کے کو ایک سپیشل پیکیج کے تحت امداد فراہم کر سکتا ہے‘ دیگر صوبوں کے کاندھوں پر فاٹا اور سکیورٹی کی مد میں مزید بوجھ ڈالنے کا کوئی جواز نہیں۔ آئین کے مطابق بھی این ایف سی صوبوں کے حصے کو کم نہیں کر سکتا کیونکہ آئین کی دفعہ 163 شق نمبر3 کے تحت این ایف سی کا نیا ایوارڈ گزشتہ ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والے حصے میں کمی نہیں کر سکتا۔ اگر حکومت اس پابندی کو ہٹانا چاہتی ہے تو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی‘ مگر موجودہ حکمران پارٹی کو اس مقصد کیلئے نہ تو قومی اسمبلی اور نہ ہی سینیٹ میں مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے سامنے واحد راستہ صوبوں کی رضا کارانہ آمادگی حاصل کرنا ہی رہ جاتا ہے‘ مگر حکومت اور اپوزیشن میں تعلقات کی موجودہ صورت حال میں اس کا امکان کم نظر آتا ہے۔ نتیجتاً حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا تو دعویٰ ہے کہ حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم میں ردوبدل کیلئے اُن پر دباؤ ڈال رہی ہے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے تحت کارروائیاں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان کے مطابق‘ اس کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کے رہنماؤں کی طرف سے صوبوں‘ خاص طور پر سندھ اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خلاف ایک باقاعدہ اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مہم بھی جاری ہے۔ اس معاملے میں جن دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے اُن میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو مرکز سے جو فنڈز منتقل کئے جا رہے ہیں‘ اُن سے پوری طرح استفادہ کرنے کیلئے صوبوں کے پاس ضروری انفراسٹرکچر یعنی تربیت یافتہ اور تجربہ کار ماہرین، فنی صلاحیت اور معیاری گورننس نہیں ہے۔ اول تو مرکزی حکومت کا یہ موقف حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ برصغیر میں صوبوں کے قیام کو 110 برس ہونے کو ہیں‘ اور اس دوران دریائے سندھ اور گنگا جمنا سے بڑی مقدار میں پانی بہہ چکا ہے۔ صوبے اب بالغ ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی ہیں اور اپنا بوجھ خود اُٹھا سکتے ہیں۔ اس لیے اُن پر اس ضمن میں تنقید کا کوئی جواز نہیں اور اگر صوبوں میں فزیکل، سوشل اور ایڈمنسٹریٹو انفراسٹرکچر ابھی تک پوری طرح ترقی نہیں کر سکا‘ تو اس کا ذمہ دار صوبوں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ بلکہ یہ مرکز کی غفلت اور عدم توجہی کا نتیجہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں میں مرکزیت پسندی کا رجحان بہت پرانا اور ابھی تک توانا ہے۔ اسی سوچ کے تحت مضبوط صوبوں کے ساتھ ساتھ مضبوط مرکز کی حمایت کی گئی۔ حالانکہ تاریخ اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر صوبے مضبوط ہوں گے، تو ملک بھی مضبوط ہو گا۔ مگر جہاں اس حقیقت کو تسلیم کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، وہاں ایسے حلقے بھی ابھی تک موجود ہیں‘ جن کا مفاد مضبوط صوبوں کی بجائے مضبوط مرکز سے وابستہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے تمام قومی وسائل کو مخصوص مقاصد کیلئے اپنے تصرف میں لایا جا سکتا ہے۔ سیاسی بالا دستی اسی کا نام ہے۔ مگر پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ سٹیٹ سکیورٹی کی بجائے عوامی سکیورٹی کا تصور جڑ پکڑ رہا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت پاکستان کے صوبوں کو جو داخلی خود مختاری حاصل ہے، 70 سال پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے تحت صوبوں کو اب تک جو مل چکا ہے، اسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔ یعنی مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا موجودہ فارمولا جوں کا توں قائم رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved