ڈیووس میں ہونے والے 'ورلڈ اکنامک فورم‘ میں دنیا بھر سے حکمران طبقات کے نمائندوں، سامراجی پالیسی سازوں اور مستقبل میں ممکنہ طور پر اقتدار میں آنے والے افراد کو ہر سال بلایا جاتا ہے تاکہ سرمایہ داری کے بحرانوں‘ اور سرمایہ داری کو لاحق خطرات پر غور کیا جا سکے۔ اِس بار بھی وہاں بہت بحث و مباحثے ہوئے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے عالمی خیراتی ادارے 'آکسفیم‘ نے سوئٹزر لینڈ کے پُر فضا مقام 'ڈیووس‘ میں منعقد ہونے والے دنیا بھر کے امیروں کے اس سالانہ اجلاس میں اپنی اینوول رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات غربت کے خلاف جنگ کو کمزور کر رہی ہے۔ ہندوستانی ارب پتیوں کی جائیداد میں 2018 میں روزانہ 2200 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران، ملک کے ٹاپ ایک فیصد امیروں کی جائیداد میں 39 فیصد کا اضافہ ہوا‘ جبکہ 50 فیصد غریب آبادی کی جائیداد میں محض 3 فیصد کا اضافہ ممکن ہو سکا۔ آکسفیم کے مطابق بھارت کے ٹاپ 9 امیروں کی جائیداد 50 فیصد غریب آبادی کی جائیداد کے برابر ہے۔ آکسفیم کی یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ جہاں ایک طرف ارب پتیوں کی تعداد کے حوالے سے ہندوستان ساری دنیا کے ممالک سے آگے ہے‘ وہیں آبادی کی اکثریت غربت کی اتاہ گہرائیاں برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ آبادی کے اس حصے کو اتنا بھی میسر نہیں کہ روزانہ پیٹ بھر کر کھانا ہی کھا سکیں اور ایک صحت مند زندگی ہی بسر کر سکیں۔
نریندر مودی جس 'چمکتے ہندوستان‘ (شائننگ انڈیا) کے نعرے کے ساتھ 2014ء میں اقتدار پر براجمان ہوا تھا‘ وہ انڈیا صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہی چمک رکھتا ہے۔ عوام کی وسیع اکثریت کے لیے اس میں صرف تاریکی اور ذلت ہی ہے‘ جس کا اندھیرا ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ جس 'گجرات ماڈل‘ کی بنیاد پر مودی کو شہرت ملی‘ وہ دراصل نیو لبرل معاشی پالیسیوں کا بے رحمانہ نفاذ تھا‘ جس کے تحت کارپوریٹ سرمائے کے منافعوں میں اضافے کے لیے 'سازگار ماحول‘ تیار کیا جاتا ہے اور معیشت میں ریاست کے کردار کو کم سے کم کیا جاتا ہے۔ ایسے ادارے براہ راست ان ممالک کے عوام سے منافع کشید کرتے ہیں اور وہ بھی اپنی مرضی و منشا کے مطابق‘ یعنی جتنا وہ چاہیں۔ اس سے کارپوریشنوں کی سرمایہ کاری اور منافعوں میں تو بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے اور شرح نمو میں بڑھوتری بھی آتی ہے‘ لیکن اس ترقی کے ثمرات عام جنتا تک نہیں پہنچ پاتے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سماجی تضادات مزید شدت اختیار کرتے ہیں۔ جب یہی سماجی تضادات پھٹ کر حکمرانوں کی حاکمیت کو خطرے میں ڈالنے لگتے ہیں تو وہ مذہبی فسادات کرواتے ہیں۔ گجرات میں 2002ء میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات بی جے پی اور مودی کی ایسی ہی کارستانی تھی۔
مودی کی گجرات میں ان بے رحمانہ نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے نفاذ کے بعد ہی وہ ملکی سرمایہ داروں اور عالمی اجارہ داریوں کی آنکھ کا تارہ بنا تھا‘ اور اسے اقتدار میں لانے کے لیے ان کارپوریشنوں کی طرف سے ایک باقاعدہ مہم چلائی گئی تھی۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR)، جو دہلی میں ایک تھنک ٹینک ہے، کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2004ء سے کارپوریشنوں کی طرف سے مختلف سیاسی پارٹیوں کو ملنے والے چندوں (Corporate Donations) میں 613 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان 'چندوں‘ کا سب سے بڑا حصہ یعنی 77.72 فیصد (تقریباً پندرہ ارب روپے) بی جے پی کو ملے‘ جبکہ اسی عرصے میں کانگریس کو 4.5 ارب روپے ملے۔ آج کے دور کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ یہ کارپوریشنز ہی بھارت میں پارٹیوں کو چلاتی ہیں‘ انہیں اقتدار میں لاتی ہیں اور ان کی پالیسیوں کا تعین کرتی ہیں۔
لیکن معیشت کو عالمی اجارہ داریوں کے لیے مزید لبرلائز کرنے اور سرمایہ کاری کے لیے 'سازگار‘ ماحول فراہم کرنے کے نتیجے میں ایک طرف تو شرح نمو اپنی بلند ترین سطح 10.26 فیصد (سال 2010ئ) تک پہنچ گئی‘ اور ملک میں ڈالر ارب پتیوں کی تعداد 141 پر پہنچ گئی۔ دوسری طرف طبقاتی فرق میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق سال 2017ء میں بھارت میں 17 نئے ارب پتیوں کا اضافہ ہوا‘ لیکن اسی سال ملک میں پیدا ہونے والی دولت کا 73 فیصد اوپر کی امیر ترین 1 فیصد آبادی کی جیبوں میں چلا گیا‘ جبکہ 67 کروڑ یعنی ملک کی آدھی آبادی کی دولت میں محض ایک فیصد کا اضافہ ہو سکا۔ ہفنگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت بھارت میں بے روزگاری گزشتہ بیس سالوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ بے روزگاری کے ساتھ ساتھ کم اجرتیں بھی سنگین مسئلہ ہیں۔ بھارت میں اب لوگ کم سے کم معاوضے پر بھی کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تاکہ جان و تن کا رشتہ قائم رکھ سکیں‘ اپنے بچوں کو شام کو کچھ کھلا سکیں۔ 82 فیصد مرد اور 90 فیصد خواتین ماہانہ دس ہزار روپے سے کم کماتے ہیں جبکہ ساتویں سینٹرل پے کمیشن کی سفارشات کے مطابق کم سے کم اجرت ماہانہ 18 ہزار روپے ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ جی ڈی پی کی نمو اور روزگار کی تخلیق کے درمیان تناسب بھی تضادات سے بھر پور ہے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں اگر جی ڈی پی کی شرح نمو 3 سے 4 فیصد ہوتی تھی تو روزگار کی تخلیق 2 فیصد سالانہ تھی۔ اب حالت یہ ہے کہ جی ڈی پی تو 7 فیصد کی شرح نمو سے بڑھ رہا ہے لیکن روزگار کی تخلیق 1 فیصد سالانہ ہے۔ یوں دنیا بھر کی طرح ہندوستان میں بھی 'جاب لیس گروتھ‘ کا مظہر بڑا واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE) کے مطابق سال 2018ء میں بیروزگاری جولائی 2017ء کے 3.4 فیصد سے بڑھ کر اب 7.1 فیصد ہو چکی ہے۔
نریندر مودی جس معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی اور غربت کے خاتمے کے نعروں کے ساتھ 2014ء کے انتخابات میں اقتدار میں آیا تھا‘ وہ تو پورے نہ ہوئے‘ ہاں البتہ اس نے اپنی ناکامی اور خفت کو چھپانے کے لیے مذہب اور ذات پات کی بنیادوں پر تقسیم اور فسادات کو اس دوران خوب ہوا دی گئی۔ دوسری طرف اس معاشی، سیاسی اور سماجی جبر کے خلاف آواز اٹھانے والے سماجی کارکنوں، بائیں بازو کے سیاسی ورکروں اور ترقی پسند آوازوں کو ہندو بنیاد پرست تنظیموں اور ریاستی جبر کے ذریعے 'غدار‘ اور 'پاکستانی ایجنٹ‘ کے الزامات لگا کر خاموش کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی۔
حالیہ برسوں میں اس معاشی جبر اور مودی کی سرمایہ نواز پالیسیوں کے خلاف بھارت میں محنت کشوں نے شاندار جدوجہد اور ہڑتالیں کی ہیں۔ اس سال غریب کسانوں نے ریاست مہاراشٹر میں دارالحکومت ممبئی کی طرف قرضوں کی معافی اور اپنے دیگر مطالبات کے لیے ہزاروں کی تعداد میں مارچ کیا۔ اس مارچ میں طلبہ کی شمولیت اور یکجہتی نے ایک معیاری فرق پیدا کیا اور اس دیوہیکل مارچ کی وجہ سے سرکار کو ان کی مانگیں ماننا پڑیں۔ اسی طرح ستمبر 2015ء میں پندرہ کروڑ سے زائد ہندوستان کے طاقتور پرولتاریہ نے عام ہڑتال میں حصہ لیا۔ اگلے سال یعنی 2016ء میں بھی اٹھارہ کروڑ سے زائد مزدوروں نے ایک دن کی عام ہڑتال کی۔ ہندوستان کے محنت کشوں کی یہ جدوجہد اور ہڑتالیں مودی اور ادتیا ناتھ جیسے مذہبی جنونیوں کے نیو لبرل معاشی نسخوں اور مذہبی تقسیم کی وارداتوں کو ایک منہ توڑ جواب ہیں۔ بھارت کا محنت کش طبقہ اس لڑائی میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی بڑی اور عوامی حمایت کی حامل کمیونسٹ پارٹیاں کب بورژوا جمہوریت اور سیکولرازم کی آنکھ مچولی کے کھیل سے باہر نکلیں گی۔ اگر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)، جو ہندوستان میں بائیں بازو کی سب سے بڑی پارٹی ہے، اصلاح پسندی کو مسترد کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلابی پروگرام اپناتی ہے یا کسی اور شکل میں انقلابی قیادت کا ابھار ہوتا ہے تو ہندوستان کے دیوہیکل محنت کش طبقے کو سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔