تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     11-02-2019

فیض آباد دھرنے کا فیصلہ

گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان نے2017ء میں تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے اور اس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کے ضمن میں اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ فاضل جسٹس فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ اس فیصلے پر ہماری سیاسی جماعتوں، میڈیا ارکان کے ساتھ ساتھ متعلقہ ریاستی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بغور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس فیصلے کی بازگشت ہماری وکلا برادری کے حلقوں میں سنائی دینی چاہئے تاکہ اس میں دی گئی ناصحانہ ہدایات پر بحث کی جا سکے اور ہمارے آئینی اداروں میں مختلف مراحل پر ان کو نافذ بھی کیا جا سکے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ثمرآور انداز تحریر میں اس فیصلے کا آغاز ان واقعات کے تناظر میں کیا‘ جو الیکشن ایکٹ 2017ء میں ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کے الفاظ میں کی گئی تبدیلی کے بعد رونما ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کس طرح اس دھرنے نے اسلام آباد اور راولپنڈی کو مفلوج کر دیا تھا جس سے عوام کی نقل و حرکت محدود ہو کر رہ گئی یا سرے سے رک ہی گئی اور وہ عدالتوں سکولوں، کالجوں اور ملازمتوں پر نہ جا سکے۔ اس فیصلے میں ساتھ ہی یہ بھی آبزرو کیا گیا ہے کہ ''دھرنا قائدین نے عوام کو ڈرایا دھمکایا، غیر اخلاقی زبان استعمال کی اور ملک میں نفرت اور اشتعال پھیلایا جبکہ حکومت سے مخاصمت رکھنے والوں نے ان کی حمایت کی اور میڈیا نے تحریک لبیک پاکستان کو بلا رکاوٹ کوریج کی سہولت فراہم کی‘‘۔ ان حالات میں عدالت عظمیٰ نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس کا نوٹس لیا‘ اور اسے مفاد عامہ کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا متقاضی ہے۔
اس کیس کی سماعت کے دوران انٹیلی جنس بیورو، وزارت داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کی طرف سے پیش کردہ رپورٹس میں ''احتجاجی مظاہرین کے غیر قانونی اقدامات، اور دھرنے کی جگہ (ڈیموکریسی پارک اور سپیچ کارنر) تبدیل کرنے کے وعدے کی بار بار خلاف ورزی کے بارے میں بتایا گیا‘‘۔
معزز عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ (25 نومبر 2017 کو آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال سمیت) حکومت نے ہر حربہ استعمال کیا‘ مگر مظاہرین منتشر نہ کیے جا سکے؛ چنانچہ حکومت نے سول اداروں کی مدد کے لیے فوج بلانے کے حوالے سے ''آئین کے آرٹیکل 245 کا استعمال کیا‘‘۔ مگر جیسا کہ معزز عدالت نے آبزرو کیا ہے کہ ''فوج تعینات کرنے سے قبل ہی حکومت اور مظاہرین میں معاملات طے پا گئے‘‘ اور وہ ''وردی پوش اہلکاروں سے رقوم لینے کے بعد منتشر ہو گئے‘‘۔ ان حالات میں معزز عدالت کا یہ فیصلہ فیض آباد دھرنے کے بطن سے جنم لینے والے معاملات کے وسیع تر پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ مثلاً 1۔ ماضی کے دھرنوں اور احتجاجوں کی تاریخ‘ اور کس طرح متعلقہ جماعتوں کیخلاف کبھی کوئی کارروائی نہ کی گئی۔2۔ ہمارے آئین میں دیئے گئے ''احتجاج کے حق‘‘ کا مجموعی سکوپ اور دائرہ کا ر، 3۔ تحریک لبیک پاکستان کو ہونیوالی فنڈنگ سے متعلقہ امور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے کسی قسم کی کارروائی میں ناکامی۔ 4۔ نفرت انگیز تقاریر پر پیمرا کی طرف سے کسی قسم کی کارروائی کا فقدان۔5۔ ہمارے آئین کے اسلامی شعائر کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے نفرت انگیزی کی ممانعت، 6۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے طے شدہ قانونی اور آئینی ''مینڈیٹ‘‘ کی ضرورت، 7۔ متذکرہ بالا پہلوئوں کے حوالے سے ہدایات اور ڈیکلیریشن۔
ہم بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ بالکل جائز نشاندہی کی ہے کہ ریلیوں کا انتظام یا انہیں منتشر کرنا ''وردی پوش‘‘ اہل کاروں کا کام نہیں ہے۔ ان کا یہ فرمان بھی بالکل درست ہے‘ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ عوام کیلئے تکلیف کا باعث بننے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہونی چاہیے اور ان لوگوں کے خلاف بھی‘ جو 2007ء میں کراچی کے وحشیانہ قتل عام کے ذمہ دار ہیں اور اس ضمن میں پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ یہ کہنا بھی ضروری ہو گا کہ 2017ء میں ٹی ایل پی کی طرف سے دیا گیا دھرنا بالکل بلا جواز تھا (کیونکہ حکومت ان کے مطالبے کے پیش نظر آئین میں ضروری ترمیم پہلے ہی کر چکی تھی)۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے اس حکم کی پُرزور حمایت کی جانی چاہیے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس سے ''انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مینڈیٹ کی حدود کی پوری صراحت سے وضاحت ہو‘‘۔ اس ضمن میں معزز عدالت کے فیصلے میں ''Previous Protests and TLP Dharna‘‘ کے سیکشن میں دو سابق عوامی احتجاجوں کا ذکر ہے۔ اول: وکلا تحریک کے دوران بارہ مئی 2007 کو کراچی کا قتل عام، دوئم: 2014ء میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے خاص طور پر لکھا ہے کہ سانحہ بارہ مئی کے مرتکب افراد کو کوئی سزا نہیں دی گئی‘ اور ''جیوڈیشل انکوائری کمیشن کی طرف سے پی ٹی آئی کے الزامات مسترد کیے جانے کے بعد کسی کو بھی منفی نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘‘۔ نتائج کا خمیازہ نہ بھگتنے کی وجہ سے ٹی ایل پی والوں کے حوصلے اور بلند ہو گئے اور دھرنا شرکا نے قانون کی خلاف ورزی کی (ڈپٹی کمشنر نے دفعہ 144نافذ کر دی تھی) اور 163,952,000 روپے کی پراپرٹی تباہ کر دی گئی۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں معاشی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئیں‘ جس کے نتیجے میں ملک کے جی ڈی پی کو 88,786,180,821 روپے کا روزانہ نقصان اٹھانا پڑا‘ کسی کو تو اس نقصان کی تلافی کرنی چاہیے (دھرنا شرکا)۔ بات بالکل سمجھ میں آ گئی۔ ریاست کو چاہیے کہ اس سلسلے میں ضروری کارروائی کا آغاز کرے۔
تاہم جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کے فیصلے میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کیا یہی اصول وکلا تحریک پر بھی لاگو ہونے چاہئیں۔ کیا اس وقت دفعہ 144نافذ نہیں تھی؟ کیا ہمیں یہ تخمینہ لگانا شروع کر دینا چاہیے کہ وکلا تحریک سے ملک بھر میں کتنا معاشی نقصان ہوا تھا؟ دو سال تک ہر جمعرات کو مال روڈ کو بلاک کرنے کے بارے میں کیا کہیں گے؟ اسی طرح عدالتوں، ہسپتال اور سکول جانے والوں کے راستوں میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ 2009ء میں وکلا کے لانگ مارچ کے دوران جی ٹی روڈ پر شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے آئینی حق کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا اس نقصان کا ازالہ بار کونسل کرے گی؟
ماضی میں ہونے والے احتجاجوں کی بات کریں تو نواز شریف کی جی ٹی روڈ والی ریلی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ نقصان نواز شریف سے پورا کیا جائے گا؟ کیا معزز عدالت اپنے کسی فیصلے میں اس امر کی وضاحت کر دے گی کہ کیا ان دھرنوں، احتجاجوں اور ریلیوں میں 'قلیل مدتی اور طویل مدتی‘ کا آئینی فرق بھی موجود ہے۔ اگر ایسا ہے تو احتجاج کی کتنی مدت کے بعد احتجاج کرنیوالی جماعت کو نقصان کا جرمانہ پڑنا شروع ہو جائے گا؟
فاضل عدالت کو اس امر کی وضاحت بھی کر دینی چاہیے کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے کم مراعات یافتہ طبقات احتجاج یا سڑک بلاک نہیں کر سکتے‘ محض اس وجہ سے کہ وہ اس ناگزیر نقصان کا ازالہ کرنے سے قاصر ہیں؟ اس احتجاج کے بارے میں کیا خیال ہے‘ جب نابینا سرکاری ملازمین نے لاہور میں مال روڈ بلاک کر دی تھی؟ کیا ان کے احتجاج کو بھی نقصان کی ادائیگی کی استطاعت کے ترازو میں تولا جائے گا؟ کیا اب تمام شہریوں کو پہلے (شہر سے باہر) کسی احتجاجی مقام کا ٹکٹ خریدنا پڑے گا اور پھر یہ امید رکھنا ہو گی کہ حکومت ایک کھلے میدان میں ہماری نعرے بازی اور ہماری آواز کو سنے گی؟ یا اس کے بجائے عوام کے احتجاج کے آئینی حق کا خرچہ ریاست کو اٹھانا چاہیے؟
معزز عدالت نے فیصلے میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ''اسمبلی کے حق‘‘ کو کسی ''انقلاب یا بغاوت کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا‘‘ نیز یہ کہ حکومت کی اجازت کے بغیر سڑک پر کوئی جلسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات کی بھی وضاحت کی درخواست ہے۔ فیض آباد دھرنے پر فاضل عدالت کے فیصلے کا مقصد ایک ذمہ دار معاشرے کی تشکیل ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں مقتدر حلقے سیاست سے گریز کریں۔ سٹریٹ پاور کو ریاست کو یرغمال بنانے کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ اور قانون کی خلاف ورزی پر لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے؛ تاہم ہم امید کرتے ہیں کہ اس فیصلے کو اجتماع اور احتجاج کے آئینی حق کا گلا گھونٹنے کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یقینا معزز عدالت کے اس فیصلے کی منشا بھی ہرگز یہ نہیں ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved