قارئین! کالم کے باقاعدہ آغاز سے قبل مرحوم و مغفور جہانگیر بدر کی ''سنڈے برنچ‘‘ روایت کا ذکر ضروری ہے۔ اُن کے صاحبزادے ذوالفقار علی بدر اپنے والد کی روایات کے علمبردار ہیں۔ برادرِ محترم حسن نثار کی قیادت میں ڈی آئی جی راجہ رفعت، سینئر بینکر عثمان بھٹہ، ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی میاں ریاض اور سابق صوبائی وزیر اطلاعات احمد وقاص ریاض جیسے ہردلعزیز دوستوں کے ہمراہ ذوالفقار علی بدر کے گھر ناشتے پر مدعو تھا۔ روایتی لاہوری ناشتے سے ''دھت‘‘ ہو کر ابھی لوٹا ہوں‘ اور کالم بھی تاخیر سے ہی شروع کیا ہے۔ یہ دھڑکا بھی لگا ہوا ہے کہ ابھی برادرم سجاد کریم کا فون آتا ہی ہو گا‘ اور وہ محبت بھرا گلہ کریں گے کہ ابھی تک آپ کا کالم موصول نہیں ہوا۔ ان کے متوقع فون کے دھڑکے نے ناشتے کا سارا خمار ہی ہوا کر دیا ہے۔ اب چلتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔
سول سروس کو سیاسی مداخلت سے بچانے کے لیے سیاست دانوں کی تربیت ضروری ہے... سرکاری افسران بلا خوف و خطر اپنی ذمہ داری سرانجام دیں... احتساب اور میرٹ نظام میں بہتری لانے کے اصول ہیں... سول سرونٹس کو بے جا تنگ کرنے سے کام رُک جاتا ہے... عہدے پر تعیناتی کے دورانیے کو تحفظ حاصل ہو گا... ہر تقرری میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھ کر کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ عزائم ہیں‘ جن کا اعادہ وزیراعظم پاکستان نے سول سروس ریفارمز ٹاسک فورس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سال نو کے آغاز پر بھی انہوں نے کچھ اسی قسم کے جذبات پر مبنی قوم کے نام پیغام میں یہ خوشخبری دی تھی کہ امسال ملک بھر سے غربت، جہالت، ناانصافی اور کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے۔ یعنی 2019ء میں وزیراعظم صاحب نے ان تمام ناسوروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی نوید قوم کو سنائی تھی۔
وزیراعظم صاحب کی نیت اور عزم بجا اور صائب سہی‘ لیکن خدا جانے وہ کون سا آسیب ہے‘ جو حکمرانوں کی نیک نیتی اور ان کے عزم کے باوجود ان سے ایسے فیصلے کروا دیتا ہے‘ جن سے نہ صرف حکمرانوں کے اعلامیے کی نفی ہوتی ہے بلکہ ان کی گورننس پر بھی کڑے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ حکمرانوں کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی کہ ان کی نیک نیتی اور گورننس کے عزم کا کیا ''حشرنشر‘‘ کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم صاحب کے یہ خیالات جان کر نہ جانے کیوں مجھے فلم ''اَمر پریم‘‘ کا وہ گانا یاد آ گیا جس کے بول کچھ یوں ہیں:؎
چنگاری کوئی بھڑکے تو ساون اُسے بجھائے
جو ساون آگ لگائے اُسے کون بجھائے
یعنی سیاست دانوں کی تربیت اور سرکاری افسران کو بلا خوف و خطر کام کرنے کی ہدایات دینے والے جب اپنے ہی عزائم اور بیانیے کے برعکس اقدامات اور فیصلے کریں گے تو معاملہ پھر اس شعر جیسا ہی ہو گا۔ تحریک انصاف کو برسرِ اقتدار آئے چھ ماہ پورے ہونے کو ہیں‘ لیکن مردم شناسی اور ''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے تصور کی کمی روزِ اوّل سے محسوس ہو رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی نامزدگی سے لے کر بیشتر وفاقی، صوبائی وزیروں اور مشیروں سمیت اہم حکومتی اداروں کے سربراہان کی تقرریوں تک... سبھی وزیراعظم صاحب کی توقعات اور ویژن کی نفی کرنے کی ریس میں دوڑے چلے جارہے ہیں‘ اور جناب وزیراعظم ''حصہ بقدر جثہ‘‘ سبھی کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا ایسا چونکا دینے والا فیصلہ کیا گیا جو آج نہیں تو کل خود فیصلہ سازوں کیلئے آزمائش ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کو ہی لے لیجئے۔ خدارا اسے محض براڈ کاسٹنگ کا ادارہ تصور نہ کیا جائے بلکہ اس کی فنی اور قومی اہمیت کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ یہ ایک انسٹی ٹیوشن ہے... ایک درسگاہ ہے۔ اس ادارے کی غیر معمولی ''کانٹریبیوشن‘‘ ناقابلِ تردید ہے‘ لیکن اس اہم اور حساس ادارے کو حکمرانوں کی نظرِ بد کھا گئی۔ پی ٹی وی سینٹرز کی رونقیں بھی اسی ''نظر بد‘‘ کا شکار ہو گئیں۔ پی ٹی وی پر میرٹ اور ٹیلنٹ کے دروازے بند کرکے درباریوں اور مداریوں کو اس کی باگ دوڑ سونپی جاتی رہی۔ ''پروفیشنل اَپروچ‘‘ کا بیج مار کر اس باوقار ''سٹیٹ میڈیا‘‘ کو ہر حکومتِ وقت کا میراثی بنا دیا گیا۔ ماضی میں پی ٹی وی کے تیارکردہ ڈرامے بین الاقوامی شہرت پاتے تھے۔ اسی طرح ٹیلی فلمز، سٹیج شوز، ٹاک شوز، ڈاکومنٹریز اور طنزومزاح پر مبنی پروگرام آج بھی انمول شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد بدقسمتی سے پاکستان ٹیلی ویژن ایک گروہ کے ہتھے چڑھ گیا‘ جو اس ادارے کو اس طرز پر چلا رہا ہے‘ گویا پی ٹی وی کو خدانخواستہ آخری بار چلایا جا رہا ہو... اور بتدریج اس کی وہ حالت کی جا رہی ہے کہ حکومت خود اس سے جان چھڑائے اور اونے پونے کسی کو دے ڈالے۔ اس ادارے کو جس کے حوالے کیا گیا جلد ہی اسے احساس ہوا کہ نشانہ چوک گیا ہے۔ وہ جس عہدے پر براجمان ہے‘ اس کے پاس نہ تو اختیار ہے‘ نہ ہی لمبا چوڑا مالی پیکیج... اور ویسے بھی عطاالحق قاسمی پہلے ہی پی ٹی وی کی چیئرمینی کے چکر میں عزتِ سادات گنوا چکے ہیں۔ اس تناظر میں ان صاحب نے ایک اور عہدے کے لیے ''گھات‘‘ لگا لی۔ وزیراعظم کو ناجانے کیا چکر دیا کہ وہ ان کے جھانسے میں آ گئے۔ ان صاحب‘ جو وفاقی وزیر اطلاعات کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے، نے اپنے عزائم کی تکمیل اور مفادات کے تحفظ کے لیے وزیر اعظم آفس کو بھرپور استعمال کیا اور اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات و نشریات کو مجبور کروایا کہ وہ انہیں نئے عہدے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیں۔ سیکرٹری اطلاعات نے قانون اور ضابطے کا سہارا لے کر مزاحمت کی تو انہیں عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس طرح سیکرٹری صاحب کو اس عہدے کی ''بَلی‘‘ چڑھا دیا گیا۔
سیکرٹری صاحب کا تبادلہ کیا ہوا ‘ جیسے ''جھاکا‘‘ ہی اُتر گیا ہو۔ ایک بینک میں اس کی ناکامی اور بدانتظامی کی طویل داستانوں کی پروا کیے بغیر وزیراعظم کے ایک اور قریبی دوست کو بھی پی ٹی وی کا ایک بڑا عہدہ دے دیا گیا۔ یہ صاحب ایک کمپنی کے مالک بھی ہیں۔ پی ٹی وی کے ساتھ ان کے مالی اور کاروباری مفادات وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کی ایک بڑے عہدے کے لیے تقرری خلاف ضابطہ اور ناقابلِ فہم ہے۔
ایک اور ہوشربا واردات ارباب بست و کشاد کی توجہ کی طلبگار ہے۔ ایک شخص کو بارہ لاکھ روپے ماہانہ پر پی ٹی وی میں ایک اہم عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔ اس تقرری کے لیے نہ توکوئی اشتہار دیا گیا اور نہ ہی کسی قانون اور ضابطے کو خاطر میں لایا گیا۔ اس طرح پی ٹی وی ایک ایسا ''مادر پدر آزاد‘‘ ادارہ بنا دیا گیا ہے جو نہ تو کسی وزارتِ اطلاعات و نشریات کو مانتا ہے اور نہ ہی کسی قانون اور ضابطے کو۔ چینل چلانے والے اس جوڑے کی قابلیت اور کارکردگی تو خیر کیا ہو گی‘ لیکن یہ واضح ہے کہ حکمران طے کر چکے ہیں کہ انہوں نے ماضی میں ہونے والے واقعات سے کچھ سبق نہیں سیکھنا‘ حالانکہ پی ٹی وی کے حوالے سے سپریم کورٹ کی کارروائی اور فیصلے نہ صرف ریکارڈ کا حصہ ہیں بلکہ سبق آموز بھی ہیں۔
لگتا ہے حکمران سابق ادوار کے تمام ریکارڈ توڑ کر پی ٹی وی جیسے اہم ادارے کو داؤ پر لگانے سے بھی دریغ نہ کریں گے۔ ابھی کل ہی تو وزیراعظم صاحب نے کہا کہ سیاست دانوں کی تربیت ضروری ہے‘ اور سرکاری افسران کو چاہیے کہ وہ بلا خوف و خطر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں‘ عہدے پر تعیناتی کے دورانیے کو تحفظ حاصل ہو گا۔ لیکن کیا کریں کہ چوبیس گھنٹے کے اندر ہی خیبر پختونخوا کے آئی جی اور چیف سیکرٹری کو چلتا کر دیا گیا‘ اور اس طرح نہ تو سیاست دانوں کی تربیت ہوئی‘ اور نہ ہی سرکاری افسران کی تعیناتی کے دورانیے کو تحفظ حاصل ہو سکا۔ اس طرح وزیر اعظم کا بیانیہ‘ بیانیہ ہی رہا‘ اور عزم‘ مزید پُرعزم ہو گیا۔ گزشتہ چھ ماہ میں اس قسم کی کئی مثالیں حکومت کے لیے قابلِ فکر ہونی چاہئیں۔