تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-02-2019

سرخیاں‘ متن اور علی اصغر عباس

ہم وسائل کی جنگ لڑ رہے ہیں:آصف علی زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہم وسائل کی جنگ لڑ رہے ہیں‘‘ کیونکہ وسائل کی سابقہ کمائی تو جعلی اکائونٹس کیس میں لگ گئی ‘جو اب واپس کرنا پڑے گی‘ اس لیے آئندہ کیلئے وسائل درکار ہیں‘ تاکہ کچھ تلافی کی صورت نکل سکے۔ اسی لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور اگر جیل ہو گئی تو اسے بھگت کر بھی یہ جنگ لڑیں گے ‘کیونکہ دس سال تو چٹکی بجا کے گزر جائیں گے‘ بلکہ پہلے کی طرح جیل میں میری صحت بھی بہتر ہو جائے گی اور میں اپنی صحت اور پرس کا ہمیشہ خیال رکھتا ہوں۔ دونوں میں کچھ کمی بیشی ہونے لگے تو حساب پورا کر لیا کرتا ہوں‘ جبکہ پرس میں تو ہمیشہ بیشی ہی ہوا کرتی ہے‘ جبکہ اب وسائل کی جنگ جیتنے کے بعد تو ستے ہی خیراں ہو جائیں گی‘ بلکہ سات کی بجائے آٹھ دس ہونی چاہئیں‘ کیونکہ جمع پونجی اتنی تو ہونی چاہئے کہ آئندہ نسلیں قیامت تک اس سے مستفید ہوتی رہیں‘ کیونکہ ہر فرد سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوگا‘ جو ہر روز سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کے برابر ہوگا۔ آپ اگلے روز ٹنڈو آدم میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران نے سانحہ ساہیوال پر عوام کے سامنے جھوٹ بولا:فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران نے سانحہ ساہیوال پر عوام کے سامنے جھوٹ بولا‘‘ اور یہ بات مجھے تین چار عوام نے خود بتائی ہے‘ جنہیں پانچ چھ آدمیوں نے بتائی تھی اور میں چونکہ عوام نہیں‘ بلکہ خواص میں شمار ہوتا ہوں‘ اس لئے انہیں میرے سامنے یہ بات کہنے‘ یعنی جھوٹ بولنے کی جرأت نہیں تھی؛ اگرچہ آج کل میری حالت عوام سے بھی کئی درجے بری ہے‘ جس کا کوئی احساس نہیں کر رہا اور جب کوئی قوم بے حس ہو جائے تو اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے‘ جبکہ اس زوال سے بچنے کیلئے اسے بانٹ کر کھانا چاہئے‘ جس سے اخوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کسی کا محتاج نہ کرے اور ظاہر ہے کہ اس کسی ''یعنی پہلے کسی‘‘ میں‘ میں بھی شامل ہوں؛ حتیٰ کہ میرے کسی مشورے کو ازخور اعتناء نہیں سمجھا جاتا‘ ورنہ میرے کل والے مشورے پر سربراہان جماعت کا اجلاس ہی بلا لیا گیا ہوتا۔ ویسے بھی ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور مجھ میں تو اتنی سکت بھی نہیں کہ اس نفسانفسی میں شامل بھی ہو سکوں۔ آپ اگلے روز بٹ خیلہ میں ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
نواز شریف لیڈر ہیں‘ ڈیل پر یقین نہیں رکھتے:پرویز ملک
مسلم لیگ ن لاہور کے صدر اور رکن قومی اسمبلی پرویز ملک نے کہا ہے کہ ''نواز شریف لیڈر ہیں‘ ڈیل پر یقین نہیں رکھتے‘‘ اور جب سے انہیں ڈیل سے حتمی انکار ہوا ہے‘ ڈیل پر سے ان کا یقین ہی ختم ہو گیا ہے ؛حالانکہ شیخ رشید نے کل ہی بیان دیا تھا کہ میں کل بتائوں گا کہ ڈیل ہو رہی یا پیکیج‘ لیکن آج وہ بھی مکر گئے اور یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ ہمارے ہاں اپنی بات پر قائم رہنے کا رواج ہی ختم ہوتا جا رہا ہے؛ حالانکہ میرے خیال میں وہ ایک معقول آدمی ہیں‘ لیکن ان کے تازہ بیان کے بعد میرا خیال تبدیل ہو گیا ہے؛ اگرچہ تبدیلی کا کریڈٹ بھی پی ٹی آئی والے لینے کی کوشش کریں گے ‘جبکہ کوشش کرنا بہت اچھی بات ہے‘ کیونکہ اللہ میاں نے بھی سعی کرنے کی تلقین کر رکھی ہے‘ جبکہ ہماری تو ہر سعی نا مشکور ہی نکلتی ہے؛ حالانکہ ہماری نیت تقریباً صاف ہی ہے اور جس میں ہاتھ کی صفائی بھی شامل ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگوکر رہے تھے۔
وزیراعظم سے شہباز شریف کے خلاف 
عدم اعتماد کی بات کی ہے:شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''میں نے وزیراعظم سے شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی بات کی ہے‘ لیکن مری بات سن کر انہوں نے منہ دوسری جانب پھیر لیا۔ میرا خیال ہے کہ ادھر سے اس وقت انہیں کوئی روحانی آواز آ رہی تھی‘ جو انہیں اکثر آتی رہتی ہے اور کوئی نہ کوئی گئی گزری روح ان کے ساتھ اکثر مکالمہ کرتی رہتی ہے‘ لیکن اس روح کو کم از کم اتنا تو خیال کرنا چاہئے تھا کہ میں وزیراعظم سے بات کر رہا تھا۔ میرے خیال میں وہ کوئی بدروح تھی‘ تاہم اس سے پہلے وزیر اعظم نے میرے بیانات کی دل کھول کر تعریف کی اور کہا کہ آپ کے بیانات سے میری عزت میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور پارٹی میں بھی یکجہتی کی فضا پیدا ہو رہی ہے اور یہ بھی کہا کہ آپ یہ دھواں دھار بیانات دیتے رہیں‘ جن سے میری عزت بنی ہوئی ہے اور یہ بھی کہا کہ وہ دیگر ارکان کابینہ کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ آپ کے اسلوب کی پیروی کریں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ماہنامہ ''فانوس‘‘ لاہور
اس جریدے کا تازہ شمارہ شائع ہو گیا ہے‘ جس میں علی اصغر عباس کے لئے گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔ مضامین لکھنے والوں میں نوید صادق‘ توقیر عباس اور عمران الحق چوہان شامل ہیں۔ منتخب کلام میں سے یہ دو نظمیں ملاحظہ فرمائیں:
چھوٹے سے اک کمرے میں
موسم کی تبدیلی/ کیسے طور دکھاتی ہے/ سرد ہوائیں برف کا لمس چرا کے/ شہروں کا رخ کرتی ہیں/ گرد اڑاتی اور دھواں پیتی/ سانسوں میں جم جاتی ہیں/ چھوٹے سے اک کمرے میں/ چارپائی پہ بوڑھا ہے/ یا وقت ضعیفی اوڑھے لیٹا/ تنہائی کی سرحد کھینچے/ یاد کا چلہ کاٹ رہا ہے/ دروازہ بھی دستک کا امکان دبائے چپکا ہے/ اجل سندیسہ روشن دان میں/ چڑیا کے انڈوں پر بیٹھا اونگھ رہا ہے!
بے چارگی
دروازے کی درزوں سے/ اندر آتی دھوپ‘ ہوا/ باہر جاتی سسکی/ تالے اور چٹخنی کو/ چپ کا زنگ لگاتی ہے/ باہر دن کا پہرا اندر کالی رات/ ایک اور چھ/ برابر سات/ چرچ‘ مدرسہ/ گرودوارہ/ مٹی ہو گئی گارا/ راکھ کا ڈھیر ستارہ!
آج کا مقطع
شعر میرا مسافر ہے اس کو ظفرؔ 
آخر اک دن کہیں پر ٹھہرنا تو ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved