قوم ایک بار پھر شدید مخمصے کا شکار ہے۔ بادی النظر میں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ جس بند گلی میں ہم دکھائی دے رہے ہیں‘ اُس سے باہر نکلنے کی صورت کیا ہوگی۔ چند غیر متوازن پالیسیوں کے باعث اور متوازن پالیسیوں پر عمل کے حوالے سے روا رکھے جانے والے تساہل کے نتیجے میں ہم آج پھر بند گلی کی سی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ افسوس ‘ تو ہوسکتا ہے‘ مگر یہ حیرت کا مقام ہرگز نہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ہم کئی بار اسی نوعیت کے شدید مخمصوں کا شکار رہے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ چھوٹی موٹی بیماریاں جسم میں کسی بہت خرابی کی نشاندہی نہیں کرتیں ‘بلکہ اُن کی مدد سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ جسم کا خیال رکھنے کے حوالے سے ہم لاپروائی اور بے حِسی کے مرتکب ہو رہے ہیں؛ اگر جسم کو پہنچنے والی کسی تکلیف کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر کچھ کیا جائے تو پیچیدگی‘ وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری عمومی سوچ یہ ہے کہ جسم کو لاحق ہونے والا ہر عارضہ کسی بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ نزلہ‘ زکام‘ بخار اور درد دراصل ویک اپ کال کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں اس ویک اپ کال پر جاگ کر ہوش کا دامن تھامنا پڑتا ہے؛ اگر ایسا نہ کیا جائے تو چھوٹی سی الجھن بہت بڑے بحران میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
روس کے مایہ ناز ادیب لیو ٹالسٹائی نے ایک کہانی لکھی تھی ‘جو کچھ یوں تھی کہ رب نے جب انسان کو تخلیق کرنے کے بعد روئے زمین پر بسایا تو اُس کے لیے خوراک کا مسئلہ حل کردیا‘ یعنی کچھ کیے بغیر سبھی کچھ کھانے کو مل جاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں انسان شدید بیزاری سے دوچار ہوا۔ اُسے خوش رکھنے کیلئے رب نے کام (مشقت) پیدا کیا۔ اب انسان خوراک کے حصول کے لیے فصلیں اگانے لگا۔ اس پر بھی روح کو فرحت بخشنے والی مسرت کا اہتمام نہ ہوا تو رب نے موت کو غیر متوقع بنادیا ‘تاکہ انسان جنگ و جدل سے دور اور مل جل کر رہیں۔ ایسا کرنے سے بھی انسان کے لیے مسرت کا سامان نہ ہوا تو رب نے بیماریاں پیدا کیں ‘تاکہ انسان میں دکھ اور سکھ کے درمیان تمیز کا شعور پیدا ہو اور وہ صحت مند ہونے کی صورت میں خوش رہے‘ رب کا شکر ادا کرے‘ یعنی جسم کو لاحق ہونے والا کوئی بھی روگ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ انسان اپنے رب کو پہچانے‘ جو کچھ ملا ہے‘ اُس پر شکر ادا کرے اور بلا جواز شکوہ و شکایت سے دور رہتے ہوئے ‘ہنسی خوشی زندگی بسر کرے۔
ٹالسٹائی کی یہ کہانی انوکھی نہیں۔ اسلام سمیت ہر مذہب میں یہ بات اسی طرح بیان کی گئی ہے۔ انسان کو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جو کچھ بھی ملا ہے‘ اُس پر راضی رہتے ہوئے اپنی اور ماحول کی اصلاح پر مائل رہنا چاہیے۔
معاشرہ کہاں کھڑا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ تشکر کا وصف قریباً ناپید ہوکر رہ گیا ہے۔ جو مل چکا ہے‘ اُس سے مستفید ہونے کی بجائے لوگ اُس کا رونا روتے رہتے ہیں‘ جو ملنے سے رہ گیا۔ ہر وقت رب سے شکوہ کرتے رہنے کی عادت انسان سے سے روحانی سکون بھی چھین لیتی ہے اور جسمانی عوارض میں بھی مبتلا کردیتی ہے۔ جب ہم رب سے راضی رہنے کی روش ترک کردیتے ہیں‘ تب اپنے آپ سے راضی رہنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ ایسے میں فرار کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ انسان رب سے ناخوش ہونے کے بعد جس شدید روحانی بحران سے دوچار ہوتا ہے‘ اُس سے فرار کے لیے کسی نہ کسی لَت کا سہارا لیتا ہے۔ بات بہت عجیب ہے۔ سیدھی سی راہ پر چلنا گوارا نہیں ہوتا اور زمانے بھر کی پیچیدگیوں کو گلے کا ہار بنانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی!
انسان پر جو بھی پریشانی نازل ہوتی ہے‘ اُس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اُسے اعمال کی سزا دی جارہی ہو اور دوسرے یہ کہ رب کی طرف سے آزمائش ہو رہی ہو۔ ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ ہم رب کی نگاہِ انتخاب میں سمائیں اور ہمیں آزمایا جائے۔ ہمیں تو جو کچھ بھی جھیلنا پڑتا ہے ‘وہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف تو ہماری خامیوں اور اُن کے نتیجے میں رونما ہونے والی کوتاہیاں ہیں اور دوسری طرف بیشتر معاملات میں ہمارا غیر متوازن رویہ ہے ‘جو خرابیوں پر خرابیاں پیدا کیے جاتا ہے اور ہم ہیں کہ اس رویے کو ترک کرنے کی بجائے پروان چڑھاتے چلے جاتے ہیں۔
اگر اپنے اعمال کے نتائج کی روشنی میں معاملات کا جائزہ لیں‘ تو اندازہ ہوگا کہ قدرت کی طرف سے تو ہمیں کئی بار ویک اپ کال دی گئی ہے‘ مگر ہم ہیں کہ متوجہ ہونے کو تیار ہی نہیں۔ بے حِسی دل و دماغ پر ایسی چھائی ہے کہ اُترنے کا نام نہیں لیتی۔ حالات کی روش خواہ کچھ کہہ رہی ہو‘ ہم ہیں کہ اپنی ہی روش پر گامزن رہتے ہیں۔ ہمیں اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ دنیا کیا چاہتی ہے‘ کہاں جارہی ہے۔ خوش فہمیوں کا نشا ایسا چڑھا ہے کہ ہمیں گرد و پیش کا ہوش ہی نہیں۔
پاکستان پر چھوٹی بڑی مشکلات آتی رہی ہیں۔ متعدد چھوٹے مسائل جب مسلسل نظر انداز کیے جائیں تو بڑے بحران کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ہمارا بھی یہی کیس ہے۔ فی زمانہ کوئی بھی معاشرہ مسائل اور بحرانوں سے مبرّیٰ نہیں ‘مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمت ہار دی جائے‘ ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیئے جائیں۔ قدرت نے ہر مشکل میں ہمارے لیے تھوڑی بہت آسانی بھی رکھی ہے۔ جب ایک دروازہ بند ہو جاتا ہے تو ہمیں کوئی دوسرا‘ بہتر دروازہ ڈھونڈنے اور کھولنے کی تحریک ملتی ہے۔
کسی نہ کسی شکل میں قدرت کی طرف سے ہمیں ویک اپ کال تو ملتی ہی رہتی ہے ‘مگر ہم متوجہ نہیں ہوتے۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب دینا بہت مشکل ہے‘ کیونکہ موثر جواب کی تلاش میں بہت سی دنیاؤں کی خاک چھاننا پڑے گی۔ قصہ مختصر‘ ہم شاید اس لیے جاگ نہیں پاتے کہ ویک اپ کال کے لیے ہم نے قدرت کے عطا کردہ متعلقہ ڈیوائس کو mute کر رکھا ہے! جب آواز ہی بند ہوگی تو ہمیں ویک اپ کال کیونکر سُنائی دے گی؟
یہ دنیا ہر دور میں تبدیلیوں سے عبارت رہی ہے‘ پھر بھلا ہم یہ کیسے فرض کرلیں کہ آج یہ اصول کارفرما نہیں رہا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہر طرف صرف تبدیلیاں ہیں۔ ہمیں قدم قدم پر کسی نہ کسی حوالے سے نیا پن دکھائی دیتا ہے۔ یہ پل پل بدلتی ہوئی دنیا پوری کی پوری ہمارے لیے ویک اپ کال ہے۔ ہمیں جاگنا ہے اور پوری طرح ہوش میں آکر اپنے لیے ایسی ڈگر منتخب کرنا ہے‘ جو منزل تک لے جاتی ہو۔ وقت اپنی اصل میں بے حد و حساب ہے‘ مگر در حقیقت کم رہ گیا ہے۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ ہمیں اپنے لیے کچھ بامقصد کرنے کی تحریک دے جاتا ہے۔ یہی اصل ویک اپ کال ہے۔ بیدار ہونا اور ہوش میں آنا لازم ہے۔ ہر پریشان کن لمحہ ہم سے صرف اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام غیر متعلق معاملات سے دامن چھڑاکر‘ منہ موڑ کر صرف کام کی باتوں پر متوجہ ہوں؛ اگر ویک اپ کال پر متوجہ نہ ہوا جائے ‘تو قدرت کی طرف شٹ اپ اور پیک اپ کال آتی ہے!